فہرست
صفحہ نمبر |
عنوان |
نمبر شمار |
3 |
مقدمہ |
1 |
4 |
المبحث الاول |
2 |
- |
جرح کا لغوی و
اصطلاح مفہوم |
3 |
5 |
جرح کا شرعی حکم |
4 |
6 |
تعدیل کےلغوی و اصطلاحی
معنی |
5 |
7 |
المبحث الثانی |
6 |
- |
جرح وتعدیل کی
تعریف |
7 |
- |
جرح و تعدیل کی
مشروعیت |
8 |
8 |
شرعی حیثیت قرآن و
حدیث کی روشنی میں |
9 |
9 |
جرح کے الفاظ مع
مفہوم |
10 |
- |
تعدیل کے الفاظ مع
مفہوم |
11 |
10 |
علم جرح وتعدیل کی
تدوین |
12 |
11-12 |
علم الجرح و
التعدیل پر لکھی گئی چند کتابیں |
13 |
13 |
خلاصہ |
14 |
14 |
نتیجہ |
15 |
- |
مراجع |
16 |
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ
الحمد للہ وکفٰی والسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی
الّٰلھمَّ
ارنیِ الحق حقّا وّارزقنیِ اِتّباعہ وارنیِ الباطل باطلا وّرزُقنِی اجتنابہ۔
ربِ یسّر ولا تعسّر وتمّم بالخیر،یا ارحم الرّاحمینَ،
ربَّنا تقبّل منّا انّک انتَ السّمیعُ العلیمُ۔
امّابعد!
علوم شرعیہ میں جوعلم افضلیت کا درجہ رکھتاہے وہ ہے علوم الحدیث۔سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں : لا اعلم علماافضل من علم الحدیث،علامہ سیوطیؒ تدریب میں اس علم کی شرافت کے بارے میں فرماتے ہیں کے دیگر تمام علوم شرعیہ اس علم کی محتاج ہے۔علوم شرعیہ پانچ ہیں حدیث،فقہ، تفسیر،اصول فقہ اور علم العقائد اور بعض علمائ نے تصوف کو مستقل شمارکر کے علوم دینیہ بجائے پانچ کے چھ قرار دیئے ہیں۔ علوم الحدیث ایک وسیع وعریض علم ہے۔ اس علم میں حدیث کے مبادی اس کے سند و متن کے احول اور اخذ و روایت کے طریقوں سے بحث کی جاتی ہے ۔علم جرح و تعدیل علوم حدیث کی ایک اہم شاخ ہے جس میں راویان حدیث کے احوال سے بحث کی جاتی ہےکہ آیا ان کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں اور روایت کے قبول اور رد کا انحصار رواۃ میں کسی عیب یا صفت پر ہوتا ہے۔
زیر نظر بحث اسی علم یعنی علم جرح و تعدیل کے بارے میں ہیں۔
کیونکہ علوم حدیث پر ہر زمانے میں کئی ضخیم کتابیں مدون ہوئی جن میں علم جرح و
تعدیل کو مدلل انداز میں بڑی وضاحت کے
ساتھ بیان کیا گیاہے۔ لہٰذا یہاں اس بحث کامقصد اس علم کی معلومات میں اضافہ کرنا
نہیں کیونکہ ہم ابھی دشت علم و تحقیق کے نو وارد مسافر ہیں۔ بلکہ اس کا مقصد علم
جرح و تعدیل کو آسان اورمختصر انداز میں پیش کرنا ہے۔اللہ تبارک وتعالٰی ہماری اس
پہلی کوشش کو کامیاب بنائے اور ہماری
معلومات،علم، نظر کی وسعت اور تصنیف و تحریر کی پختگی میں ترقی عطا فرمائیں۔(آمین)
وما ذالک علی اللہ بعزیز
المبحث الاوّل
جَرَحَ۔ جَرْحا:باب فتح
سے ہے جس کے معنی ہیں زخمی کرنا،کہا جاتا ہے "جرحہ بلسانہ" یہ اس وقت کہا جاتا ہےجب کسی شخص کو برا بھلا کہا گیا
ہو۔اسی سےہے"جرح الشاہد"جب گواہ
کو مطعون و عیب دارقرار دے کر اس کے قول اور اس کی گواہی کو رد کر دیا ہو۔
اصطلاحی مفہوم :
اصطلاح میں راویوں کو ایسی صفت سے متصف کرنے کو جرح کہتے
ہیں جس سے ان کی روایت کمزور یا مردود ہوجائے۔
راوی اور شاہد کے اندر ایسا وصف بیان کرنا کہ جس کی وجہ سے
اسکا قول نا قابل قبول اور ناقابل اعتبار ٹھہرے اور اس پر عمل کرنا باطل ہوجائے۔
حافظ ابن الاثیر جزری رحمۃاللہ علیہ جرح کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:
الجرح:وصف متٰی التحق با الراوی والشاھد سقط الاعتبار بقولہ،وبطل
العمل بہ۔
جرح وہ وصف ہے جو راوی اور گواہ کے ساتھ لاحق ہوجائے تو اس
کا قول ساقط اعتبار ہو جاتا ہے اور اس پر
عمل کرنا باطل ہو جاتا ہے۔
جرح کا شرعی حکم:
الْجرْح
أُجِيز فِي الروَاة بِاتِّفَاق أَئِمَّة الشَّأْن صِيَانة للشريعة الإسلامية من
أَن يدْخل فِيهَا مَا لَيْسَ مِنْهَا ونصيحة لله وَرَسُوله عَلَيْهِ السَّلَام
وَالْمُسْلِمين وَلَا يقف على معرفَة ذَلِك إِلَّا الْمُحدث الصَّادِق الْمَشْهُور
بِطَلَب الحَدِي (علم
الجرح والتعلیل ص:۵۵)
راویان حدیث کے بارے میں جرح کا مقصد محض شریعت کا تحفظ اور اسکا دفاع ہے کسی
کی غیبت ،عیب جوئی یا طعن و تشنیع ہرگز اسکا مقصد نہیں ہے یہ ایک علمی اور دینی
ضرورت ہے جو کہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اعلم ان جرح الرواۃ جائز بل واجب بالاتفاق للضرورۃ الداعیۃ
الیہ لصیانۃ الشرعیۃ المکرمۃ ولیس ھو من الغیبۃ المحرمۃ بل من النصیحۃ للہ تعالٰی
ورسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم والمسلمین ولم تزل فضلائ الامۃ و اخبارھم وأھل
الورع منھم یفعلون ذالک کما ذکرمسلم فی ھذا الباب عن جماعات منھم ماذکرہ(شرح صحیح
مسلم ج۱،ص:۲۰)
جان لو کہ راویوں کی جرح جائز بلکہ واجب ہے۔اس لئے کہ یہ
شریعت مقدسہ کے تحفظ کے لئے ضرورت اس بات
کی داعی ہے(کہ راوی میں کوئی نقص ہو تو اسےظاہرکر دیا جائے
اور یہ عمل غیبت محرمہ میں سےنہیں بلکہ اللہ تعالٰی اور اس
کے رسول ﷺاور مسلمانوں کی
خیر خواہی سے ہے۔امت کے فضلائ اخیار اور اہل زہدوورع برابر راویوں کی جرح کرتے
آئے ہیں۔جیسا کہ امام مسلم نے اس باب میں ان کی کئی ایک جماعتوں سے جرح رواۃ کا
ذکر کیا ہے۔
تعدیل کا لغوی مفہوم:
تعدیل کا لفظ لغت
میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے تعدیل عدل سے ماخوذ ہے لفظ عدل ظلم کا متضاد
ہےااور عادل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو گواہی کے لئے قابل قبول ہو ۔ دوسرےمعنی
تزکیہ کے ہیں۔ کہا جاتا ہے "عدّلَ فُلانا"
جبکہ اس کا تزکیہ کیا ہوا ہو،یعنی اچھا اور ستھرا ہونا۔
تعدیل کااصطلاحی مفہوم:
راوی یا شاہد کے
اندر ایسا وصف بیان کرنا جس کی وجہ سے اسکا قول معتبر اور قابل قبول تصور کیا جائے
اور اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔
حافظ ابن الاثیرجزری رحمۃ اللہ علیہ تعدیل کی تعریف کرتے
ہوئے فرماتے ہیں۔
التعدل:وصف متٰی التحقق باالراوی والشاھد اعتبر ا قولھما واخذ بہ۔
تعدیل وہ
وصف ہے جب یہ راوی کے ساتھ لاحق ہو جائےتو اور قابل عمل ٹھہرتا ہے۔ یعنی راوی کے
عادل یا ضابط ہونے کے بارے میں بتانا ،اس کی توثیق کرنا اور حکم لگانا کہ وہ عادل
یا ضابط ہے تا کہ اسکی روایت کو قابل قبول سمجھا جائے اور اس پر عمل کو یقینی
بنایا جائے۔
المبحث الثانی
علم الجرح و تعدیل کی تعریف:
حدیث کےراوی کے ثقہ
ہونے کے شرائط اور ضعف کے اسباب کے علم کو علم الجرح والتعدیل کہتے ہیں۔اس علم میں
راویان حدیث کی مخصوص الفاظ کے ساتھ جرح و تعدیل بیان کر کے ان الفاظ کے مراتب
واضح کئےجاتے ہیں۔اس فن کے مشہور ماہرین میں ابوحاتم، ابو زرعہ اور علامہ سیوطی
رحمھم اللہ شامل ہیں۔
جرح و تعدیل کی
مشروعیت۔
راویان حدیث کے بارے
میں تعریفی یا تنقیدی کلمات کا اظہار ایک شرعی اوردینی ضرورت ہے کیوںکہ حدیث کی
اسنادی حیثیت بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کے ان اقوال کی روشنی میں راوی کے مرتبے
کا تعین کیا جائے تاکہ اس بنیاد پر حدیث کی قبولیت اور عدم قبولیت کا تعین ہو ۔
جرح و تعدیل کی شرعی
حیثیت قرآن وحدیث کی روشنی میں:
ارشاد ربانی ہے:
یا ایھاالذین
اٰمنوا ان جآءکم فاسق بنبافتبینواان تصیبواقومابجھالۃفتصبحواعلٰی ما فعلتم
نادمین(الحجرات:۶)
اے ایمان والو! اگر
کوئی بد کردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئےتو خوب تحقیق کرلیا کروایسا نا ہو کے
تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو،اور پھر تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا
پڑے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
یحکم بہ ذوا عدل منکمَ ۔ ۔ ۔ ۔الایہ(المائدہ:۹۵)
تم میں سے دو عادل شخص اس کے بارے میں فیصلہ
کریں۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
واستشھدوا شھیدین من رجالکم (البقرہ: ۲۸۲)
اور اپنے میں سے دو
مردوں کو(ایسے معاملے)میں گواہ بنا لیا کرو۔
عن رِبعیِ بن حِراش اَنّہ سمِعَ علیّا یخطُبُ قال: قال رسول اللہﷺ لا تکذِبوا علیَّ فاِنَّہ من یکذِب علیَّ یلج ِالنّارَ۔(بخاری:۱۰۶؛ ترمذی:۲۶۶۰؛ ابن ماجہ:۳۱)
ربعی بن حراش سے روایت
ہے اس نے سنا حضرت علیؓ سے وہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہتے تھے :فرمایا رسول اللہ ﷺنے : مت جھوٹ
باندھو میرے اوپر ۔جو کوئی میرے اوپر جھوٹ باندھے گا وہ جہنم میں جائے گا۔
علم جرح و تعدیل میں
راویان حدیث پر جرح و تعدیل کرنےکے لئے کچھ مخصوص الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جن
سے روایت حدیث میں راوی کے عیوب یا اوصاف کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
:علم جرح میں استعمال ہونے والے الفاظ اور ان کا مفہوم
دجال:سخت دھوکے بازہے،دجال حق و
باطل کے ملانے والے کو کہتے ہیں۔
کذاب:بہت جھوٹاہے یا غلط بات
کہنے والا ہے۔
وضاع:حدیثیں گھڑنے والا ہے۔
یضع الحدیث:حدیث گھڑنے والا ہے۔
متہم با لکذب: غلط
بیانی سے متہم ہےَ۔
متروک: لائق ترک سمجھا گیا ہے۔
لیس بثقۃ:قابل بھروسہ نہیں ہے۔
سکتو عنہ:اس کے بارے میں خاموش
ہیں۔
ذاہب الحدیث:حدیث ضائع کرنے والا
ہے۔
فیہ نظر:اس میں غور کی ضرورت
ہے۔
ضعیف جدا:بہت ہی کمزور ہے۔
ضعفوا:اس کو کمزور ٹھرایا گیا
ہے۔
واہ: کمزور ہے فضول ہے۔
سؤالحفظ:یاداشت اچھی نہیں ہے۔
لیس بالقوی:روایت میں پختہ نہیں
ہے۔
ضعیف:روایت میں کمزورہے۔
لیس بحجۃ:حجت کے درجہ میں
نہیں۔
لیس بذاک:ٹھیک نہیں ہے۔
لا یحتج بہ:لائق حجت نہیں ۔
تعدیل میں استعمال
ہونے والے الفاظ اور ان کا مفہوم۔
ثبت حجۃ:اونچے درجہ پر فائز
ہے؛یہاں تک کےدوسروں کے لئے سند ہیں۔
ثبت حافظ:خوب یاد رکھنے والا
ہے۔
ثبت متق:اونچے درجہ پر فائز
ہے؛بہت مضبوط ہے۔
ثقہ ثقہ:اونچے درجہ پرفا ئز ہے
یہاں بہت ہی اچھا ہے۔
ثقہ:قابل وثوق اور قابل
اعتمادہے۔
صدوق:بہت سچا ہے۔
لا بأس بہ:اس میں کوئی حرج کی
بات نہیں ہے۔
علم الجرح والتعدیل کی
تدوین:
حدیث کے راوی جب تک
صحابہ کرامؓ تھےاس فن کی ضرورت نہ تھی وہ سب کے سب عادل تھے کبارتابعین بھی علم و
تقوایٰ کی وجہ سے عادل تھے اس لیےرجال الحدیث کی با ضابطہ جانچ پڑتال کی ضرو
رت نہ تھی لیکن فتنوں اور بدعات کی وجہ سے
اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ جانچ پڑتال کی جائے۔امام ابن حبان فرماتے ہیں:
فأول من فتش عن الرجال وبحث عن النقل فی الاخبارعمر بن الخطاب و ابو موسٰی اشعری۔ (مقدمہ المجروحین،۱۔۳۸)
"سب سے
پہلے رجال کے بارے میں تفتیش اور روایت احادیث میں تحقیق حضرت عمرؓ اور حضرت ابو موسٰی اشعریؓ نے کی "۔ تابعین میں حسن بصریؒ سے۱۱۰ ھ میں علم اسمائ الرجال کی
ابتدا ہوتی ہے۔
علم الجرح و التعدیل
پر لکھی گئی چند کتابیں:
·
امام بخاری کی 'التاریخ الکبیر'۔ یہ ثقہ اور ضعیف دونوں قسم کے راویوں کے
حالات پر مشتمل ہے۔
·
ابن ابی حاتم کی 'الجرح و التعدیل'۔ یہ بھی التاریخ الکبیر کی طرح ثقہ اور
ضعیف ہر قسم کے راویوں کے حالات پر مبنی ہے۔
·
ابن الحبان کی 'ثقات'۔ یہ خاص طور پر ثقہ راویوں کے حالات پر مشتمل ہے۔
·
ابن عدی کی 'الکامل فی الضعفاء'۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب خاص طور
پر ضعیف راویوں کے تراجم (Biographies) پر مشتمل
ہے۔
·
عبدالغنی المقدسی کی 'الکامل فی اسماء الرجال'۔ یہ کتاب خصوصی طور پر حدیث کی
چھ کتب (بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ) کے راویوں کے حالات پر
مشتمل ہے۔
·
ذہبی کی 'میزان الاعتدال'۔ یہ کتاب ضعیف اور متروک راویوں کے حالات پر مشتمل
ہے۔ متروک ایسے راویوں کو کہا جاتا ہے جن پر جرح کی گئی ہو لیکن اس جرح کو قبول نہ
کیا گیا ہو۔
·
ابن حجر کی 'تہذیب التہذیب'۔ (یہ اسماء الرجال کے فن میں عظیم ترین کتاب ہے۔)
اس کتاب کا خلاصہ 'الکمال فی اسماء الرجال' کے نام سے (مزّی نے) کیا ہے۔
·
طبقات ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع البصری (۲۳۳ھ)
·
التاریخ و العلل، یحیٰ بن معین(۲۳۳)
·
معرفۃ الرجال، ایضاً۔
·
کتاب المسند بعللہ، علی بن المدینی۔
·
الضعفاء،محمد بن عبداللہ بن عب الرحیم البرقی
الزہری۔
·
التاریخ الکبیر، محمد بن اسماعیل البخاری(۲۵۶ھ)
·
التاریخ الصغیر، ایضاً
·
التاریخ الاوسط، ایضاً۔
·
کتاب الاسماء الکنیٰ، ایضاً۔
·
الضعفا ء الکبیر، ایضاً۔
·
الضعفاء الصغیر، ایضاً۔
·
التاریخ، المفضل بن عسان الغلابی(۲۵۶ھ)
·
الشجرۃ فی احوال الرجال، ابو اسحاق ابراہیم بن
یعقوب جوزجانی(۲۵۹ھ)
·
کتاب الجرح و
التعدیل، ایضاً۔
·
المسند الکبیر علی
الرجال، مسلم بن حجاج القشیری(۲۶۱ھ)
·
رواۃ الاعتبار، ایضاً۔
·
کتاب الطبقات، ایضاً۔
·
کتاب الاسماء الکنیٰ، ایضاً۔
·
کتاب الثقات،امام
احمد بن عبد اللہ العجلی(۲۶۱ھ)
·
الجرح التعدیل،
عبداللہ بن علی بن الجارود(۳۲۰ھ)
·
کتاب الضعفاء، ابو
جعفر محمد بن عمر بن موسیٰ بن حماد
العقیلی(۳۲۲ھ)
·
کتاب الضعفاء،ابو
نعیم عبد الملک بن محمد الجرجانی(۳۲۳ھ)
·
کتاب الجرح و
التعدیل،ابو محمد عبد الرحمٰن بن ابی حاتم(۳۲۷ھ)
·
کتاب الثقات، ابو
حاتم بن حبان البستی(۳۵۴ھ)
·
مشاہیر
علماءالامصار، ایضاً۔
·
معرفۃ المجروحین
من المحدثین، ایضاً۔
·
اوہام اصحاب
التواریخ، ایضاً۔
·
الضعفاء و
المتروکین، ایضاً۔
خلاصہ کلام:
علم جرح و تعدیل علوم
الحدیث کے اہم مباحث میں سے ہے۔اس علم میں رواۃ حدیث کے احوال سے بحث کی جاتی
ہےاور روایت حدیث میں ان کے عیوب و صفات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے روایات کو قبول
یا رد کیا جاتا ہے ۔جرح و تعدیل کا مقصد محض شریعت کا دفاع اور حفاظت ہے ۔اس علم کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔کسی
راوی کی جرح و تعدیل بیان کرنے کے لئے اس علم میں کچھ مخصوص الفاظ مقرر کئے گئے
ہیں جن کے زریعے رواۃ پر جرح و تعدیل کی جاتی ہے۔جرح و تعدیل کا وجود صحابہ کرام
رضی اللہ تعالٰی اجمعین کے دور میں بھی موجود تھا
اور لیکن اس کی باقاعدہ تدوین
تابعین کے دور سے شروع ہوئی ۔اور آج تک علمائ و محدثین نے اس علم کی اشاعت اور
خدمت میں طبع آزمائی کی ۔
نتیجہ:
مذکورہ
بالا بحث سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ علوم حدیث جو کہ تمام علوم شرعیہ میں
افضلیت کا درجہ رکھتا ہے،حدیث کی حفاظت اور تدوین واشاعت
کے لیےصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،تابعین،تبع تابعین ،محدثین اورعلمائ
کرام نے اپنے اپنے دور میں نمایاں خدمات سر انجام دی اور اس علم کے ہر ہر پہلو پر
روشنی ڈالی اور اس علم پر بڑی طائرانہ نگاہ کے ساتھ غور وفکر کر کے اس کو بحفاظت
ہم تک پہنچایا،چونکہ اس علم کا تعلق براہ راست نبی کریمﷺکی حیات طیبہ سے ہےاس لئے اس کی حفاظت و اشاعت پر خصوصی توجہ ضروری ہے۔
مراجع و مصادر:
صحیح مسلم مع مختصر شرح نووی (ابو الحسین مسلم بن الحجاج
القشیری).1
الجرح والتعدیل (
ابو حاتم الرازی).2
علم جرح وتعدیل ( ڈاکٹر سہیل حسن).3
اصول جرح و تعدیل (علامہ مفتی محمد صدرالوریٰ مصباحی).4
جرح
وتعدیل کے مباحث میں ائمہ محدثین کا عمومی منھج و اسلوب(عبدالغفار).5
0 Comments