شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’ ہمعات‘‘ کا جائزہ اور امام صاحب کا منہج
﷽
مصنف کا تعارف:
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمی
زندگی پانچ سال کی عمر میں شروع ہوئی اورپندرہ سال کی عمر میں وہ تمام دینی علوم سے
فارغ ہوئے۔ 1720ء میں جب کہ ان کی عمر صرف سترہ سال تھی ان کے والد کا انتقال ہوا اور
وہ اپنے والد کی مسندِ تدریس پر بیٹھ کر درس دینے لگے۔ بارہ سال تک مسلسل قرآن و حدیث
اور دوسری کتابوں کا درس دیا۔ 1730ء میں وہ سفرِ حج کو روانہ ہوئے اور ارضِ حرمین میں
مسلسل دو سال قیام فرمایا۔ اس دوران انہوں نے مدینہ منورہ کے مشہور محدث شیخ ابو طاہر
بن ابراہیم مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے سندِ حدیث لی اور دوسرے بہت سے محدثین اور علماء
سے استفادہ کیا۔ ان کے اساتذہ میں ان کے والد شاہ عبد الرحیم اور شیخ ابو طاہر مدنی
کے علاوہ شیخ محمد افضل سیالکوٹی، شیخ وفد اللہ مکی اور شیخ تاج الدین القلعی رحمۃ
اللہ علیہم جیسے بلند مرتبہ شیوخ شامل ہیں۔
سفرِ حج اور ارضِ حرمین کا دو سالہ
قیام شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوااور سفرِ حج سے واپسی کے
بعد انہوں نے توجہ تدریس کی بجائے قرآن و حدیث کی اشاعت اور اصلاحِ امت اور امتِ مسلمہ
کی نشاۃِ ثانیہ کے کام کے لیے خود کو وقف کر دیا جو ان کی وفات 1762ء تک جاری رہا۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان کے جانشین ہوئے اور ان کے کام کو آگے
بڑھایا۔
شاہ صاحب جس طرح تفسیر ،فقہ اور حدیث کے امام ہیں اسی طرح تصوف اور سلوک کے بھی امام ہیں۔اآپ
نے تصوف اورسلوک پر کئی کتابیں تصنیف کی جن میں چند مشہور کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
تصوف کے موضوع پر شاہ صاحب کی
کتابیں:
شاہ صاحب نےسلوک پر چند کتابیں لکھی ہیں۔جن میں سے ایک” القول الجمیل“ہےجس کا موضوع وہ اذکار اور آداب ہیں جو ایک سالک کو سب سے
پہلے کرنے چاہیئں۔آپ کی دوسری کتاب “سطعات” ہے جس میں ایک ترقی یافتہ دماغ کو سلوک کا
منتہی یعنی نوع انسانی کےموطن حظیرۃالقدس سےاتصال سمجھانے کے لیے تحریر فرمایا
ہے۔تیسری کتاب” الطاف القدس “تحریر فرمائی اور اس
میں شاہ صاحب کامنشاء ،انسان کی اندرونی
نفسی قوتوں یعنی عقل ،ارادہ اور تدبر نفس پر سلوک کا کیا اثر پڑتاہےاور ایک قوت
دوسری قوت سے کس طرح پھوٹ کر نکلتی ہے ،بیان کرنا ہے۔چوتھی کتاب”لمحات”ہے ،جس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ انسانیت اس فکر کو عقلی دررجے کس طرح قبول
کرتاہے ۔پرانے یونانی او ر ہندی حکماء انسانیت کے متعلق کیاخیالات رکھتے تھے وہ
اپنے خیالات کو انسان کے عام معارف کے ساتھ کس حد تک موافق بنا سکے ؟اور ایک حکیم
ان کو تسلیم کرکے اپنے سلوک کو کس طرح معقول طور پر پیش کرتاہے ۔
کتاب ہمعات کا
تعارف:
ہمعات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فلسفہ تصوف پر
لکھی گئی شاندار کتاب ہے۔ کتاب ہمعات فارسی
زبان میں ہے۔ ا س میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تاریخ تصوف کے ارتقاء پر
بحث فرمائی ہے۔ یہ کتاب کل تییس(۲۳) ابواب
اور ایک مقدمہ پر مشتمل ہے یہ کتاب چونکہ فارسی زبان میں تصنیف کی گئی ہے
لیکن اس کے چند اردو ترجمے بھی ہو چکے ہیں جس سے ایک عام اردو سمجھنے والا آ سانی
سےاستفادہ کر سکتا ہے۔ تصوف کی حقیقت اور اسکا فلسفہ ہمعات کا موضوع
ہے۔ یہ تصوف کے موضوع پر ہر لحاظ سے ایک بہترین کتاب ہے۔اس کتاب میں شاہ صاحب نے
تصوف کے مختلف ادوار اس انداز میں بیان کئے ہیں۔
تصوف کی تاریخ کا پہلا دور:
شاہ صاحب تصوف کی تاریخ پر گفتگو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
اور صحابہ کرام کے زمانے میں چند نسلوں تک جو اہل کمال بزرگ پیداہوئے ہیں ، انکی
زیادہ تر توجہ شریعت کےظاہری اعمال ہی کی طرف رہی اور باطنی زندگی کی وہ تمام
کیفیات جو تصوف کا اصل مقصود ہیں ، ان لگوں کو شرعی احکام کی پابندی کے ضمن میں
حاصل ہوجائی تھیں ۔ ان میں کسی شخص کو اس امر کی ضرورت نہ پڑتی تھی کہ وہ ان معنوی
کیفیات کوحاصل کرنے کے لئے بعد کے صوفیاء کی طرح سر نیچے کئے پہروں غوروفکر کرے
چنانچہ یہ بزرگ خداتعالیٰ سے قرب وحضوری کی نسبت اعمالِ شریعت اور ذکر وافکار
کےسوا کسی اور ذریعہ سے حاصل کرنے کی سعی نہ فرماتے تھے ،الغرض یہ اسلام کے ایمان
وعمل کا دور تھااور شاہ اسی کو تصوف کاپہلا دور قرار دیتے ہیں۔
تصوف کی تاریخ
کا دوسرا دور:
پہلی صدی ہجری کے بعد اہلِ کمال کے ایک گروہ میں اب یہ
رجحان پیدا ہوا ہ وہ اعمال ِ شریعت کی پوری پابندی کے ساتھ ساتھ باطنی زندگی کی
نشونما میں لگ جاتے ہیں ان بزرگوں رابعہ
بصری خاص طور پر ممتاز ہیں ۔اس مکتب کے صوفیاء کے نصب العین میں طلب ِ علم غالب
نہیں ہے بلکہ تقدس دنیا سے بے تعلقی اور خدا سے گہری محبت جو گناہ کے شعور سے پیدا
ہوتی ہے ان کی زندگی کے مخصوص خدو خال میں سے تھی ان کے تقریباً ایک سو برس بعد
تیسری ہجری کے اوائل میں ذوالنون مصری ،بایزید بسطامی اور جنید بغدادی کا زمانہ
شروع ہوتاہے ۔جنید بغدادی ؒ کو موجودہ علم تصوف کا ایک لحاظ سے بانی سمجھنا چاہئے
۔ آپ کا رجحان شرعی پابندی کی طرف ذیادہ تھا۔ چنانچہ حضرت جنیدؒ کا یہ قول مشہور
ہے کہ “ہمارا علم تصوف کتاب وسنت کے مقید ہے” آپ کی وفات 27ھ
میں ہوئی اور آپ کو سید الطائفہ کا نام دیا گیا ۔شاہ ولی اللہ حضرت جنید بغدادی ؒ
سے تصوف کا دوسرا دور شروع کرتے ہیں ۔چنانچہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں”حضرت جنید جو گروہ صوفیاء کے سرخیل ہیں ۔انکے زمانے میں یا
ان سے کچھ پہلے تصوف کے ایک اور رنگ کا ظہور ہوتاہے ۔اس زمانے میں یہ ہوا کہ اہلِ کمال میں سے عام
لوگ تو اس طریق پر کاربند ہے جس کا ذکر پہلے دور کی ضمن میں ہوچکا ہے لیکن ان میں
سے جو خواص تھے ،انہوں نے بڑی بڑی ریاضتیں کیں اور دنیا سے بالکل قطع تعلق کلیا
اور مستقل طور پر وہ ذکر وفکر میں لگ گئے
،اس سے ان کے اندر تعلق باللہ کی کیفیت پیدا ہوگئی چنانچہ یہ لوگ مدتوں
مراقبے کرتے اور ان سے احوال تصوف جیسی تجلی ،استتار اور انس ووحشت کی قبیل کی کیفیات
ظاہر ہوتیں ، یہ لوگ سماع سنتے ،سر مستی و بنجودی میں بیہوش ہوجاتے اور کپڑے
پھاڑتے اور وفورِ جوش میں رقص بھی کرنے لگتے”.
تصوف کی تاریخ کا تیسرا دور:
جندی بغدادی سے منصور خلاج کا رشتہ مریدی بن جاتاہے ،منصور
کا نعرہ “انا الحق”آگے جاکر تصوف کے لئے بانگِ درا بن گیا۔ منصور کو کم وبیش
30ھ میں پھانسی دی گئی ۔اس واقعہ کے بعد ایک سوسال کے اندر تصوف پر بعض مستقل
کتابیں لکھی گئی
جس میں ابو نصر سراج کی تصنیف “کتاب اللمع” ،ابو طالب مکی کی “قوۃ القلوب “اور قشیری کا “الرسالۃ” اور داتاگنج بخش کی” کشف المحجوب” خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اسی زمانہ میں شیخ ابو الحسن خرقانی اور شیخ ابو الخیر بھی پیداہوئے ہیں ،جن سے شاہ صاحب تیسری دور کا ابتداء کرتے ہیں ،شیخ ابو سعید
357ھ میں پیدا ہوئے اور 440ھ میں آپ نے وفات پائی۔
تصوف کے اس دور کے متعلق شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس دور میں
طریق تصوف میں ایک اور تغیر رونما ہوتاہے۔ اہل کمال میں سے عوام تو حسب سابق شرعی
اوامر واعمال پر ٹہرے رہے اور خواص نے باطنی احوال وکیفیات کو اپنا نصب العین
بنایا اور جو اخص الخواص تھے انہوں نے اعمال واحوال سے گزر کر “جذب “تک رسائی حاصل کی ،اور اس جذب کی وجہ سے ان کے سامنے” توجہ “کی نسبت کا دروازہ کھل گیااوراس سے وجود کے تعینات کے سب پر
دے ان کے لئے چاک ہوگئے اور انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہی ایک ذات
ہے جس پر تمام اشیاء کا انحصار ہے ۔شاہ صاحب کے نزدیک اس جذب وتوجہ سے ان بزرگوں
کی اصلی غایت صرف اتنی تھی کہ ذات الٰہی میں اپنے وجود کو گم کرکے اس مقام کی
کیفیات سے لذت اندوز ہوں چنانچہ ذات باری سے اتصال کا شعو اب تصوف میں ابھرتا ہے
لیکن اس دورمیں وحدت کا یہ تصور محض شعور ہی کی حد تک رہتاہے اور شاہ صاحب کے
الفاظ میں یہ بزرگ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کائنات کا ذات باری تعالیٰ سے کیا
علاقہ ہے ؟ انسان اس ذات میں کیسے گم ہو سکتاہے ؟ اور فنا اور بقا کے جو مقامات
ہیں انکی اصل حقیقت کیا ہے جس زمانے میں شیخ ابو سعید کا انتقال ہوا کم وبیش وہی
زمانہ ہے جس میں امام غزالی پیدا ہوئے۔
کتاب’’ ہمعات ‘‘میں مصنف رحمۃ
اللہ علیہ کا منہج:
ہمعات کے معنی قطرات کے
ہیں ،بقول شاہ صاحب اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے
کہ یہ کتاب ان کلمات کا مرکب ہے جو بطور
الہام آپ کے دل پر نازل ہوئے کہ راہ سلوک
میں خود آپ کے لئے اورآپ کےتابعین کے لئے دستور ہو چونکہ تصوف نفس انسانی سے بحث
کرتا ہے اس لئے اس کتاب میں نفس انسانی تربیت و تزکیہ سے جن بلند منازل پر فائز
ہوتا ہے اِس میں اُسکا بھی بیان ہے۔ ہمعات
میں مصنف کا منہج بیک وقت فکری اور
تربیتی دونوں ہیں فکری اس لحاظ سے کہ آپ
نے اپنی ذہنی سوچ و فکر کو دوسروں تک منتقل کرنے کی کوشش کی ہے اور تربیتی اس
لحاظ سے کہ اس کتاب میں سالک و مرشد دونوں کو تصوف کے اسرار و رموز
سکھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ ہمعات میں آپ نے مرشد کو ان تمام طریقوں کی
تلقین فرمائی ہے جس کی طرف وہ سالک
کی رہنمائی فرماتا ہے اور عشق حقیقی
کی لذت سے روشناس کراتا ہے۔کتاب کا
مطالعہ کرتے ہوئے قاری قرب الٰہی کی کیفیت محسوس
کرتا ہے۔ اس کتاب
کی ترتیب میں مصنف نے تدریجی طریقہ اختیار کیا ہے نیز یہ بھی بتایا ہے کہ تصوف کی راہ میں کس طرح درجہ بدرجہ چڑھ کر
مقصود اصلی تک رسا ئی حاصل ہوتی ہے
، کہی کسی بات کی وضاحت کے لئے آپ نے روزمرہ
زندگی کی عام مثالوں کو پیش کیا ہے
تو کہی آپ نے بات کی وضاحت کے لئے فلسفیانہ طریقہ اختیار کیا
ہے۔
کتاب کی خصوصیات:
·
آپ
نے کتاب کی ابتداء میں ''دین اسلام کی دو
حیثیتیں'' کے نام پر ایک مستقل باب قائم کیا ہے
کیونکہ شریعت اور اسلام تصوف اور
سلوک کے لئے اساس اور بنیاد ہے ۔ اس باب میں آپ نے اسلام کی ان دونوں حیثیتوں کو
اچھی طرح واضح کر کے بیان کیا ہے اور ایک عام
قاری کو سمجھنے میں دقت محسوس نہیں ہوتی۔
·
باب
آدابِ سلوک میں آپ نے ان افعال کی ادائیگی کو تفصیل کے سا تھ بیان کیا ہے
جن سے سالک اپنے رب کا قرب حاصل کرنے میں
کامیاب ہوتا ہے۔صوم وصلوۃ ،ذکر اذکار،احادیث کا مطالعہ، اورقرآن فہمی کی ترغیب دی گئی ہے۔
·
باب
آداب ذکر میں آپ فرماتے ہیں افضل ذکر اسم ذات یعنی ’’اللہ‘‘ اور’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کا ہے،اس کے ساتھ ساتھ
آپ نے اس ذکر کا وہ طریقہ بھی بتایا ہے
جس سے اندر کی آنکھ روشن ہو کر سالک میں
جذب اور بے خودی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے
اور دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔آداب سکھاتے ہوئے آپ نے دوسرے بزرگان کے ترجیحی
طریقوں کو بھی ذکر کیا ہے۔
·
کتاب میں ٓآپ بوقت ضرورت امام
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے
مذہب کو بھی بیان کرتے ہیں مثلاً ذکر جہری کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے
ہیں ’’ذکر جہری فقہ حنفی میں مکروہ ہے لیکن بعض حالات اور بعض اشخاص میں جذب و بے
خودی کی کیفیت ذکر جہری کے بغیر پیدا نہیں ہوتی‘‘۔
·
باب
مراقبہ اور اس کے احکام میں سالک اور مرشد
دونوں کو مقصود اصلی حاصل کرنے اور جذب و
شوق پیدا کرنے کے لئے مکمل رہنما ئی فراہم کی گئی ہے۔اسی ضمن میں سالک کے استفادہ کے لئےمراقبوں کے اقسام بھی ذکر
کئے ہیں کتاب میں شریعت کے مطابق اعمال پر
زور دیا گیا ہے۔
·
ہمعات
کے مطابق خضوع،طہارت اور عشق وغیرہ نفسی
کیفیات کا سالک کے اند ر پیدا کرنا سلوک ہے۔ لہٰذا راہ سلوک میں سالک کو جو
رکاوٹیں پیش آتی ہیں اس پر مصنف نے ایک الگ باب قائم کیا ہےتاکہ
سالک تصوف کی راہ میں ان رکاوٹوں کو آسانی سے عبور کر ے اور سرور و انشراح قلب
حاصل کرکےمقصود اصلی کو پا لے۔
·
تصوف
کی راہ میں آپ نے نفس کی تہذیب اوراصلاح
پر ذیادہ زور دیا ہے۔ آپ کے نزدیک طبیعت میں اضطراب پیدا ہونے کے اسباب میں بڑے اسباب گناہ اور مشائخ طریقت کی شان میں بے ادبی کو بتایا ہے۔
·
ہمعات میں آپ
اپنی بات کی تائید کے لئےاحادیث
نبویﷺ کا سہارا لیتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہیں جس کی وجہ سے شوق ِعمل میں اضافہ ہوتا ہے ۔ العرض ہمعات تصوف کے
موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے۔
(لبنیٰ
شاہ)
0 Comments