Ad Code

Responsive Advertisement

رمضان المبارک کے فقہی مسائل,تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں

"

LUBNA SHAH

 رمضان المبارک کے فقہی مسائل "

 ماہ رمضان ؛ فضائل و مسائل

تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں :

تہجد اور تراویح سے متعلق آمدہ تمام احادیث وآثار کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ شریعت کی نظر میں تہجد اور تراویح دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، دونوں کو ایک قرار دینا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ :

1- تہجد کی مشروعیت ابتداء اسلام میں بطور فرض ہوئی تھی، چنانچہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ ان کے پاؤں میں نماز پڑھتے پڑھتے ورم آجاتا تھا، لیکن پھر اس کی فرضیت کا حکم ختم ہوگیا اور نفلی حیثیت برقرار رہی، سنن ابی داؤد کی درج ذیل حدیث اس پر روشنی ڈالتی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

{حدثنی عن قیام اللیل قالت: ألست تقرأ یٰٓأیہا المزمل، قال: قلت بلی، قالت: فإن أول ہٰذہ السورۃ نزلت، فقام أصحاب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی انتفخت أقدامہم وحبس خاتمتہا في السماء اثني عشر شہراً ثم نزل اٰخرہا فصار قیام اللیل تطوعاً بعد فریضۃ (سنن أبي داؤد ۱؍۱۹۰)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ پہلے ہی سے رمضان اور غیر رمضان ہر زمانہ میں تہجد کا استحباب ثابت ہوچکا تھا، اور شوقین حضرات اس پر عامل بھی تھے، یہ ہجرت سے پہلے کی بات ہے، بعد میں جب ہجرت کے بعد رمضان المبارک کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو اسی کے ساتھ حضور اکرم ﷺ نے امت کو قیام رمضان یعنی تراویح کی مشروعیت کی بھی اطلاع دی، چنانچہ فرمایا:

{إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ فرض صیام رمضان علیکم وسنَنتُ لکم قیامه (سنن النسائي، الصیام)

(ذکر اختلاف یحییٰ بن أبي کثیر ۱؍۳۰۸ رقم: ۲۲۰٦ دار الفکر بیروت، السنن الکبریٰ للنسائي ۳؍۱۲۹ رقم: ۲۵۳۱، سنن ابن ماجۃ ۱؍۹٤ النسخة الہندیة، مسند أحمد ۲؍۳۰۷ رقم: ۱٦٦١)

حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان اللہ تعالی فرض صیامہ علیکم اللہ نے تم پر روزہ فرض قرار دیا وسننت لکم قیامہمیں نے رات کی تراویح کو سنت قرار دیا فمن صامہ جو دن کا روزہ رکھے وقامہ اور رات کو تراویح پڑھے ایمانا واحتسابا وہ اللہ کے اوپر ایمان بھی رکھتا ہواورنیت درست ہو خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ اللہ اس کو گناہوں سے یوں پاک کردیتے ہیں کہ جیسے انسان ماں کے پیٹ سے پیدا ہو تو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔[1] 

اب غور فرمائیے کہ اگر ’’سنَنتُ لکم قیامه‘‘ سے بھی تہجد ہی مراد لی جائے، تو یہ قول بالکل بے معنی ہوگا، کیونکہ تہجد تو پہلے ہی سے نفل ہونے کی حیثیت سے مشروع چلی آرہی ہے، پھر اس کی سنیت کی خبر دینے کی کیا ضرورت تھی؟ لازماً یہ کہنا پڑے گا کہ اب آپ نے تہجد کے علاوہ کوئی اور عبادت مسنون قرار دی ہے، وہی تراویح ہے، جس کو ’’قیام رمضان‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔(مستفاد: فتاویٰ رشیدیہ ۳٦٧)

2- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں آٹھ رکعت نماز تہجد کا ذکر ہے، وہ محقق علماء کی نظر میں نماز تہجد پر محمول ہے، حدیث یہ ہے:

{ ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرۃ رکعة الخ (صحیح البخاري ۱؍۱۵٤ رقم: ۱۱٤٧)

حدیث کے الفاظ خود بتلارہے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نظر اس نماز پر ہے، جو رمضان اور غیر رمضان دونوں میں پڑھی جاتی ہو اور وہ تہجد ہے، تراویح نہیں ہے، اگر اس سے نماز تراویح مراد لی جائے اور اس کی رکعتیں صرف آٹھ قرار دی جائیں؟ (جیساکہ اہل حدیث حضرات کہتے ہیں) تو یہ بات خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ان صریح احادیث کے خلاف ہوگی جن میں کہا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ رمضان المبارک میں دیگر مہینوں سے زیادہ عبادات انجام دیا کرتے تھے، بہرحال حدیثِ عائشہ تہجد پر محمول ہے، لیکن اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا، کہ آپ نے رمضان کی راتوں میں تہجد کے علاوہ کوئی اور نماز پڑھی ہی نہ ہو، بلکہ تراویح کے ساتھ تہجد کی نماز بھی مقررہ تعداد میں پڑھتے رہنے میں کوئی استبعاد نہیں ہے، جیساکہ دیگر روایات سے ثابت ہے۔

3-  حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا جس میں تین رات آپ ﷺ  کا جماعت سے نماز پڑھانا مذکور ہے، وہ اہل تحقیق کے نزدیک تراویح پر ہی محمول ہے، اگر یہ تہجد کی نماز ہوتی تو آپ ﷺ  چوتھے دن یہ ارشاد نہ فرماتے کہ إنی خشیت أن تفرض علیکم (سنن أبی داؤد ۱؍۱۹۵)

کیونکہ تہجد کی فرضیت تو پہلے ہی منسوخ ہوچکی تھی، اب اس کی فرضیت کا خطرہ نہ تھا، معلوم ہوا کہ یہ دوسری نماز (تہجد کے علاوہ) تھی، جس کی فرضیت کا خطرہ تھا وہ تراویح ہے، اسی بات کو دیکھتے ہوئے امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں اس سنت کا باجماعت اہتمام فرمایا، کیونکہ اب آپ ﷺ کی وفات کے بعد اس کی فرضیت کا خطرہ باقی نہ رہا تھا۔

(روایات کے لئے ملاحظہ کریں ؛

سنن أبي داؤد ۱؍۱۹۵ رقم: ۱۳۷۳، سنن النسائي ۱؍۲۳۸)

صحیح البخاري / باب فضل من قام رمضان رقم: ۲۰۱۰، فتح الباری ۵؍۳۱٤-۳۱۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

4- حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ تیسرے دن سحری کے وقت تک آپ ﷺ نماز پڑھاتے رہے۔

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا سحری کے وقت خدام کو جلدی کھانا لانے کا حکم کرنا۔

نیز حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت (جس میں صبح تک حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے نماز تراویح پڑھانے کا ذکر ہے) سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ تراویح اور تہجد ایک ہی چیز ہیں، اس لئے کہ تہجد اخیر شب کی نماز کو کہا جاتا ہے، جو عموماً نیند سے بیدار ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے، اب اس خاص وقت میں جو بھی نفل نماز پڑھی جائے گی اس سے تہجد کا ثواب حاصل ہوسکتا ہے، اس لئے کہ مقصود حاصل ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے نماز کسوف کے ساتھ نماز چاشت کی نیت بھی کرلی جائے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۳۷٦)

علاوہ ازیں علامہ شامی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ جو نماز بھی تہجد کے وقت میں ادا کی جائے گی اس سے تہجد کا ثواب مل جائے گا، فرماتے ہیں:

{قلت والظاہر أن تقییدہ بالتطوع بناء علی الغالب وأنہ یحصل بأي صلاۃ کانت۔ (شامي ۲؍۲٤ کراچی)

لیکن اس تداخل سے تراویح اور تہجد دونوں نمازوں کا ایک ہونا لازم نہیں آتا۔

5- حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت سے بھی تراویح اور تہجد کا الگ الگ ہونا معلوم ہوتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

{عن قیس بن طلق قال: زارنا أبي طلق بن علي في یوم من رمضان فأمسی بنا وقام بنا تلک اللیلۃ وأوتر بنا، ثم انحدر إلی مسجد فصلی بأصحابہ حتی بقي الوتر، ثم قدم رجلاً فقال: أوتر بہم۔ (سنن النسائي ۱؍۲٤٧)

اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے الگ الگ اوقات میں تراویح اور تہجد کی نمازیں پڑھیں، اسی طرح یہ بھی پتہ چلا کہ وتر کا حکم الگ سے مستقلاً ایک مرتبہ پڑھنے کا ہے، وہ تراویح یا تہجد کے تابع نہیں ہے، اس لئے اسے مشابہت اور اتحاد کا معیار نہیں بنایا جاسکتا۔

6- حضراتِ فقہاء نے احادیثِ شریفہ سے استنباط کرتے ہوئے نماز تراویح کو "قیام رمضان" کے نام سے معنون فرمایا ہے، کیونکہ احادیث میں  "سننت لکم قیامه" یا "من قام رمضان إیماناً واحتساباً الخ" جیسے الفاظ وارد ہوئے ہیں، علامہ عینیؒ فرماتے ہیں:

{وإنما اختار ہٰذہ اللفظة أعني قیام شہر رمضان اتباعاً لحدیث أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ الذي أخرجه الجماعة أنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرغب الناس في قیام رمضان من غیر أن یأمر فیه بعزیمة، فیقول: من قام رمضان الخ۔ (عیني شرح الہدایۃ ۱؍۸٦٦)

اور تہجد کے لئے صلوٰۃ اللیل کے الفاظ وارد ہیں، أفضل الصلاۃ بعد الفریضة صلاۃ اللیل ثم غیر خاف أن صلاۃ اللیل المحثوث علیہا ہي التہجد۔ (شامي ۲؍٤٦٧ زکریا، شامي ۲؍۲٤ کراچی) فقط واللہ تعالیٰ اعلم (مستفاد ازکتاب النوازل جلد چہارم)

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

[1] نسائی جلد اول صفحہ308

Islamic scholar Lubna Shah

Email#Shahazizece@gmail.com



 

Post a Comment

0 Comments

Close Menu