چند مشہور تفاسیر اور ان کے مصنفین کا مختصر تعارف
﷽
vتفسیر القرآن العظیم (تفسیر ابن کثیر
) ۔
مصنف کا نام :اسماعیل
بن عمر بن کثیر دمشقی ، ،کنیت ابو الفداء،لقب عماد الدین اور عرف ابن کثیر ہے۔
ابن کثیر کی ولادت ۷۰۰یا ۷۰۱ سن
ہجری بمقام مجدل،بصرٰی شام میں ہوئی،ماہ شعبان ۷۷۴ سن
ھجری کو وفات پائی۔
تفسیر القران العظیم جو تفسیر ابن کثیر کے نام سے مشہور
ہے،حافظ ابن کثیر کی سب سے اہم تفسیری کاوش ہے۔
اس کا قلمی نسخہ جو دس جلدوں پر مشتمل ہے کتب خانہ
"خدیویہ" مصر میں موجود ہے۔تفسیر بالماثور کے اسلوب پر لکھی جانے والی تفاسیر میں یہ صحیح
ترین تفسیر ہے۔ اس میں احادیث رسول اللہﷺ
کے نقل کرنے میں صحت اور سند کاخاص خیال رکھا گیا ہے۔اس میں صحابہ کرام رضی اللہ
عنھم اور تابعین کی صحیح اقوال کو نقل کی گی ہیں۔ یہ تفسیر ابن جریر کا خلاصہ اور
لب لباب ہے۔
اس کے شروع میں مقدمہ ہے جس میں قرآن کریم سے متعلق علمی
مباحث تحریر کیے ہیں۔یہ مقدمہ زیادہ تر اپنے استاد ابن تیمیہؒ کے رسالہ "اصول
تفسیر "سے اخذ کیا ہے۔
امام ابن کثیر سلیس اور مختصر عبارت میں آیات کی تفسیر کرتے
ہیں،ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے
کئی قرانی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں پھر احادیث ذکر کرتے ہیں،پھر
اقوال صحابہ تابعین اور تبع تابعین درج کرتے ہیں۔اس انداز سے یہ تفسیر کرتا ہے۔
ابن کثیر کا استاد ابن تیمیہ تھا۔
تفسیر میں ،نقد وجرح،شان نزول ،روایات اور اقوال میں تطبیق، آیات کا ربط،اور حروف مقطعات پر
بحث کی گئی ہے۔
اس تفسیر کو مصدر و مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔
v
جامع البیان عن تفسیر القرآن(تفسیر طبری)
v
مؤلف کانام:محمد بن جریر بن یزید طبَری ،کنیت: ابو
جعفر ،
جلیل القدر عالم ،مجتہد مطلق اور
صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔
جائے پیدائش:طبرستان۲۲۴سن ہجری۔بمطابق 838 ء۔
جائے وفات:بغداد۳۱۰ سن ہجری۔بمطابق 922 ء
سات سال کی عمر میں قرآن
حفظ کیا۔
نو سال کی عمر میں حدیث لکھنا شروع
کیا۔
بارہ سال کی عمر میں علام و فنون کے حصول کے لئے مختلف ممالک کا سفر کیا ۔
16 سال کے عمر میں بغداد کا سفر
کیا۔
آپ ناسخ و منسوخ کے عالم تھے۔
تصانیف:
جامع البیان۔
کتاب التاریخ المعروف بتاریخ الامم
والملوک (یہ کتاب امھات المراجع میں سے ہے)۔
کتاب القراءات۔
و العدد و التنزیل۔
کتاب اختلاف العلماء۔
تاریخ الرجال من الصحابۃ و
التابعین۔
کتاب الاحکام شرائع الاسلام ۔
کتاب التبصر فی اصول الدین۔
تفسیر کا تعارف:
تفسیر کا پورا نام "جامع البیان عن تفسیرالقران "ہے۔یہ تفاسیر کا ماخذ اول ہے،اور 30 جلدوں
میں چھپ چکی ہے،امام طبریؒ نے اس کو 283 میں لکھنا شروع کیا اور سات سال میں اس کو
مکمل کیا۔ پہلے یہ تفسیر بلکل ناپید تھی۔ اتفاقا "امیر حمود بن الامیر عبدالرشید نجدی "
کی ذاتی لائبریری سے ایک قلمی نسخہ مل کر طبع کیا گیا۔
•
امام جلالدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
تفسیر ابن جریر جملہ کتب تفاسیر سے
اعظم و افضل ہے۔ اس میں تفسیری اقوال کی توجیہ و ترجیح کلمات کی نحوی حالت اور
استنباطِ مسائل سے تعرّض کیا گیا ہے۔اس طرح یہ تفسیر سابقہ کتب سابقہ کتب تفسیر پر
فوقیت رکھتی ہے۔(الاتقان،ج۲،ص۱۹۰)
•
ابو حامد اسفرائنی کا قول:
اگر کوئی شخص ابن جریر حاصل کرنے
کے لئے چین کا سفر اختیار کرے تو یہ کچھ ذیادہ نہیں۔(معجم الاُدباء،ج۱۸،ص۴۲)
ابن جریر ،مقاتل اور کلبی
جیسے متھم بالکذب سے کوئی شئی نقل نہیں
کرتے۔
ابن خزیمہ نے ابن خالویہ سے ابن جریر
مستعار لی ،کئی سال بعد واپس کی تو فرمایا :
نظرت فیہ من اولہ الٰی آخرہ فما
اعلم علی ادیم الارض اعلم من ابن جریر۔
آپ نے تین ہزار اوراق میں اس
تفسیر کا اختصار کر دیا۔
آیت کی تفسیر سے پہلے فرماتے ہیں "القول فی تاویل قولہ کذا و کذا" پھر
آیت کی تفسیر کرتے ہیں۔
ابن جریر ؒنے اپنی تفسیر میں قدیم
شعر کی طرف رجوع کرنے میں ابن عباس ؓ کی
اتباع کی ہے۔
آپ نے کلامی مسائل میں اہل سنت کے عقائد کو اختیار کیا ہے۔
ابن جریر نے بخلاف دیگر مفسرین کے اپنی تفسیر میں بے جا
امور سے اجتناب کیا ہے۔
ابن جریر اصحاب الرئی سے سخت
اختلاف کرتے ہیں،محض لغت سے تفسیر کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
v
تفسیر الکشف و البیان عن تفسیر
القرآن۔
مؤ لف کا نام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی
نیسابوری ہے۔
وفیات الاعیان میں ابن خلکان فرماتے ہیں:
فن تفسیر میں آپ یکتائے روزگار تھے ۔ایسی تفسیر لکھی جو دیگر تفاسیر پر فائق ہے۔
یاقوت حموی ،معجم الادباء میں لکھتے ہیں :
ثعلبی عظیم قاری ،مفسر ،واعظ، ادیب، ثقہ ،حافظ اور
صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔
مؤلف نحوی مسائل میں خوب دلچسپی لیتے ہیں۔
اقوال کو بروایت سدی از کلبی از ابو صالح از ابن عباس
نقل کرتے ہیں۔
ہر سورت کے
اختتام پر بروایت ابی بن کعب ایک حدیث اس سورت کے فضائل کے بارے میں بیان کرتے
ہیں۔
الرسالۃ المستطرفہ،الکتانی کے مطابق واحدی اور انکے
استاد ثعلبی علم حدیث میں مایہ ناز
تھے لیکن دونوں کی تفاسیر خصوصاً
ثعلبی میں احادیث موضوعہ اور قصہ کہانیوں کی بھرمار ہے۔
v
الجامع لاحکام والقرآن و المبین
لما تضمنہ من السنۃ وآی الفرقان (تفسیر قر
طبی )
v
مصنف کا پورا نام: ابو عبداللہ محمد بن احمد
بن ا بی بکر بن فرح الانصار ی
الخزرجی القرطبی الاندلسی ۔
پیدائش:610 ھ
بمطابق ۱۲۱۴ء ، اندلس۔وفات ۹شوال ۶۷۱ھ بمطابق ۱۲۷۴ء۔
۶۲۷ ھ والد گرامی کی شہادت کے وقت قرطبی ، شیخ ابن
ابی حجہؒ کے شاگرد تھے۔
فقہی مسائل کے اعتبار سے اگر چہ انہیں شافعی المسلک
اساتذہ سے بھی استفادہ کا موقع ملا لیکن زندگی بھر فقہ مالکی کی تقلید کرتا تھا۔
تالیفات:
الاسنی فی شرح اسما ء الحسنیٰ
التذکار فی افضل الاذکار
التذکرۃ باحوال الموتی و امور الاخرۃ
شرح التقصی
قمح الحرص با لذھم و القناعۃ ورد ذل السؤال بالکف و
الشفاعۃ
التقریب لکتاب التمھید۔
الاعلام بھا فی دین النصاریٰ و اظھار محاسن دین
السلام
مصر میں آپ کے بڑھاپے کے بارے میں مشہور ہے:
صالح ،متعبد،ورع، مطرھ للتکلف یمشی بثوب واحد و علیٰ
راسہ طاقیۃ۔
تفسیر قرطبی
کا منہج:
امام قرطبی کا اپنی تفسیر میں یہ اسلوب رہا ہے کہ زیر
مطالعہ آیت یا اس کا کچھ حصہ نقل کرنے کے بعد سب سے پہلی اس کے تفسیری مباحث کے
تعداد بیان کرتا ہے،ان مباحث کے لئے وہ ہمیشہ مسائل کا لفظ استعمال کرتا ہیں مگر
یہاں مسائل سے مراد صرف فقہی مسائل نہیں ہوتے بلکہ ان کے نزدیک ہر بحث ایک مسئلہ
ہے ان مباحث میں آیت کے لغوی تحقیق،قراءات،شان نزول، فقہی احکام اور تفسیری نکات
وغیرہ ہر پہلو ایک مستقل مسئلہ کے تحت بیان ہوتا ہے۔
امام قرطبی کی تفسیر میں موضوعی اور عمومی دونوں پہلو جمع
ہیں۔
اس کے نام کا پہلا حصہ موضوعی پہلو پر دلالت کرتا ہے ۔یعنی
اس میں قرآن کی روشنی میں فقہی احکام بیان ہونگے۔(Legal study of the Holy Quraan)
اور اس کا دوسرا حصہ عمومی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یعنی
فقہی احکام کے علاوہ تمام آیات کی عمومی
تفسیر(General
commenetory) اور اس ضمن میں آنے والی تمام
احادیث کی وضاحت ہوگی۔
v
تفسیر روح المعانی فی تفسیر
القرآن العظیم و سبع مثانی
مصنف کا نام: سید محمود آفندی ،اور کنیت ابو الثناء
تھی،لقب شہاب الدین آلوسی بغدادی تھا جس سے مشہور تھے ۔
آلوس ایک گاؤں کا نام تھا جو بغداد اور ملک شام کے
درمیان کے راستے ایک مقام میں واقع ہے۔
تیرہ برس کی عمر میں تعلیم و تدریس کا با قاعدہ سلسلہ
شروع کیا۔
مسلکاً شافعی تھے لیکن اکثر معاملات میں احناف کی رائے قبول کرتے۔
احناف کے منصب
افتاء پر فائز تھے۔۱۲۶۳ میں ھ میں اس عہدے سے استعفیٰ دیا اور قرآن کی
تفسیر میں مشغول ہوئے۔
اس تفسیر کا نام وزیر اعظم رضا پاشا نے تجویز کیا۔
علامہ آلوسی نے اس تفسیر کو پندرہ سال میں مکمل کیا۔
مقدمہ میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے
ا س کام کا آغاز ۱۲۵۲ھ کو بوقت شب کیا جب میری عمر ۳۴ برس تھی۔
علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں اسباب نزول کا
ذکر کرتے ہیں ،صحیح اسباب کے ذکر کے ساتھ ضعیف کی تردید کرتے ہیں۔
سورۃ کے فضائل کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس میں بھی صحیح و ضعیف کو بیان کرتے ہیں۔
ربط و مناسبت ِ سورۃ اور آیات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
تشریح لغات
یعنی لغوی تحقیق کا بھی اہتمام
کرتے ہیں۔
قراءات پر بھی تفصیل سے مع اختلاف بحث کرتے ہیں۔
آیات کی
تفسیر و توضیح میں اشعار سے استشہاد کرتے
ہیں۔
اسرائیلیات سے بالکل خالی تفسیر ہے۔
اشاری تفسیر
کا اہتمام بھی کیا گیا ہے،یعنی تفسیر کے
ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ باطنی حسن پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
علامہ آلوسی احادیث کو بحوالہ نقل کرنے کے بعد صحیح
و ضعیف کا حکم بھی لگاتے ہیں۔
چند اشاری تفاسیر کے نام:
1. تفسیر نیشاپوری
2.
تفسیر آلوسی
3.
تفسیر
القرآن العظیم از تستری
4.
تفسیر محی
الدین بن عربی
5.
تفسیر ابی
عبد الرحمن السلمی
(حقائق
التفسیر )
6.
تفسیر ابی
القاسم القشیری
7.
تفسیر ابی
محمد الشیرازی (عرائس
البیان فی حقائق
القرآن )
8.
تفسیر ابن
عجیبہ (البحر
المدید )
9. تفسیر اسماعیل حقی (روح البیان )
P.hD Scholar Lubna Shah
Email#shahazizece@gmail.com
0 Comments