Ad Code

Responsive Advertisement

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ کا تعارف اورمختصر حالات

                                   


                                         ﷽    

ولادت اورنام :

آپ بغداد کی تباہی کے تقریباً چھ سال بعد حران شہر کے ایک علمی گھرانے میں 661 ھجری کو پیدا ہوئے۔ آپکا نام احمد، لقب تقی الدین تھا اور کنیت ابو العباس تھی۔ والد کا نام عبد الحلیم اور والدہ کا نام ست المنعم فاطمہ تھا۔

آپ کا سلسلہ نسب

تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد الله بن الخضر بن محمد بن الخضر بن على بن عبد الله ابن تيمية الحراني۔ا

ابن تیمیہ کہلانے کی وجہ

آپ کے نسب میں چھ پشت قبل آپ کے جد محمد بن الخضر کی والدہ کا نام تیمیہ تھا۔ جو کہ ایک بلند پایہ عالمہ تھیں۔ ان ہی کی نسبت سے یہ خاندنی نام مشہور ہوا۔

حران سے دمشق ہجرت:

آپکی عمر 6 سال کی تھی کہ جب تاتاریوں کے حملوں کے خوف سے دیگر اہل حران کی طرح آپکے خاندان نے بھی دمشق ہجرت کی۔ ان دنوں لوگ اپنا مال و متاع سمیٹ کر حران کو الوداع کہہ رہے تھے، اور آپ کا خاندان اپنا مال چھوڑ کر علمی خزانہ یعنی کتابیں اٹھائے دمشق کی جانب رخت سفر باندھ رہا تھا۔ یہ کتب آپکی خاندانی میراث تھیں۔

تعلیم و تربیت:

 روایات سے علم ہوتا ہے کہ آپکی تعلیم حران میں ہی شروع ہو چکی تھی مگر اصل تعلیم دمشق میں شروع ہوئی۔ گو کہ دمشق میں علماء کی کمی نہ تھی لیکن چونکہ آپ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور آپکے والد بذات خود ایک بلند پایہ عالم، محدث و فقیہ تھے۔ لہذا آپ نے بنیادی تعلیم دار الحدیث السکریہ میں اپنے والد سے حاصل کی، جو وہاں شیخ الحدیث تھے۔ اسکے علاوہ آپ نے مدرسہ ابی عمر سے بھی تعلیم حاصل کی۔

سرعت حفظ: 

اللہ نے آپ کے خاندان کو زبردست حافظے سے نوازا تھا۔ آپکے والد گرامی ساری زندگی بنا کتاب دیکھے لیکچرز دیتے رہے۔ اسی طرح آپکے خاندان کے دیگر افراد کا بھی یہی حال تھا۔ مگر آپ سب پر بازی لے گئے۔ آپ کے حافظے کے بلا مبالغہ سینکڑوں واقعات موجود ہیں۔ لیکن چونکہ ہمارا مقصد محض آپ کی ذات کا تعارف ہے لہذا ہم یہاں ان واقعات کو نقل کرنے سے پرہیز کریں گے۔

درس و تدریس اور علمی زندگی:

30 ذولحجہ 682 ھجری کو اپنے والد کی وفات کے اگلے ہی روز حکومت کی جانب سے آپکا اپنے والد کی جگہ بطور شیخ الحدیث تقرر کر دیا گیا۔ اس وقت آپکی عمر محض 21 سال تھی۔ جبکہ شیخ الحدیث ہونے سے 4 یا 2 سال قبل ہی قاضی دمشق نے آپ کو مفتی (فتویٰ دینے کا مجاز اور اہل) قرار دے دیا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر سترہ یا انیس برس تھی۔

آپ نے اپنے والد کی جگہ جب دار الحدیث السکریہ میں دمشق کے علماء و عمائدین شہر اور عوام الناس کے اجتماع کے سامنے پہلا درس دیا تو ایک بسم اللہ پر ہی اتنے نکات بیان کئے کہ عامی حیران رہ گئے اور علماء آپ کے گرویدہ ہو گئے۔ یوں پہلے درس نے ہی آپ کو علمی حلقوں میں روشناس کروا دیا۔

آپ کا بات کرنے اور سمجھانے کا ڈھنگ نہایت عام فہم ہوا کرتا تھا۔ ایک ایک بات کو بیسوں اینگلز سے بیان کرتے اور سمجھاتے، آپ کے لیکچرز فصیح و بلیغ اور دلائل سے مزین ہوا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ روایتی مدرسین کی طرح مخصوص ایٹوٹیوڈ میں اپنے طلباء کے ساتھ پیش نہیں آتے تھے بلکہ انہیں اعتماد دیا کرتے تھے۔

آپ نے اپنی خاندانی روایت کو زندہ رکھا اور بعد از نماز جمعہ برسر منبر قرآن کی تفسیر سنانا شروع کی۔ یہ سلسلہ اتنا مشہور ہوا کہ لوگ دور دراز سے آپکی تفسیر سننے کے لئے آنے لگے۔۔۔۔ لوگوں کی اس پسندیدگی کی ایک بڑی وجہ آپ کی تفسیر کا عام فہم اور دلچسپ ہونا تھا۔ کہا جاتا ہےکہ صرف سورہ نوح کی تفسیر ہی کئی سالوں تک جاری رہی۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ اپنی تفسیر میں واعظوں کی طرح جھوٹے قصوں اور منگھڑت روایات کا سہارا ہر گز نہیں لیتے تھے۔

درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ ایک مصلح کے روپ میں بھی سامنے آئے اور مختلف فتنوں کے خلاف آواز اٹھائی، خاص کر فلسفہ، علم کلام، منطق و تصوف نے جو جمود کی گرد عالم اسلام پر ڈال رکھی تھی، اسکے خلاف بھرپور کام کیا۔ لوگوں کے ذہنوں سے فلسفے اور کلام کا خناس نکالا۔ آپ نے قرآن وحدیث کو کسوٹی بنایا اور فلسفے، کلام و تصوف کے اک اک مسئلے کو اس کسوٹی پر پیش کیا۔ جو چیز اس سے باہر نکلی اسے روند ڈالا۔ ان علمی خدمات نے آپکی شہرت پورے عالم اسلام میں پھیلا دیں۔ حق گوئی کے باعث آپکے دشمنوں کی بھی اچھی خاصی جماعت بن گئی۔ مگر اصول پسندی کا یہ عالم تھا کہ حکومت نے قاضی کا عہدہ پیش کیا مگر اپنی شرائط پر۔ آپ نے شرائط کی وجہ سے معزرت کر لی۔

شاتم رسول کے قتل کا فتویٰ :

 ایک دفعہ دمشق کے ایک نصرانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر دی۔ لوگ آپکے پاس معاملہ لے کر آئے تو آپ ایک شافعی عالم کے ہمراہ نائب امیر دمشق کے پاس پہنچے اور اس معاملے پر سخت ایکشن کا مطالبہ کیا۔ واپسی پر اس نصرانی کو مشتعل مسلمانوں نے پیٹ دیا۔ نائب امیر یہ سمجھا کہ عوام نے آپ اور آپکے ساتھی کے ورغلانے پر یہ کچھ کیا ھے، لہذا اس نے دونوں کو کوڑے لگا کر قید کر دیا۔ دیگر علماء اور حکام اس مسئلے پر بحث ہی کرتے رہے اور آپ نے دوران قید اس معاملے پر ایک پوری ضخیم کتاب لکھ ڈالی کہ جو ”الصارمِ المسلول علی شاتم الرسول“ آج بھی موجود ہے۔ اس میں آپ نے شاتم رسول کی موت کی سزا موت قرار دی۔ آپ وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جن نے اس موضوع پر دلائل سے لبریز کتاب لکھی۔ عالم اسلام آپکا یہ احسان تاقیامت نہ بھول پائیں گے۔

جہاد کے میدانوں میں:

 آخری عباسی خلیفہ کے رافضی وزیر ابن علقمی کی غداری کے باعث بغداد کی تباہی کے بعد ہلاکو خان نے اپنے رافضی وزیر خواجہ نصیرالدین طوسی کی ترغیب پر شام کا رخ کیا اور عین جالوت کے مقام تک سرزمین شام کو پامال کرتا گیا۔ اس مہم میں رومانیہ کے عیسائیوں اور رافضیوں نے اسکا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ مگر عین جالوت کے مقام پر منگولوں کو بدترین شکست ہوئی۔ اور منگول شام سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے دور میں ہلاکو خان کا پوتا قازان بن ارغون منگول سلطنت کا بادشاہ تھا۔ وہ اپنے ایک مسلمان وزیر کی کوششوں سے ایک لاکھ تاتاریوں/ منگولوں سمیت مسلمان تو ہو گیا مگر اکثریت کے عقائد کفریہ ہی رہے۔ لوٹ مار، فسق و فجور انکے ہاں پہلے کی طرح عام تھا۔ اسکے علاؤہ قوم/نسل پرستی کی لعنت ان میں ویسے ہی تھی۔ لہذا منگول/تارتار و غیر منگول/تارتار کی جنگ تاحال جاری تھی۔

مصر کی اندرونی سیاسی صورتحال کے باعث قازان کے دل میں مصر و شام پر لشکر کشی کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔ ادھر مصر میں یہ اطلاعات پہنچ گئیں اور اطلاع ملتے ہی ادھر بھی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ چونکہ آپ ایک زبردست خطیب تھے۔ لہذا آپ نے دمشق میں 17 شوال 697 ھجری کو ایک تاریخی مجلس میں ہزاروں کے مجمعے میں منگولوں اور انکے ہمنوا رافضیوں اور عیسائیوں کے خلاف جہاد پر ایک زور دار تقریر کی۔ جس سے عوام الناس میں جہادی روح بیدار ہوئی۔

لیکن آپکے مخالف علماء نے عوام الناس کو میدان جہاد سے دور رہنے کی اور عبادات و توبہ استغفار کی نصیحت کرنا شروع کر دی۔ نیز، ان ہی علماء نے فتوے دئیے کہ جی منگول کلمہ گو مسلم ہیں لہذا ان سے جہاد حرام ہے۔۔۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑگیااور منگولوں کا خوف بڑھتا چلا گیا، جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے بدترین شکست کھائی۔

لیکن آپ نے اس پر بھی ہمت نہ ہاری بلکہ قازان کو اسکے ظلم و ستم و لوٹ مار سے روکنے اس کے پاس گئے۔ اور اسکے منہ پر بنا لگی لپٹی کے کلمہِ حق کہا۔ قازان آپکی حق گوئی سے بےحد متاثر ہوا۔ جبکہ آپکے ساتھی آپکی زندگی کیلئے فکرمند تھے۔

قازان کے فتح اور لوٹ کھسوٹ کا مال سمیٹ کر واپس ہونے کے بعد دمشق میں ایک سیاسی انقلاب آیا اور دمشق کے مسلمان منگولوں اور انکے ہمنوا رافضیوں اور عیسائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور چن چن کر انتقام لیا۔ آپ نے بھی ایک مہم میں حصہ لیا جو کسروان کی پہاڑیوں میں بسنے والے شیعوں کے خلاف تھی۔ لیکن آپ نے وہاں بھی قتال سے قبل دعوت سے کام لیا۔ جس کا مثبت نتیجہ نکلا۔ بعض اپنے کفریہ عقائد سے تائب ہو گئے جبکہ باقیوں نے اپنے جرائم کی تلافی کی اور حکومت وقت سے وفاداری کا عہد کیا۔ اور یوں یہ مہم بنا خون خرابے کے اپنے انجام کوپہنچی۔

اس دوران منگولوں نے تیسری بار شام کا رخ کیا۔ آپ پھر سے دعوت جہاد میں مصروف ہوگئے۔ آپکے مخالفین پھر سے اپنی بلوں سے نکلے اور منگولوں سے لڑنا حرام قرار دے دیا۔ لیکن آپ نے ایک عظیم الشان مجلس میں منگولوں کے کفریہ عقائد کو واضح کیا اور ان سے جہاد فرض قرار دیا۔ اس سے مخالفین کا منہ بند ہوا اور سب جہاد کی تیاریوں میں جت گئے۔ اور جب فوجیں روانہ ہونے لگیں تو آپ ہر ایک کو فتح کی بشارت دیتے جاتے۔ اور خود بھی ہر اول دستے میں موجود رھے۔

یکم رمضان المبارک کو مصری و شامی فوجیں مرج الصفر میں جمع ہوئیں۔ آپ نے فتویٰ دیا کہ جنگ کے خاتمے تک کوئی روزہ نہ رکھے۔ 2 رمضان المبارک کو باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ اور دو دن جاری رہنے کے بعد 3 رمضان المبارک کو شام کے وقت منگولوں کی بدترین شکست پر ختم ہوئی۔

شوق شہادت

جنگ کے دوسرے دن آپ نے اپنی فوج کے ایک کماندار سے فرمائش کی کہ مجھے موت کی جگہ دکھاو۔ وہ آپکو ایک ایسی جگہ لے گیا کہ جہاں منگولوں کے تیر بارش کی مانند برس رہے تھے۔ آپ اس جانب عقاب کی طرح لپکے اور دشمنوں کی صفوں میں جا گھسے۔ اور بعد از فتح ہی لوگوں کو نظر آئے! یہ جنگ ”واقعہ شقحب“ کے نام سے مشہور ہے۔

مجددانہ خدمات:

جنگ کے خاتمے پہ امراء و حکام نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اسکی بڑی وجہ آپ کی دلیری، دعوت جہاد اور فتح مبین کی پیشن گوئی تھی۔ آپکو بڑے سے بڑے عہدے کی پیشکش کی گئی۔ مگر آپ نے معزرت کر لی۔

آپ عہدے نہیں عوامی اصلاح چاہتے تھے۔ لہذا آپ نے پھر سے علمی میدان سنبھالا اور سب سے پہلے مسلمانوں میں عام شرکیہ و کفریہ عقائد و نظریات اور رسومات کا رد کیا۔ عوام الناس کی اصلاح پہ زور دیا اور بہت سی خرافات کا خاتمہ کیا۔

اس دور کے صوفیاء میں ایک فرقہ فقراء رفاعیہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ٹھگ اور شعبدہ باز قسم کے مجزوب و ملنگ لوگ تھے۔ آپ نے انکے ساتھ بھی مناظرہ کیا، انکا رد کیا اور انکی اصلاح کی۔ ساتھ ہی مین اسٹریم صوفیاء کے بہت سے کفریہ و شرکیہ نظریات اور غیر شرعی اصولوں کا رد کیا۔

اسکے علاؤہ عوام الناس میں پھیلتے شیعہ نظریات و عقائد پر دلائل کے ہتھوڑے برسائے۔ روافض کے دجل اور علمی ہیر پھیر کو بےنقاب کیا اور صحابہ کرام کے خلاف انکی فریب کاریوں کا پردہ چاک کیا۔۔۔!

اجتہادی میدان اور فن حدیث میں بھی آپ کا کام گراں قدر ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ علوم عقلیہ کی خرافات کے خلاف جہاد میں بھی صف اول میں نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے شخصیت پرستی اور اندھی تقلید پر شدید تنقید کی اور عوام کو تقلید کے بجائے اتباع اور علماء کو اجتہاد کرنے پر ابھارا۔

آخری وقت میں آپ نے صرف عقائد پر توجہ مبذول رکھی اور اس ہی پر کام کیا۔ بڑے بڑے علماء کے ساتھ خط و کتابت جاری رہی۔ کچھ قائل ہوئے ، اکثر مخالف ہو گئے۔ لیکن آپ دعوت حق سے دستبردار نہ ہوئے۔ لہذا آپ کے خلاف متعصبین کا بغض بڑھتا گیا۔ اور یہیں سے آخر فتنے نے اپنے پر نکالے ۔

کفر/ارتداد کا فتویٰ، قید اور وفات:

جب مخالفین آپ سے دلائل کے میدان میں ہار گئے تو ان نے زیر زمین سازشیں تیار کرنا شروع کیں۔ اورموقع کی تلاش میں لگ گئے ۔ موقع تھا، جو آخر مل ہی گیا۔ وہ ایسے کہ مصر کے ایک عالم دین نے فتویٰ دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کیلئے پکارنا حرام ہے۔۔۔ ان کے فتوے پر ایک شور کھڑا ہوا اور بدعقیدہ ملاؤں کے بھڑکانے پر عوام الناس نے ان عالم کو پیٹ دیا۔ پھر بدعقیدگی کے زیر اثر حکومت نے ان عالم کو ملک بدر کر دیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، جس کی وجہ سے بدعقیدوں کے حوصلے بلند ہو گئے تھے۔فضا سازگار تھی، یہاں سازش کا بھیج اپنا پھل دے سکتا تھا، شیخ الاسلام بھی چوں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنے کو حرام جانتے تھے ، لہذا مخالفین نے ماحول، ہوا اور عوامی مزاج کو سازگار جان کر داؤ کھیلا اور آپ کو ”گستاخ رسول“ ڈکلیئر کر دیا۔ اور دلیل میں آپ کا ایک 17سال پرانا فتویٰ نکال لائے کہ جی ابن تیمیہ زیارتِ قبر رسول کو حرام قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اس فتوے میں سوال قبر رسول کی زیارت کی نیت سے سفر کے متعلق تھا۔

بہرحال، دمشق میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ جب یہ شور مصر پہنچا تو آپکے 17 بڑے بڑے مخالفین نے آپ پر یہ کہہ کر کفر/ارتداد کا فتویٰ جڑ دیا کہ یہ شخص (ابن تیمیہ) رسول اللہ کی قبر کی زیارت سے روکتا ہے۔ یہ نبی کی شان میں تنقیص ہے جو کہ واضح کفر/ارتداد ہے اور اسکی سزا موت ہے ۔ حکومت وقت نے اب الوقتوں کے پریشر میں آکر آپ کو دمشق کے ایک قلعے میں قید کر دیا۔

قید میں بھی مگر آپ فارغ نہ بیٹھے، بلکہ تحقیق و تصنیف میں مشغول رہے ۔ مخالفین کو خبر ہوئی تو لکھنے کا سامان ضبط کروا دیا۔ کارندے آئے اور شیخ سے قلم و دوات لے گئے ، مگر کاغذ کو ساتھ لیجانا بھول گئے۔ آپ نے کوئلوں کی مدد سے ان صفحات پر لکھنا شروع کردیا۔۔۔ کئی کتابیں آپ نے جیل میں لکھی ہیں۔ بس یوں ہی قفس میں شب و روز گزرتے رہے ، یہ قید دو سال، تین ماہ اور کچھ دنوں پر محیط رہی۔

پھر ذوالقعدہ 728 ھجری کے ابتداء میں بیمار پڑ گئے اور بالاخر بیس پچیس دن کی مختصر علالت کے بعد 28 ذوالقعدہ کی شب علم و عمل کا یہ آفتاب، جہان فانی سے کوچ کر گیا۔

تصا نیف اور تلامذہ : 

شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی تصانیف تقریبا ہزار تک پہنچتی ہیں، جن میں بہت سی کتب دستیاب نہیں ہوسکیں، اور بعض کتابیں دیگر کتابوں میں ضم کر دی گئی ہیں، فتاویٰ ابن تیمیہ آپکے فتووں کے مجموعے کا نام ہے کہ جس کی چالیس جلدیں ہیں۔ اسکے علاؤہ الصارمِ المسلول علی شاتم الرسول اور منہاج السنہ آپکی مشہور کتابیں ہیں، جبکہ آپ کے مشہور شاگردوں میں ابن قیم ، حافظ ذہبی جیسے نابغہ روزگار اور ابن کثیر جیسے مورخ و مفسر شامل ہیں۔

 


Post a Comment

0 Comments

Close Menu