Ad Code

Responsive Advertisement

روزِ قیامت سزا و جزا

 

  (PhD scholar)Lubna Shah 

روزِ قیامت سزا و جزا

Imagine for a while کہ ہم سب مر چکے ہیں محشر برپا ہے ۔ اعمال نامے تقسیم ہو چکے ۔سب ایک ایک کرکے اللہ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ حساب کتاب شروع ہے۔ہر نفس خوف ذدہ اور ہر چہرہ دہشت ذدہ ہے رحمٰن کے سامنے پیشی سے دل لرزاں ہیں۔دعائیں بے اثر اور توبہ کے دروازے بند ہوچکے ۔ اتنے میں استاد کی پیشی کا وقت ہو جاتا ہے ۔اس کو حاضری کے لیے پکارا جاتا ہےاور اس کا دل تیزی سے دھڑکنا  شروع ہوجاتا ہے  وہ دل میں دعائیں مانگنا شروع کردیتا ہے۔۔۔ لیکن یہ کیا؟؟ دعائیں تو دنیا میں مانگی جاتی ہے اب تو وقت نہیں رہا ۔وہ توبہ کرنا چاہتا ہے لیکن توبہ کا وقت بھی ختم ۔

 The time is over for every deed and now is the time for awarding.

ہر آرزوفنا، ہر خواب چکنا چور.اپنا ایک ایک نیک عمل دماغ میں تیزی سے گھوم کر یاد آ رہا ہے.لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے  گناہ بھی ذہن میں اچانک گھومنے لگ جاتے ہیں۔یکایک ایک حدیث یاد آجاتی ہے ۔’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً[1] ‘‘یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔اور اسی کے ساتھ وہ اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہےکہ میں دنیا میں اسی پیشہ معلمی سے وابستہ تھا۔ساری زندگی اسی میں گزار دی تھی چنانچہ اس لحاظ سے ایک نسبت ت وبنتی ہے۔۔۔۔۔اسی شش و پنج میں اللہ کے حضور حاضر ہوتا ہے۔نامہ اعمال کھول دیا جاتا ہے۔۔۔۔اتنے میں ایک بچہ سامنے آتا  ہے اور  اپنے حق کامطالبہ کرتا ہے۔۔۔۔استاد جی آپ نے اکثر سکول میں ہم سے پن ،پنسل وغیرہ  لے کر کبھی واپس نہیں کیا۔استاد جی کے ہوش اڑ جاتے ہیں ارے اتنی چھوٹی سی چیز کا بھی حساب دینا ہوگا؟؟؟۔۔۔یاد ہے استاد جی !کئی بار آپ نے ہماری حق تلفی کی ۔ہمارا وقت ضائع کیا۔ کبھی ہمارے مستقبل کی فکر نہ کی بس اپنی تنخواہ کی فکر لگی رہتی۔۔۔استاد کا سر چکرانے لگتا ہے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں دکھائی دینے لگتا ہے کیوں کہ اب تو مہلت بھی نہیں مل سکتی دنیا میں واپس جا کر یہ سارے حقوق ادا کرنے کی۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثَنَايَاهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: " رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي ‌مَظْلِمَتِي ‌مِنْ ‌أَخِي، فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيكِ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي " قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ)(هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ )[2] ‘‘

حضرت انسؓ سے روایت ہےکہ حضورﷺبیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمرؓنے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔

کلرک کی باری آئی تو اسے اپنے تمام کرتوت یاد آنے لگے رشوت کے انبار اس کی آنکھوں میں چبھنے لگے۔اسے ایک شخص سامنے آ تا دکھائی دیا جس کا جائز حق اس کلرک نے دبا رکھا تھا۔

 کیا اسے یہ حدیث نہیں پہنچی تھی’’ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الراشي والمرتشي في النار ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

                     


ہاں ایک ڈاکٹر کی باری بھی آتی ہے  اس کے ذہن میں بار بار یہ بات گھوم رہی ہے’’ وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا[3]‘‘          کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی  گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ہاں ڈاکٹر صاحب نے کئی لوگوں کا علاج کیا ہے ان کی زندگیاں بچائی ہے۔۔۔۔لیکن آج اسے وہ چہرے بھی نظر آرہے ہیں جو اس کی غفلت کی وجہ سے موت  کا شکار ہوئے تھے ۔دنیوی فائدے کی خاطر  لوگوں کی  زندگیوں سے کھیلا تھا۔جعلی ادویات ،بھاری فیس، پیسوں کے لئے بے ضرورت   آپریشن  اور ان جیسے کئی غلط کام دنیا میں کر چکے تھے ۔آ ج ان سب کی جواب دہی کا وقت ہے۔ کون بچائے گا  آج؟؟ کس کس کا حق ادا کرو گے اور کیسے؟؟اللہ تعالی اپنا حق تو معاف فرما دیتا ہے لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں کرتا۔

فعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ[4]

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ سے ظلم کیا ہو تو آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کےمظلوم ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔

میدان حشر میں ہر اچھے برے  اور نیک و  بد سے  حساب   لیا جا رہا ہے۔بادشاہ  اور وزیر اعظم سے لے کر ادنیٰ ترین  شخص تک   ہر کوئی اپنے غم میں مبتلا ہے۔ بادشاہ و گدا، امیر غریب ، مرد و عورت ،بچہ  بڑا، ڈرائیور،دکاندار،استاد،شاگرد، ڈاکٹر،کلرک، بنک مینجر،چوکیدار،حوالدار،زمیندار سب آج برابر ہیں  آج کسی کا کوئی  عہدہ  کام نہیں آئے گا  نہ کسی کی سفارش قبول ہوگی۔

وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(48)

اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔

                                        

ٹھہرئےجناب !  آپ مرے نہیں آپ  زندہ ہیں ۔ سب ذراغور کیجئے اپنے اعمال پر اور  رجوع کر لیں اپنے رب سے۔توبہ کیجئے اور اپنی اصلاح کی فکر کیجئے۔تیرا رب بڑا مہربان ہے۔  معاف  فرمانے والا ہے۔نیکی کے کاموں میں سبقت کیجئے نیکیاں گناہوں کو بہا لے جاتی ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ  ۚ [5]

بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔



حوالہ جات:

[1] ۔سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:229

[2] ۔المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية برقم 8718  ،ج: ِ 4،ص: 620

[3] ۔سورہ المائدہ،آیت :32

[4] ۔ البخاری رقم  الحدیث:2449

[5] ۔سورہ ھود،آیت: 114

Post a Comment

0 Comments

Close Menu