Ad Code

Responsive Advertisement

تفسیر کا مفہوم اور اس کی اقسام


Lubna Shah

تفسیر کا  مفہوم اور اس کی اقسام

الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلاہادی لہ ونشہد الا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا وسندنا ومولانا محمد اًعبدہ ورسولہ:

تفسیر کا لغوی معنی:

تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فَسّرَ (ماضی) کے مصدری معنی ہیں: واضح کرنا، تشریح کرنا، مراد بتانا، پردا ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔

اصطلاحی مفہوم:

وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول، ناسخ و منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔

امام ماتریدی کے نزدیک: تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ چند احتمالات میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔

امام ابو نصر القشیری کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔

علامہ ابو طالب شعلبی کہتے ہیں: تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا بیان کر دینا ہے، خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز، مثلا صراط کے معنی راستہ، صیب کے معنی بارش اور کفر کے معنی انکار۔                                                       

ü           تفسیر کی اقسام:

تفسیر کی  دو اقسام ہیں ۔تفسیر با لماثور اور تفسیر با لرائی۔

تفسیر بالرائی کی تعریف:

لفظ ’’الرائی ‘‘ کا اطلاق اعتقاد،اجتہاد اور قیاس پر ہوتا ہے۔اسی لیے قیاس کے قائلین کو اصحاب الرائی کہا جاتا ہے ۔ لہذاتفسیر بالرائی سے مراد وہ تفسیر قرآن ہے  جو اجتہاد کی مدد سے کی جائے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے جبکہ عربوں کے اسلوب ِکلام ،عربی الفاظ اور  ان کے وجوہ دلالت ،اسباب نزول، ناسخ و منسوخ  وغیرہ سے بخوبی آگاہ ہو اور قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہو۔اگر مندرجہ بالا تمام شرائط پوری ہوں تو یہ تفسیر بالرائی جائز اور درست ہے،اور اگر یہ شرائط نہ پائی جائے تو پھر تفسیر بالرائی مذموم اور ناجائز ہے۔(تاریخ تفسیرو مفسرین:۲۳۳،۲۴۰)

تفسیر بالماثور کی تعریف:

کسی آیت کا معنی و مفہوم اگرقرآن کی کسی آیت سے واضح ہوتاہو یاارشادنبویﷺ سے یا اقوال صحابہ سے یااقوال تابعین سے اس پر روشنی پڑتی ہو تو اس کا نام تفسیر با لماثور(یعنی منقول تفسیر) ہے۔(تاریخ تفسیرو مفسرین:۱۹۰)

                  تفسیر با لماثور کو تفسیر با لمنقول بھی کہتے ہیں۔

                  بعض مفسرین اسرائیلیات کے ساتھ کی گئی تفسیر کو بھی تفسیر با لماثور میں شامل کرتے ہیں۔

اسرائیلیات  :سے مراد  وہ یہودی اور نصرانی تہذیب ہے  جس نے تفسیر قرآن کو متاثر کیا۔

بعض صحابہ کرام اور تابعین پہلے اہلِ کتاب کے مذہب سے تعلق رکھتے تھے، بعد میں جب وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تو انہیں قرآن کریم میں پچھلی امتوں کے بہت سے وہ واقعات نظر آئے جو انہوں نے اپنے سابقہ مذہب کی کتابوں میں بھی پڑھے تھے، چنانچہ وہ لوگ قرآنی واقعات کے سلسلے میں وہ تفصیلات مسلمانوں کے سامنے بیان کرتے تھے جو انہوں نے اپنے پرانے مذہب کی کتابوں  (تورات ،انجیل )میں دیکھی تھیں۔ یہی تفصیلات "اسرائیلیات" کے نام سے تفسیر کی کتابوں میں داخل ہو گئی ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رحمة اللہ علیہ) نے، جو بڑے محقق مفسرین میں سے ہیں، لکھا ہے کہ : ( بحوالہ : مقدمة تفسیر ابن کثیر )

                 اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں۔

ü             وہ روایات، جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔

مثلاً : فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کوہِ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ۔

ü             وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔

مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ ۔۔۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی آخری عمر میں (معاذاللہ) مرتد ہو گئے تھے۔ جبکہ اس کی تردید قرآن کریم سے ثابت ہے : وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّياطِينَ كَفَرُواْ سلیمان (علیہ السلام) نے (کوئی) کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا ( سورة البقرة : 2، آیت : 102 )

ü             وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ۔ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔ 

ü           موضوع کے لحاظ  سے  تفسیر کی  اقسام :

موضوع کے لحاظ  سے  تفسیر کی  دو اقسام ہیں۔

 تفسیر عمومی :

جس میں آیات کی ترتیب کے مطابق ہر آیت کی تفسیر اور اس کے مضامین بیان کر دئیے جائیں۔

تفسیر موضوعی:

جس میں کسی ایک موضوع کی آیات پر  ذیادہ زور دیا جائے۔

 P.HD Scholar Lubna Shah

Email#shahazizece@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

Close Menu