Ad Code

Responsive Advertisement

عصر حاضر میں اسلامی تحقیق کی ضرورت اور اہمیت اور محققین کی ذمہ داری

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  

 

فہرست مضامین

نمبر شمار

عنوان

سفحہ نمبر

1

مقدمہ

4

2

تحقیق کا لغوی معنی

5

3

تحقیق کااصطلاحی مفہوم

6

4

تحقیق کی ضرورت واہمیت

7

5

اسلام میں تحقیق کی اہمیت

7 - 13

6

تحقیق کے فوائدو ثمرات

14 - 15

7

عصر حاضر میں اسلامی تحقیق کی ضرورت اور محققین کی  ذمہ داری

16

8

سائنسی  ایجادات اور مسائل

16

9

طبی مسائل اور ان کا حل

17

10

اسلامی بینکاری کا قیام

17

11

مذہبی انتہاء پسندی اورفرقہ واریت کاخاتمہ

18

12

معاشرتی رسوم ورواج کا جائزہ:

19

13

انٹرنیٹ ،ٹی وی ،کیمرہ کا استعمال

19

14

مستشرقین کے اعتراضات کا جواب

20

15

مغرب کی برتری کا جواب

20

16

تحقیق کا طریق کار اور مسلمان محققین کا کردار

20 - 22


 

مقدمہ

اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

امابعد

اسلامی علوم و فنون کے حوالہ سے تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں ہم ایک عرصہ سے 

تحفظات اور دفاع کے دائرے میں محصور چلے آرہے ہیں۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعتراضات اور شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہم ان کے جوابات میں مصروف ہوگئے اور تحقیق کے میدان میں ابھی تک ہمارا رخ وہی ہے۔ کم و بیش تین صدیاں گزر گئی ہیں کہ ہماری علمی کاوشوں کی جولانگاہ کم و بیش یہی ہے۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس دائرے سے باہر نکل کر اقدام اور پیش قدمی کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور defense سے offence کی طرف بڑھنا چاہیے۔ کیو ں کہ مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کے اس فلسفہ کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد اب مغرب کو اس سے واپسی کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی جھلکیاں وقتاً فوقتاً دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس لیے ہمیں عالمی سطح پر دکھائی دینے والی اس فکری تبدیلی پر نظر رکھتے ہوئے تحقیق اور ریسرچ کے نئے موضوعات تلاش کرنا ہوں گے اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق  تحقیق کے شعبے میں مسلمان محققین   کا  کیا کردار   ہے؟ان کی ذمہ  داریاں کیا ہے  ؟کن  موضوعات پر  کام کرنے کی ضرورت ہے ؟

زیر نظر  مضمون میں   ان سب  پہلوؤں کو   اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

 

تحقیق کا لغوی معنی:

تحقیق باب تفعیل کا مصدر ہے۔جس کے معنی چھان بین اورتفتیش کے ہیں۔[1]

  اوراس کا مادہ ح ق ق ہے۔مشہور لغت کے امام خلیل ابن احمد(م۱۷۰ھ )لکھتے ہیں:

الحقُّ نقیض الباطل۔ [2]

”الحق باطل کی ضد ہے “۔

اسی طرح ایک اور مشہور لغت کے ماہر ابن منظور افریقی (م۷۱۱ھ)لکھتے ہیں:

الحَقُّ: نَقِیضُ الْبَاطِلِ، وَجَمْعُہُ حُقوقٌ وحِقاقٌ․․․․․ وحَقَّ الأَمرُ یَحِقُّ ویَحُقُّ حَقّاً وحُقوقاً: صَارَ حَقّاً وثَبت۔[3]

”حق باطل کی ضدہے۔اور اس کی جمع حقوق اور حقاق آتی ہے۔اور حَقَّ الامرُ کا معنی صحیح ہونا اور ثابت ہونا ہے۔“

چونکہ حق اور باطل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قران کریم میں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کاحکم دیا گیاہے۔ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔[4]

”اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔“

مذکورہ بحث کوسمیٹے ہوئے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کا لغوی معنی ،چھان بین،حق وباطل میں فرق ،تفتیش اورثابت کرنا وغیرہ ہے۔

اور انگلش میں اس کے لیے Research کا لفظ استعمال ہوتاہے۔Re کے معنی ہیں دوبارہ اور Search کے معنی ہیں تلاش کرنا تو Research کے معنی ہوئے دوبارہ تلاش کرنا۔

 تحقیق کااصطلاحی مفہوم:

تحقیق کی بہت ساری تعریفات کی گئی ہیں۔جن میں لفظوں کی تعبیر کا فرق ہے تاہم مفہوم اور مدعا تقریبا سب کا قریب قریب ہے۔ یہاں  چند تعریفات پیش کی جاتی ہیں۔

۱- تحقیق ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتاہے۔

۲- کسی امر کی شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنا تحقیق کہلاتاہے۔[5]

3.  According to Oxford English Dictionary:

a.   "To Search into Matter of Subject to investigate of study closely".

(کسی موضوع کے مواد کی تحقیق کرنا ،تلاش کرنا یا باریک بینی سے مطالعہ کرنا۔)

b.   To Search again and repeatedly.

( دوبارہ جستجو کرنا اور بار بار تلاش کرنا۔)            

4.  According to the Oxford Reference Dictionary:

To establish facts and reach new conclusion.

(حقائق متعین کرنا اور نئے نتائج تک پہنچنا۔)      

 تحقیق کی ضرورت واہمیت:

عصر حاضر میں نت نئے چیلنجز اور درپیش مسائل کے حل لیے ”تحقیق“ کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔کسی بھی چیز کی اہمیت کااندازہ اس کی ضرورت سے ہوتاہے۔اور موجودہ زمانہ میں انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں؛ اس لیے مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر ”تحقیق“ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے؛چونکہ ہم لوگ اسلامیات کے طالب علم ہیں؛ اس لیے ہماری تحقیق کا دائرہ علوم اسلامیہ کے گرد ہوگا۔

اسلام میں تحقیق کی اہمیت:

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی رہنمائی کے لیے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑیں ،کتاب اللہ اور سنت جن کو مضبوطی سے

 تھامنے کا حکم دیا گیا۔چنانچہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے تلامذہ تابعین، تبع تابعین ،ائمہ مجتہدین نے اپنی تمام تر تحقیقات میں مرکزی حیثیت قران وحدیث کودی۔اس لیے کہ قرآن کریم اجمال ہے تو حدیث اس کی تفصیل ہے۔ قرآن کریم متن

ہے تو حدیث اس کی تشریح ہے۔قرآن وسنت جس طرح دیگر اہم دینی معاملات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اس طرح تحقیق وتفکر اور تدبر کے بارے میں بھی واضح احکاما ت دیتے ہیں۔قران وسنت سے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن سے تحقیق کی

اہمیت پر مزید روشنی ڈالی جاسکے گی۔

۱-  قرآن کریم کی روشنی میں تحقیق کا ثبوت

قرآن کریم کی متعدد آیات تحقیق کی طرف رہنمائی کرتی ہیں:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍٴ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ[6]

ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناء پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔

اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے سوال نقل کرکے جواب کا ذکر ہے تاکہ ان کی معلومات میں اضافہ اور تحقیق کی راہیں ہموار ہوں۔

ارشاد باری تعالی ہے :

یَسْئلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّةِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ[7]

”پوچھتے ہیں آپ سے یہ لوگ اے پیغمبر چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کہ ایسے کیوں ہوتا ہے؟ تو کہو کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کہ تعین اور خاص کر حج کے اوقات و تواریخ کی علامتیں ہیں“۔

ارشاد باری تعالی ہے :

یَسْئلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ْ وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا[8]

”پوچھتے ہیں آپ سے اے پیغمبر شراب اور جوئے کے بارے میں تو انھیں بتا دو کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے“۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَیَسئلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ[9]

”اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا خرچ کریں تو کہو کہ جو زیادہ ہو تمہاری ضرورتوں سے۔“

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تدبر اور غور وفکر کا حکم دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالی ہے :

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا[10]

”کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے اس قرآن (عظیم)میں؟ یا (ان کے) دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں۔“

یہ تمام آیات تحقیق وتفکر کے بارے میں ہدایات دے رہی ہیں۔اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح قرآن کریم میں حضرت موسی کا تفصیلی واقعہ سورة الکہف میں آرہاہے، جب وہ مزید تعلیم وتحقیق کے لیے حضرت خضر کے پاس پہنچے اور دورانِ سفربہت سی باتوں کا علم ہوا۔

پہنچے اور دورانِ سفربہت سی باتوں کا علم ہوا۔

۲-      احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں تحقیق کاثبوت

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشاداتِ عالیہ میں معاملات اور دیگر اہم امور میں غوروفکر اور تحقیق کرنے کا حکم دیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

”خَرَجْنَا فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّہُ فِی رَأْسِہِ، ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَہُ فَقَالَ: ہَلْ تَجِدُونَ لِی رُخْصَةً فِی التَّیَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَکَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِکَ فَقَالَ: قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللَّہُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیہِ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَعْصِرَ -أَوْ یَعْصِبَ شَکَّ مُوسَیٰ - علَی جُرْحِہِ خِرْقَةً، ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْہَا وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِہِ“[11]

”کہ ہم سفر کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں ایک شخص کو پتھر لگا جس سے اس کا سر پھٹ گیا، اس کو احتلام ہوا اس نے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم مجھے تیمم کی اجازت دیتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ہم تیرے لیے تیمم کی کوئی گنجائش نہیں پاتے؛ کیونکہ تجھے پانی کے حصول پر قدرت حاصل ہے لہٰذا اس نے غسل کیا اور مر گیا جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں نے اس کو ناحق مار ڈالا، اللہ ان کو ہلاک کرے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہ تھا تو ان کو پوچھ لینا چاہیے تھا؛کیونکہ نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے، اس شخص کے لیے کافی تھا کہ وہ تیمم کر لیتا

اور اپنے زخم پر کپڑا باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور باقی سارا بدن دھو ڈالتا۔“

علامہ ابوسلیمان الخطابی(م۳۸۸ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

قلت فی ہذا الحدیث من العلم أنہ عابہم بالفتوی بغیر علم وألحق بہم الوعید بأن دعا علیہم وجعلہم فی الإثم قتلة لہ[12]

”میں کہتا ہوں اس حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر علم کے فتوی دینے کی وجہ سے ان کی مذمت کی اور ان کے لیے وعید بیان کی ا س طریقے پر کہ ان کے لیے بد دعا کی اور گناہ میں ان کو اس کا قاتل قرار کردیا۔“

چونکہ بغیر تحقیق کے یہ فتوی ٰ دیا گیا تھا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سخت کلمات کہے۔اس لیے حکم دیا ”فَإِنَّمَا شِفَاء ُ الْعِیِّ السُّؤَالُ“ تحقیق سے انسان کو درست سمت کے انتخاب میں آسانی رہتی ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا[13]

”کہ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا؛ بلکہ علم کو علماء کے اٹھا لینے کے ذریعہ سے قبض کیا جائے گا؛ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے پس ان سے پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ تحقیق کے ذریعہ گمراہی سے بچا جاسکتاہے۔

صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تحقیقی ذوق پیدا کرنے لیے کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے سوالات کیے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ یَسْقُطُ وَرَقُہَا، وَہِیَ مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِی مَا ہِیَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِی شَجَرِ البَادِیَةِ، وَوَقَعَ فِی نَفْسِی أَنَّہَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: فَاسْتَحْیَیْتُ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَخْبِرْنَا بِہَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہِیَ النَّخْلَةُ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: فَحَدَّثْتُ أَبِی بِمَا وَقَعَ فِی نَفْسِی، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُونَ قُلْتَہَا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی کَذَا وَکَذَا[14]

” کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس میں پت جھڑ نہیں ہوتی اور وہ مومن کے مشابہ ہے۔[15]مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کے خیال جنگل کے درختوں میں جا پڑے اور میرے دل میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے؛ مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا (بالآخر) سب لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہماری سمجھ میں نہیں آیا)آپ ہمیں وہ درخت بتا دیجیے، عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (عمر فاروق) سے، جو میرے دل میں آیا تھا ، بیان کیا تو وہ بولے اگر تو نے یہ کہہ دیا ہوتا، تو مجھے اس سے اور اس سے زیادہ محبوب تھا۔“

امام ابن بطال(م۴۴۹ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

قال المہلب: معنی طرح المسائل علی التلامیذ لترسخ فی القلوب وتثبت، لأن ما جری منہ فی المذاکرة لا یکاد ینسی[16]

مہلب نے کہا :شاگردوں سے سوالات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں وہ باتیں راسخ ہوجائیں؛ اس لیے کہ جن چیزوں کا مذاکرہ ہوتاہے، وہ جلدی بھولتی نہیں ہیں۔

ابن بطال مزید لکھتے ہیں:

إنما أراد البخاری بہذا الباب لیبین أن الحیاء المانع من طلب العلم مذموم[17]

”امام بخاری کی غرض اس باب (الحیاء فی العلم )کے قائم کرنے سے یہ بیان کرناہے کہ جوحیاء طلب علم سے مانع ہو وہ مذموم ہے۔“

اس واقعہ سے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

(الف)    دینی اور شرعی امور کے علاوہ دنیاوی باتوں کی تحقیق بھی کی جاسکتی ہے۔

(ب)     استاد ،طلباء سے ایسے سوالات کرسکتاہے، جن سے ان کے علم میں اضافہ ہو۔

(ج)       بزرگوں اور بڑوں کی مجالس میں ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔

(د)          جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں پوچھنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے۔

حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا

 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

کَیْفَ تَقْضِی إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَاء ٌ؟، قَالَ: أَقْضِی بِکِتَابِ اللَّہِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی کِتَابِ اللَّہِ؟، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِی کِتَابِ اللَّہِ؟ قَالَ: أَجْتَہِدُ رَأْیِی، وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَہُ، وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللَّہِ لِمَا یُرْضِی رَسُولَ اللَّہِ[18]

”فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے کہا اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، آپ نے فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟ عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو؟ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟ انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایاکہ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔“

یہ حدیث بھی بڑی وضاحت سے تحقیق کی اہمیت کو بیان کررہی ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر قرآن وسنت سے تحقیق کرکے مسائل کا حل پیش کرنے کی صراحت فرمائی ،اور اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر قرآ ن وسنت سے مطلوبہ مسئلہ نہ ملا تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا یہ محض اپنی رائے سے کام لینے کی طرف اشارہ نہیں تھا؛ بلکہ اس کے پیچھے بھی قرآن وسنت پر گہرے غوروفکر اور تحقیق سے قائم ہونے والی رائے مراد تھی۔

علامہ ابو سلیمان الخطابی لکھتے ہیں:

قولہ اجتہد برأیی یرید الاجتہاد فی رد القضیة من طریق القیاس إلی معنی الکتاب والسنة ولم یرد الرأی الذی یسنح لہ من قبل نفسہ أو یخطر ببالہ عن غیر أصل من کتاب أو سنة[19]

”حضرت معاذکا فرمانا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اس سے ان کی مراد معاملات کے حل کرنے میں قرآن وسنت سے مستنبط علت کے ذریعے قیا س کرنا تھا۔ اور وہ رائے مراد نہیں تھی جو اپنی ذات سے ذہن یادل میں قرآن وسنت میں سے اصل کے بغیرپیدا ہو۔“

تحقیق کے فوائدو ثمرات:

تحقیق کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

۱- نئی معلومات کاحصول

۲- اصل ماخذ تک رسائی

۳- کارکردگی میں اضافہ

۴- حقیقت سے آگاہی

۵- توہمات سے چھٹکارہ

۶- تعصبات کاخاتمہ

۷- صحیح وغلط کی پہچان

۸- ندامت سے بچاو

۹- علم میں وسعت وگہرائی کا پیدا ہونا

۱۰- صلاحیتوں کا نکھرنا

۱۱-صحیح نتائج تک رہنمائی

۱۲- جمود کا خاتمہ

۱۳- صحیح نظریات کی سچائی کا ادراک

۱۴- باطل اور جھوٹ کا رد

۱۵-قوت فیصلہ کا پیدا ہونا

۱۶- آلام ومصائب سے نجات

۱۷-ترقی میں ممد ومعاون

۱۸- پرسکون زندگی گزارنے کے طریقوں کا علم

۱۹- کائنات کے رازوں اور بھیدوں کا علم

۲۰- شکو ک وشبہات کی فضاء کا خاتم

عصر حاضر میں اسلامی تحقیق کی ضرورت اور محققین کی  ذمہ داری:

قرآن وسنت کو۱۴۰۰ سوسال سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے۔اور ہرصدی میں بے شمار کتب لکھی گئیں۔ذخیرہ تفاسیر ،شروح احادیث اور کتب فقہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ امت مسلمہ نے بہت کام کیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اب کونسے ایسے موضوعات ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتاہے کہ ہر موضوع پر بڑے عمدہ انداز میں مدلل ومفصل کام ہوچکا ہے۔؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اسلاف اور کابرین نے اپنے اپنے زما نے میں وقت کی نزاکتوں کے پیش نظر اسلامی نقطہ نظرسے مسائل کاحل پیش کیا ہے۔جب ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سی علمی قدآور ایسی شخصیات کی فہرست سامنے آتی ہے کہ جن کے علمی رسوخ، تفقہ ،تفکراور علمی وتحقیقی تصانیف کے آگے نظریں عقیدت سے جھک جاتی ہیں اور زبان پر ان کے لیے دعائیہ کلمات آجاتے ہیں۔

اسلام ایک عالمگیر مذہب اور دینِ فطرت ہے۔جوقیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔تہذیبوں کے تصادم ،رسم ورواج کے اختلاف،علاقائی ثقافت کے مختلف ہونے سے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں، ان کے اسلامی حل کے لیے تحقیق کی اشد ضرور ت ہے

سائنسی  ایجادات اور مسائل:

اس وقت سائنسی ترقی اور کمالات نے جہاں بہت سی سہولیات کا سامان فراہم کیاہے وہیں بہت سے سوالات بھی پیدا کردیے ہیں۔مثلا ایک شخص فضامیں چکرکاٹ رہاہے ،چاند پر قدم رکھ چکاہے۔نماز کے اوقات کی تعیین اور قبلہ کی طرف رخ کیسے کرے۔خانہٴ کعبہ زمین پرہے اور وہ فضاء میں موجود ہے۔؟جہاز میں سفرکررہاہے سورج کی ٹکیہ نظر آرہی ہے؛ جبکہ جس شہر سے جہاز گزر رہا ہے وہاں سورج غروب ہے تو اب نماز جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کیسے ہوگی۔؟ یا ایک شخص کسی آبدوز میں بیٹھ کر سمندر کی تہہ میں ہے، وہ کس طرف رخ کرکے نماز پڑھے گا۔ اسی طرح سحری وافطاری کے وقت کا تعین کیسے ہوگا؟

طبی مسائل اور ان کا حل:

عصر حاضر میں علم الطب میں بھی بہت ترقی ہوئی ہے۔انسان کے پورے جسم پر تحقیقات جاری ہیں نت نئے تجربات ہورہے ہیں۔ایک شخص کے اعضاء دوسرے کو دیے جاسکتے ہیں۔؟کیا ڈی این اے ٹیسٹ کی بدولت کسی شخص پر حدجاری کی جاسکتی ہے یاکسی کا نسب ثابت کیا جاسکتاہے۔؟ کیا آپریشن سے مرد وعورت میں جنسی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔؟وغیرہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔

اسلامی بینکاری کا قیام:

اس وقت ایک اہم کام سود سے پاک بینکاری نظام کا قیام ہے۔جس کی تشکیل عین شرعی قوانین کے مطابق ہو۔اگرچہ بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں کوششیں کی ہیں؛ مگر اس پر دیگر اہل علم کے خدشات اور اعتراضات ہیں؛بلکہ فریقین کی طرف سے کتب مارکیٹ میں موجود ہیں۔اگرچہ اختلاف رائے مذمو م نہیں ہے؛ مگر عوام کو اس الجھن سے نکالنا تو ضروری ہے کہ کونسی رائے عصری تقاضوں کے مطابق ہے۔اور جولوگ اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں، ان کے اعتراضات کو دور کرنا اور صحیح خطوط پر اس طرح کام کرنا کہ اس حوالے سے اضطرابی کیفیت کا خاتمہ ہو وقت کا اہم تقاضا ہے۔

سود کی حرمت پر تو کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہے۔؟مگر سود کا اطلاق کن صورتوں پر ہوگا اور کونسی صورتیں اس سے مستثنی ہیں۔؟اس بارے میں اختلاف شدید ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت سے ایسے اہل علم گزرے ہیں اور موجود ہیں جن کی نظر میں بعض صورتیں ایسی ہیں جن پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا؛ مگر دیگر اہل علم کی رائے اس کے برعکس ہے۔؟اس لیے سوو کی ایسی جامع ومانع تعریف ہو کہ جس پر عرب وعجم کے علماء کا اتفاق ہو۔یا کم از پاک وہند کے علماء تو متفق ہوں۔مگر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب چار ایسے ممالک جن میں بالترتیب،حنفی، مالکی،شافعی، حنبلی فقہ نافذ ہو اور جب وہ آپس میں لین دین کریں گے تو اس کی کیا نوعیت ہوگی۔؟ اس لیے کہ سود کی حرمت کی جو علت ہرامام نے اپنے اجتہاد اور نصوص پر گہرے غوروفکرکے بعد نکالی ہے۔ وہ دوسرے امام کی بیان کردہ علت سے مختلف ہے تو پھر عالمی سطح پر لین دین کرتے وقت اس مسئلہ کا کیا حل ہوگا۔؟

مذہبی انتہاء پسندی اورفرقہ واریت کاخاتمہ:

انسانی زند گی میں مذہب بے حد اہمیت کاحامل ہے۔انسانی زندگی کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے جس قدر مذہب اثر انداز ہوتاہے اتنی کوئی دوسری قوت نہیں ہے۔ انسان کو عقل یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حیوانی زندگی سے نکل کر ایک مہذب معاشرے اور پرامن زندگی کے حصول کے لیے اسے کسی چیز کے سہارے کی ضرورت ہے اور وہ سہارا زندگی کے پیچیدہ راستوں پر مذہب کی صورت میں شمع بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور کامیاب ، مہذب اور پرسکون زندگی گزارنے میں اس کا معاون بنتا ہے جس کا کوئی مذہب نہ ہو اس کی زندگی بے معنی سی ہوتی ہے جب کہ جو مذہب سے وابستہ ہوتے ہیں ان کی زندگی کا کوئی مقصد اور مفہوم ہوتا ہے ۔

یہ مذہب ہی ہے جو زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں واضح لائحہ عمل رکھتا ہے۔جس کی بدولت انسان حقیقی کامیابیاں حاصل کرلیتاہے۔روحانی غذا بھی مذہب کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ انسا ن کی نظر اور فکر میں وسعت وعالمگیریت پیدا ہوجاتی ہے؛ مگر یہ سارے اثرات اس وقت مرتب ہوتے ہیں جب مذہب کو اس کی اصل پر باقی رکھتے ہوئے اس پرعمل کیا جائے اگر اس میں افراط وتفریط(زیادتی وکمی)پیدا ہوگئی تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔

پورا عالم اسلام مختلف تباہ کن مسائل سے دور چار ہے، ان میں مذہبی انتہاء وشدت پسندی بھی ہے، جس نے فرقہ وراریت کو مزید فروغ دیاہے اور اس سے امن عامہ بری طرح متاثر ہوا ہے ،ایک دوسرے کا قتل عین ثواب سمجھ کر کیا جارہاہے۔مگر معمولی سے اختلاف رائے اور اظہار رائے کرنے پر ایک دوسرے پر سخت قسم کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور بسا اوقات معاملات حد سے زیادہ سنگینی اختیارکرلیتے ہیں۔ان حالات میں ضرورت ہے مذہبی انتہاء پسندی کے پس منظر، اسباب کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے تاکہعالم اسلام ہرقسم کے داخلی نقصانات سے محفوظ رہے۔

کرپشن کے نقصانات اور اس کا سدباب:

اس وقت پاکستان کوکرپشن نے بری طرح کھوکھلا کردیاہے۔اعلی سے ادنی فرد کسی نہ کسی صورت میں کرپشن میں مبتلا ہے۔کرپشن کا مفہوم کیاہے۔؟کیا اس کا دائرہ صرف مالی بدعنوانی تک محدود ہے یا اور صورتیں بھی داخل ہیں۔؟آج کل رشوت کو ہدایا کے نا م سے موسوم کرکے وصول کیا جارہاہے۔ہدایہ اور تحائف کے بارے میں شریعت کا کیا موقف اور مزاج ہے۔؟کن صورتوں میں ہدایا کا شمار رشوت میں ہوگا۔؟یا تحائف اور ہدایا کا وصول کرنا ناجائز ہوگا۔؟کونسی صورتوں میں رشوت دی جاسکتی ہے؟

کوئی افسر اپنے ماتحت کو غلط کام کا حکم دے اور حکم عدولی کی صورت میں جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو توکیا حکم ہے؟یونیورسٹیز اور کالجز کے اساتذہ کا طلباء سے ہدایا اور تحائف وصول کرنا یا مطالبات کرنا ا ن کا کیا حکم ہے؟تحائف اور ہدایا وصول کرکے اساتذہ کا غیر معیاری گائیڈ نما کتب طلباء کو خریدنے کاحکم دینا۔ڈاکٹر اور ٹیچر کا اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنا ،سرکاری اوقات میں پرائیویٹ کلینک ،اکیڈمی چلانا،صحافی یا اینکر کا پیسوں کی خاطر بک جانا ،علماء سوء اور ان کا کردار، اپنے ماتحتوں سے غیرمہذب رویہ ،ملاوٹ اشیاء وغیرہ بیسیوں ایسے موضوعات ہیں جن پر حقائق کو مد نظررکھتے ہوئے کام کیا جاسکتاہے۔

معاشرتی رسوم ورواج کا جائزہ:

اس وقت ہمارے معاشرہ میں بہت سی ایسی رسوم رائج ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں اکثریت کو یہ ہی نہیں علم کہ کام شرعی ہے؛ اس لیے کررہے ہیں یا ایک رسم کے طور پر سرانجام دے رہے ہیں؟کونسے کام شرعا مباح ہیں اور کونسے ناجائز ہیں۔خوشی وغمی کا شرعی تصور کیاہے؟ اظہار مسرت وغم میں کس حد تک آگے بڑھا جاسکتاہے۔؟شادی وبیاہ اور تجہیز وتکفین کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟بعض خاندانوں میں کزن میرج (چچازاد اور پھوپی زاد کی آپس میں شادی) کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس کا پس منظر کوئی خاندانی رواج ہے؟طبی رائے ہے؟وغیرہ

انٹرنیٹ ،ٹی وی ،کیمرہ کا استعمال:

عصرحاضر میں بہت سی ایجادات منظر عام پر آئی ہیں۔ان کے استعمال کے حوالہ سے اسلام کا موقف کیاہے؟مثلا ٹی وی ،سی ڈی پلیئر،ڈی وی ڈی،کمپیوٹر،انٹرنیٹ ،کیبل ،موبائل فون وغیرہ کا استعمال کس حد تک جائز ہے۔ میوزک ومو سیقی،ناچ گانا،قوالی وغیرہ کے کیا احکامات ہیں؟کیمرہ کی تصویر کا حکم اور ہاتھ سے بنائی جانے والی تصاویر کی شرعی حیثیت متعین کرنا اسلامی محقق کی ذمہ داری ہے؛ تاکہ لوگوں پر صحیح صورتِ حال واضح ہوسکے۔

مستشرقین کے اعتراضات کا جواب:

مستشرقین کے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات، قرآن مجید اور بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر اٹھائے گئے سوالات کے صحیح جوابات دینا  مسلمان مھققین  کی دینی واخلاقی ذمہ داری ہے۔جن میں نہ معذرت خواہانہ انداز ہو اور نہ ہی روح شریعت اور مزاج شریعت سے صرف نظرکیا گیا ہو۔

مغرب کی برتری کا جواب:

آج یورپ کی برتری کے نعرے بلندہورہے ہیں کسی چیز کے صحیح اورمستند ہونے کے لیے یورپ کی تصدیق کافی سمجھی جاتی ہے او راسلامی تہذیب وتمدن کا مذاق اڑایا جارہاہے۔ایسے حالات میں اسلامیات کے محقق پر لازم ہے کہ وہ احکام اسلام کی ایسی توضیح وتشریح کرے جس سے اسلام کی صحیح ترجمانی ہو۔

اس کے علاوہ اور بھی موضوعات ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تحقیق کا طریق کار اور مسلمان محققین کا کردار:

اس تحقیق  کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہم قرآن وسنت اور ان کی توضیح وتشریح میں لکھی اپنے اسلاف کی کتب کی طرف مراجعت کریں گے اور ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کا حل پیش کریں گے، جن پر صدیوں غوروفکر ہوا اور وہ مزید نکھر کرسامنے آگئے ہیں۔

چونکہ ہم لوگ فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ اس لیے دورانِ تحقیق فقہاء احناف کی کتب کوضرور مد نظر رکھیے۔اور چونکہ دیگر ائمہ عظام ،مالکیہ،شوافع ،حنابلہ کی کتب بھی تحقیقی کاموں میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، اس لیے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین میں جتنے بھی نامور اہل علم گزرے ہیں وہ سب حق کی ہی اتباع کرنے والے تھے صرف حق کو فقہ حنفی کے ساتھ خاص سمجھنا یہ بہت بڑی غلطی ہے۔اس

ایسا کوئی  موضوع یا مسئلہ نہیں ہوگا جس پر ہمارے اکابر نے قلم نہ اٹھایا ہو کہیں نہ کہیں ضرور کچھ  نہ کچھ لکھا ہوگا شرط صرف تلاش اور کتب کی ورق گردانی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہی کہ امام ابوحنیفہ کو جو اللہ تعالی نے فقہی بصیرت عطا فرمائی تھی اور جو آپ کی نصوص پر گہری نظر تھی اس کا مقابلہ کوئی آپ کا ہم عصر اور بعد کے افراد میں بھی کوئی نہ کرسکا؛ تاہم اپنے اپنے زمانے میں بہت سی علمی شخصیات گزر ی اور ان کے علمی کارنامے داد تحسین کے مستحق ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو کام دار العلوم دیوبند ہندوستا ن اور اس کے فضلاء سے لیاہے بر صغیر اور دیگر اسلامی ممالک میں اس کی نظیر ملنی دشوار ہے۔الحمد للہ علماء دیوبند نے جس اعتدال اور للہیت وخلوص سے علوم اسلامیہ کی خدمت کی ہے اس کو

نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے دور ان تحقیق خاتم الفقہاء حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ،حکیم الامت حضرت مولانا              

 اشرف علی تھانوی،شیخ العرب والعجم حضرت سید حسین احمد مدنی ،شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی ،علامہ ظفراحمدعثمانی،شیخ الحدیث مولانا یوسف بنوری ،شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا مفتی عزیز الرحمن ،حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی ومولانا بدر عالم میرٹھی اور بھی بہت سے نام ہیں ۔ آج کے دور کے معروف سکالرز جیسے احمد دیدات،ہندوستان کے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ترکی کے ہارون یحیٰی پاکستان  کے ڈاکٹر حمید اللہ( جن کے ہاتھ پر سینکڑوں فرانسیسیوں نے اسلام قبول کیا تھا) اور ان جیسے اور بہت سے محققین اسلام کے داعی اورنمائندوں کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ ان کی تمام توانائیاں  نہ صرف اسلام کی حقانیت غیر مسلموں پر ثابت کرنے پر مرکوز ہیں بلکہ  مسلمانوں کے لئے بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مسائل کا حل تلاش کرنے میں    مصروف ہیں۔

علمائے دین اور محققین  ایسے لوگ ہیں جو دین کے معاملے میں سپیشلائزڈ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دین کا صحیح پتا ہے ۔ ان لوگوں نے سالوں اس بات کی تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیے ہیں کہ فلاں آیت کب نازل ہوئی،اس کا پس منظر کیا ہے، فلاں حدیث کب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے موتی بن کر بکھری اور اس کا پس منظر کیا تھا وغیرہ  وغیرہ۔

مسلمان محققین  کا کردار اسلام کو پھیلانے اس کی ترویج و اشاعت  اور تشریح و وضاحت  میں انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ مگر دین کو محفوظ کرنے کے لیے جن لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں،رات کا چین اور دن کا سکون برباد کیا،حق بات کہنے کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی  وہ علماء اور محققین ہی   ہیں۔ اصل میں دین کے معاملات کو یہی لوگ اچھی  طرح   چلا سکتے ہیں۔

 :حواشی اور حوالہ جات


[1] ۔ کیرانوی،وحیدالزمان،مولانا،القاموس الوحید،لاہور،ادارہ اسلامیات،۲۰۰۱ء ،صفحہ۳۶۰۔

[2] ۔ خلیل ابن احمد،ابو عبدالرحمن،کتاب العین،دارومکتبة الہلال،جلد۳،صفحہ۶۔

[3] ۔ ابن منطور،محمد بن مکرم،الافریقی،لسان العرب،بیروت،دار صادر،۱۴۱۴ھ،جلد۱۰،صفحہ۴۹۔

[4] ۔   القرآن،البقرہ:۴۲۔

[5] ۔ کرم رانا ،ڈاکٹر،اسلامی اصول تحقیق،ملتان،مکتبہ قاسمیہ۔

[6] ۔ القرآن،الحجرات:۶۔

[7] ۔ القران،البقرہ:۱۸۹۔

[8] ۔ القران،البقرہ:۲۱۹۔

[9] ۔ القران،البقرہ:۲۱۹۔

[10] ۔ القران،محمد:۲۴۔

[11] ۔ ابو داؤد،سلیمان بن الاشعث ،السجستانی،السنن،بیروت،المکتبة العصریہ،س ن،جلدا،صفحہ۹۳،حدیث نمبر۳۳۶۔

[12] ۔ الخطابی،حمد بن محمد،ابو سلیمان،معالم السنن شرح سنن ابی داؤد،حلب،المطبعة العلمیة،۱۳۵۱ھ،جلد۱،صفحہ۱۰۴۔

[13] ۔    البخاری،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ،الجامع الصحیح،دار طوق النجاة،۱۴۲۲ھ جلد۱،صفحہ۳۱،حدیث نمبر۱۰۰۔

[14] ۔ البخاری،الجامع الصحیح،جلد۱،صفحہ۳۸،حدیث نمبر۱۳۱۔

[15] ۔ مومن کی کھجورکے درخت سے وجہ تشبیہ اس طرح ہے کہ جیسے کھجور کے پتے کبھی نہیں گرتے ،ہمیشہ رہتے ہیں ،اسی طرح مومن ہمیشہ ،نماز،روزہ،ذکر اللہ اور دیگر خیر اور بھلائی کے کام کرتا رہتاہے۔یہ کام اس سے منقطع نہیں ہوتے۔(ابن بطال،شرح صحیح البخاری،جلد۱،صفحہ۱۴۱)

[16] ۔ ابن بطال،علی بن خلف،ابو الحسن،شرح صحیح البخاری،الریاض،مکتبة الرشد،۱۴۲۳ھ،جلد۱،صفحہ۱۴۱۔

[17] ۔ ابن بطال،شرح صحیح البخاری،جلد۱،صفحہ۲۱۰۔

[18] ۔ ابو داؤد،السنن،۳،صفحہ۳۰۳،حدیث نمبر۳۵۹۲۔

[19] ۔ الخطابی،معالم السنن شرح سنن ابی داؤد،جلد۴،صفحہ۱۶۵۔


Post a Comment

0 Comments

Close Menu