Ad Code

Responsive Advertisement

‘‘میں شامل چندتفاسیر کا مختصر تعارفEasy Qura’an wa Hadeeth app’’

 

 

 

 

‘‘میں شامل  چندتفاسیر کا مختصر تعارفEasy Qura’an wa Hadeeth app’’

 

 



فہرست مضامین

 

صفحہ نمبر

عنوان

نمبر شمار

3

تفسیر کا لغوی اور اصطلاحی  مفہوم

1

4

تفسیر عثمانی کا تعارف

2

5

تفسیر ابن کثیر کا تعارف

3

7

تفسیر الکتاب کا تعارف

4

7

تفسیر مدنی کا تعارف

5

8

تفسیر مکی کا تعارف

6

9

تفسیر تیسیر القرآن ، کا تعارف

7

10

کنز الایمان کا تعارف

8

12

عرفان القرآن کا تعارف

9

13

بیان القرآن کا تعارف

10

14

تفسیر مودودی۔تفہیم القرآن کا تعارف

11

16

ترجمہ بھٹوی کا تعارف

12

 

 

 

 

اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

اما بعد!

مختلف ادوار میں مفسرین  قرآن نے قرآن کی  تفاسیر اور تراجم کی تدوین و اشاعت میں خدمات سر انجام دی ہیں   اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انہی مفسرین علماء کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج قرآن کی تفاسیر اور تراجم کئی زبانوں میں موجود ہیں جس سے  لوگو ں کو رہنمائی حاصل کرنے میں آسانی میسر آتی ہے۔ ایسی ہی چند  اردو تفاسر کا مختصر  تعارف اس مضمون میں پیش خدمت ہے۔

تفسیر کا لغوی  مفہوم:

تفسیریہ لفظ ''فسریفسرتفسیرا'' باب تفعیل کامصدرہےجسکےلغوی معنی واضح کرنےاورکھول دینےکےہیں 'جیسےاللہ تعالی فرماتاہے :

وَلَايَأْتُونَكَ    بِمَثَلٍإِلَّاجِئْنَاكَ بِالْحَقِّوَأَحْسَنَ تَفْسِيرً‌ا ﴿٣٣﴾(الفرقان)

'' یہ کافرآپکےپاس جوکوئی مثال لائیں گےہم اسکاسچاجواب اورعمدہ تفصیل آپکوبتادیں گے ۔''

اس آیت میں لفظ تفسیربمعنی تفصیل ہےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نےبھی یہی معنی لیاہے۔

اصطلاحی تعریف :

تفسیرکی مفسرین ن مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سےزیادہ مشہوریہ ہے :

ھو علم یبحث فیہ عن احوال القرا ن المجید من حیث ولا لتیہ علی مراد اللہ تعالی بقدر الطاقتۃ البشریتۃ

(التفسیر والمفسرون : 15/1 وقواعد التفیسر: 29/1)

'' تفسیرایساعلم ہےجس میں انسانی طاقت کےمطابق قرآن مجیدکےاحوال کےبارےمیں اسطرح بحث کیجائےکہ اس سےاللہ کی مرادحاصل ہوجائے ''۔

 

 

1.    تفسیر عثمانی:

مصنف کے حالات :

علامہ عثمانی 10 محرم الحرام 1302ھ بمطابق 1885ء کو پردہ عدم سے ظہور میں آئے۔علامہ عثمانی محمود الحسن کے تلامذہ میں سے تھے۔ 1325ھ بمطابق 1908ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دورہ حدیث کے تمام طلبہ میں فرسٹ آئے۔فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں فی سبیل اللہ پڑھاتے رہے۔ متوسط کتابوں سے لے کر مسلم شریف اور بخاری شریف کی تعلیم دی۔ مدرسہ فتح پور دلی تشریف لے گئے اور وہاں صدر مدرس مقرر ہوئے۔1348ھ بمطابق 1930ء میں آپ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے اور وہاں تفسیر و حدیث پڑھاتے رہے۔1354ھ بمطابق 1936ء میں دار العلوم دیوبند میں صدر مہتمم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔

آپ کے تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔تفسیر عثمانی فتح الملہم (مسلم شریف کی نامکمل شرح) اعجاز القرآن، اسلام کے بنیادی عقائد، العقل و النقل، فضل الباری شرح صحیح بخاری، مجموعہ رسائل ثلاثہ۔

13 دسمبر 1949ء بمطابق 22 صفرالمظفر 1369ھ کو گیارہ بج کر چالیس منٹ پر بروز منگل 64 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔

تفسیر عثمانی کا جائز:

تفسیر عثمانی گذشتہ ۷۰ برس سے اردو تفاسیر میں نہایت معتبر نام ہے ۔ اس تفسیر کی غیر معمولی مقبولیت کی وہ خصوصیات تو ہیں ہی جو دوسری تفاسیر میں نظر نہیں آتیں ۔ لیکن اصل وجہ ان اکابر کا اخلاص و للٔہیت اورکمال احتیاط کے ساتھ قرآن کی خدمت لیکن اصل وجہ انکا علم و فضل ہے ۔ اس تفسیر کی تکمیل میں جن تین بزرگوں کا نام آتا ہے ۔ وہ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شیخ الاسلام علاّمہ شبیر احمد عثمانی ہیں ۔ تفسیر عثمانی کی چند خصوصیاتمختصر ہونے کے باوجود قرآن کریم کے مفہوم کی تعبیر میں اتنی جامع ہے کہ طالبعلم کو بڑ ی تفاسیر سے مستغنی کر دیتی ہے ۔ قرآنی آیات کا باہمی ربط اتنا واضح ہے کہ مسلسل ترجمہ پڑ ھنے والے کو کہیں کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ عصرِ حاضر میں پیدا ہونے والے اشکالات کا شافی جواب دیا گیا ہے ۔5۔جن مقامات پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں وہاں راجح تفسیر کو اختیار کیا گیا۔ ۵اہلِ علم کے لئے لطیف علمی اشارات کر دیئےکہ جہاں متوقع دشواریوں کے حل کی رہنمائی ملتی ہے ۔ تقریباً۷۰ سال گذرنے کے باوجود زبان اتنی سادہ اختیار کی کہ آج کی زبان محسوس ہوتی ہے ۔

 پہلی مرتبہ مستند تفسیری عنوانات کا اضافہ ۔ہر سورت کے فوائد نمبر مسلسل لگائے گئے اور وہی نمبر بین السّطور ترجمہ میں دیئے گئے تا کہ طالبعلم بآسانی اپنے متعلقہ موضوع کو فہرست میں تلاش کر سکے ۔ تقریباً پانچ ہزار تفسیری عنوانات لگائے گئے جس سے خود اس تفسیر کا یہ ایک مستقل انڈیکس بن گیا۔ عنوانات قائم کرنے میں حضرت علّامہ عثمانی کے فوائد کو ہی بنیاد بنایا گیا ہے ۔ ا سکے علاوہ بھی اس ضمن میں مزید اہتمام کئے گئے جو اندر ’’تفسیر عثمانی کے ترکیبی عناصر‘‘ میں ملاحظہ فرما لیں ۔ چند دیگر خصوصیات اس اہم کام کے لئے جس احتیاط اور صاحبِ علم و فضل کی ضرورت تھی الحمدلِلّٰہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ’’جناب محمد ولی رازی صاحب مدظلہم بن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے ذریعہ اس کام کی تکمیل کرادی۔ اس کا پیش لفظ ’’شیخ الاسلام جناب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم‘‘ نے تحریر فرمایا جو شامل کتاب ہے ۔

2.    تفسیر ابن کثیر:

مصنف کے حالات؛ابن کثیر عالم اسلام کے معروف محدث، مفسر، فقیہ اور مورخ تھے۔ پورا نام اسماعیل بن عمر بن کثیر، لقب عماد الدین اور عرفیت ابن کثیر ہے۔ آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر اپنی بستی کے خطیب تھے اور بڑے بھائی شیخ عبد الوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہہ تھے۔

حافظ ابن کثیر کی ولادت 701ھ میں مجدل میں ہوئی جو بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انہی کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشو و نما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد کو شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے ابن تیمیہ وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔

امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ، تفسیر، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا، چنانچہ علامہ ابن العماد حنبلی، ابن حبیب سے ناقل ہیں۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر(ان پر تاریخ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہو گئی۔ درس وافتاء، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے )میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے، بڑے ذاکر شاغل تھے، چنانچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کیے ہیں،یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق: اخیر میںیہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا، جس نے آ پ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں، چنانچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیںکانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ واتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی۔ ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چنانچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اورستائے گئے۔ اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ 26 شعبان بروز جمعرات 774ھ میں وفات پائی۔

تفسیر ابن کثیر کاجائزہ:

یہ تفسیر بالماثور میں سب سے زیادہ مفید ، مشہور ترین اور عظیم الشان تفاسیر میں سے ایک ہے ، اور اس لحاظ سے یہ تفسیر ابن جریرطبری کے بعد دوسری کتاب ہے جس کے اندر مولف نے مفسرینِ سلف کی روایات کو نقل کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ فی الوقت ، تفسیر ابن کثیر سب سے زیادہ مشہور، سب کے نزدیک لائق اعتماد اور دلائل کی قوت کے اعتبار سے سب سے زیادہ قوی نظر آتی ہے۔

تفسیر ابن کثیر ، ایک ایسی تفسیر ہے جو اہلسنت کے سب مسلک کے علماء اور عوام کے نزدیکیکساں طور پر قابل قبول اور لائق اعتماد ہے۔ اور اس سے کسی ایک خاص گروہ کو فائدہ نہیں بلکہ ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے مولف محترم آیت نقل کرکے اس کے عام معنی بیان کرتے ہیں ، پھر اس کی تفسیر قرآن کریم سے یا حدیث سے یا صحابہ و تابعین کے اقوال سے ذکر کرتے ہیں۔ بسا اوقات آیت سے متعلق تمام احکام وقضایا اور کتاب وسنت سے ان کے دلائل ذکر کردیتے ہیں۔ نیز فقہی مسالک کے اقوال معہ ادلہ وترجیح کا بھی اہتمام کیا ہے۔اور سب سے بڑا کارنامہ ان کا یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کی تفسیراور تاریخ میں سے اسرائیلیات کو بہت کچھ چھانٹ کر علیحدہ کر دیا ہے۔

اس عظیم خدمت کواردوقالب میں ڈھالنے کا کام بر صغیر کے مایہ ناز و معروف عالم دین ترجمان کتاب وسنت مولانا محمد صاحب جونا گڑھی نے انجام دیا ہے۔

3.    تفسیر الکتاب :

کے مؤلف ڈاکٹر محمد عثمان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ  ہیں ۔ڈاکٹر صاحب ۹جون ۱۹۱۹ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد گرامی مولوی ضیاء الرحمن رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کلکتہ کی مرکزی مسجد اہلحدیث کے امام تھے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب کی تعلیم و تربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی۔ شروع ہی سے ذہین و فطین تھے اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ ۱۹۳۹ء میں انٹر میڈیت امتیازی نمبروں میں پاس کیا اور کلکتہ میڈیکل کالج میں داخلہ لینے والے دس مسلمان طلبہ میں سے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی دو سال کراچی میں پرائیویٹ ہسپتال میں کام کیا اور پہر دو سال فوج میں ملازمت کی جو بوجہ خرابی صحت چھوڑنا پڑی ۔ ۱۹۵۴ء میں خیر پور سندھ میں گورنمنٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز حیدر آباد ریٹائر ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب بہت اچھے ماہر امراض چشم تھے لیکن انہوں نے ریٹائر منٹ کے بعد نجی کلینک قائم کرنے کے بجائے اپنی خدمات بلامعاوضہ نابیناؤں کے ایک رفاعی ادارے کو پیش کر دیں اور کئی ساتل تک جز وقتی کام کرتے رہے ۔ یوں انہوں نے ایمان و اعمال صالحہ کا حقیقی سرمایہ جمع کرنے میں اپنی عمر گزار دی۔

ڈاکٹر صاحب کو "الکتاب" کی تحریک چند عیسائی مشنری اداروں کی اس اسکیم سےہوئی جس کے تحت وہ عوام الناس اور خصوصاً طلبہ میں بائیبل مفت تقسیم کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں یہ بات کھٹک گئی کہ مسلمانوں کو بھی اسی طرح کی اسکیم شروع کرنی چاہیے جس کے ذریعے قرآن پاک کو نوجوان نسل میں عام کیا جائے۔

۱۹۸۰ء میں اپنی ریٹائر منٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑا اٹھایا اور چار سال کی محنت شافہ کے بعد انہوں نے "الکتاب" کے نام سے قرآنی ترجمہ اور مختصر حواشی تیار کر لی۔ ۱۹۸۴ء میں "الکتاب" کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا ۔

قرآن فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈاکٹر صاحب نے اسی اثنا میں رکھی جسکا مقصد عوام الناس اور بالخصوص طلباء میں قرآن مجید کی تعلیمات کو پھیلانا تھا۔

موجودہ چودہواں ایڈیشن ولایت سنز نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے ۔ اور اس سے پہلے تیرہواں ایڈیشن قرآن سنز نے شائع کیا تھا۔

4.    تفسیر مدنی:

محمد اسحاق خان عفا اللہ عنہ و عافاہ و جعل عقباہ خیرا من اُولٰہ احد طلبۃ العلم المقیم بدبی ( السطوۃ) الامارات العربیۃ المتحدہ ۱۲ صفر ۱۴۱۷ھ الموافق ۲۷ یونیو ۱۹۹۲ء یوم الخمیس شیخ التفسیر مولانااسحاق خان مدنی[1] (1938ء  – 27 جون 2018ء) محدث العصرعلامہ سیدمحمدیوسف بنوری کےشاگرد،فاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن،اسلامی نظریاتی کونسل آزادکشمیرکےرکن،جمعیت علمااسلام آزادکشمیرکےامیر،مولانامحمدیوسف خان کےماموں،مفسرِقرآن تھے۔ اسحاق مدنی نےتعلیم کاآغازجامعہ خیرالمدارس ملتان،جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سےکیادورہ حدیث کی تکمیل کےبعد جامعہ مدینہ سعودی عرب سےتعلیم مکمل کی۔

تفسیر مدنی محمد اسحاق خان کی  تفسیر ہے۔  یہ ایک مختصر  تفسیر ہے اور ایک لحاظ سے تفسیر با لماثور  ہے آیات کی تفسیر دوسری آیات اور احادیث نبوی ﷺ کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اس تفسیر میں قرآن کا آسان اور  سلیس ترجمہ  پیش کیا گیا ہے ۔کسی بات کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے  روزمرہ زندگی سے مثالیں دی گئی ہیں۔بات میں طوالت سے بچنے کے لئے مصنف  کسی بات کو اختصار کے ساتھ ذکر کرکے دوسری تفاسیر کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں دوسرے اہم امور  کے بارے میں فلاں تفسیر کی طرف رجوع کریں۔مذکورہ تفسیر میں کہیں کہیں تصوف کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔تفسیر مدنی عام قاری  اور طالب علم کے سمجھے کے لئے آسان اور   مختصر تفسیر ہے۔

تفسیر مکی:

خادم الحرمین الشریفین کی ہدایات کے پیش نظر " مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف بالمدینۃ   المنورۃ " اردو داں قارئین کے استفادہ کے لئے قرآن مجید کا یہ اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔

            یہ ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی کے قلم سے ہے اور تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف کے تحریر کردہ ہیں ۔ مجمع کی جانب سے نظر ثانی کا کام ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس اور ڈاکٹر اختر جمال لقمان ہر دو حضرات نے انجام دیا ہے ۔

            ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس عظیم کام کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دی ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ خدمت قبول فرمائے اور لوگوں کے لئے اسے نفع بخش بنائے ۔

            یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا کوئی بھی ترجمہ خواہ کیسی ہی دقت نظر سے انجام پایا ہو ،  ان عظیم معانی کو کماحقہ ادا کرنے سے بہرحال قاصر رہے گا جو اس معجزانہ متن کے عربی مدلولات ہیں ۔ نیز یہ کہ ترجمہ میں جن مطالب کو پیش کیا جاتا ہے وہ دراصل مترجم کی قرآن فہمی کا ماحصل ہوا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ہر انسانی کوشش کی طرح ترجمہء قرآن میں  بھی غلطی ،  کوتاہی اور نقص کا امکان باقی رہتا ہے ۔

یہ ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی کے قلم سے ہے اور تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف کے تحریر کردہ ہیں ۔ مجمع کی جانب سے نظر ثانی کا کام ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس اور ڈاکٹر اختر جمال لقمان ہر دو حضرات نے انجام دیا ہے ۔

5.    تفسیر تیسیر القرآن ،مفسر مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ

مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے ۔بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔

آپ نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔حالانکہ محکمہ نے انہیں پروموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیز یں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔

استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔١٩٤٧ءسے١٩٦٥ء تک اردوکتابت کی اوراسوقت کےسب سےبہترادارے،فیروزسنزسےمنسلک رہے۔١٩٦٥ےمیں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔غالبا٥٠کےقریب قرآن مجیدکی کتابت کی سعادت حاصل کی۔

مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات' روح' عذاب قبر اور سماع موتی' احکام ستر و حجاب' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کر چکے تھے ۔ان میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔''محمد صلی اللہ علیہ وسلم صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل'بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پربھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔

آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے ''تیسیرالقرآن'' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤جلدوںمیں ہے۔

آپ نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے ''اصلاح معاشرہ'' اور ''پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

١٨دسمبر١٩٩٥ءعشاء کی نماز میں پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔آمین

6.    کنز الایمان:

احمد رضا خان  بریلوی رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ نسبتاً پٹھان حنفی مشرباً قادری اور مولدا بریلوی تھے۔  آپ کے والد ماجد مولانا نقی رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ 1297 ھ، 1880 اور جد امجد مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ م 1282 ، ھ1866 تھے۔

ولادت:

 آپ کی ولادت باسعادت 10 شوال المکرم 1272 ھ، 14 جون 1856 کو بہ مقام بریلی (یو، پی) میں ہوئی۔  

تعلیم و ذہانت:

 اپنی فطری ذکاوت کی بنا پر 13 سال اور 5 دن میں علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی علوم عربیہ سے فراغت کے بعد ہی آپ کے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ نے افتاء کی ذمہ داریاں بھی آپ کو تقویض کر دیں۔   آپ نے اسی صغر سنی میں اپنے علم و فضل کے سبب فتویٰ نویس کا آغاز فرمایا

وفات:

فاضل بریلوی نے 25 صفر المظفر 1340 ھ یوم جمعہ المبارک دوپہر دو بج کر 38 منٹ پر بریلی میں وصال فرمایا انا للہ وانا الیہ راجعون۔

تفسیر کنز الایمان کا تعارف:

تفسیر کنز الایمان احمد رضا خان بریلوی کی تفسیر ہے،اس تفسیر میں مصنف  ہر سورت کی ابتداء میں سورۃ کے تمام نام ذکر کرتے ہیں  اس کے بعد آیات کی تعدا،کلمات کی تعداد اور سورت میں موجود حروف کی تعداد کا بھی ذکر کرتے ہیں۔آپ نے اپنی تفسیر میں ناسخ اور منسوخ کو بھی  شامل بحث کیا ہے  کہ سورۃ میں  ناسخ اورمنسوخ آیا ت  موجود ہے یا نہیں ۔اس کے بعد سورۃ کی شان نزول ذکر کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ آیا یہ سورۃ مکی ہے یا مدنی اور اسکے  مکی یا مدنی ہونے کی تائید میں آحادیث مبارکہ بھی پیش کرتے ہیں۔اگر کسی سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف  پایا جاتا ہو تو اسکو بھی اچھی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔سورۃ سے متعلقہ احکام  شرعی کو  الگ الگ بیان کرکے مسئلہ کو واضح کرنے کی بھر پور کشش کی گئی ہےاور اسکے ساتھ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔احکام کے بعد سورۃ  میں ذکر کردہ مضامین کو مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے  ۔اس تفسیر  کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں صحاح ستہ،بیہقی،طبرانی کے  علاوہ دوسری تفاسیر سے ستفادہ کر کے دوسرے  مفسرین  کے  اقوال  کا حوالہ دیا گیا ہے۔

7.    عرفان القرآن:

پچھلی صدیوں میں اردو زبان میں قرآن حکیم کا کوئی ایسا ترجمہ نہیں کیا گیا،  جو سلیس،  جامع اور مفصل ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عصر حاضر کی ارتقائی علمی سطحوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو۔ ان پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عرفان القرآن کے نام سے قرآن حکیم کا ایسا ترجمہ پیش کیا ہے،  جو اردو بولنے والی دنیا میں ہر خاص و عام اور مکاتب فکر میں یکساں مقبول ہے۔ یہ نہ صرف ہر ذہنی سطح کیلئے یکساں طور پر قابل فہم ہے بلکہ موجودہ دور کی سائنسی تحقیق،  قرآنی جغرافیہ اور قرآن پاک میں مذکور مختلف اقوام کے تاریخی پس منظر کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ سلیس،  رواں،  بامحاورہ یہ ترجمہ قارئین کی خدمت میں روحانی حلاوت،  ادب الوہیت اور ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفہ ہائے گراں قدر بھی پیش کرتا ہے۔

عرفان القرآن اپنی نوعیت کا ایک منفرد ترجمہ ہے جو کئی جہات سے دیگر تراجم قرآن کے مقابلہ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس کی درج ذیل خصوصیات اسے دیگر تراجم پر فوقیت دیتی ہیں:

* ہر ذہنی سطح کے لیے یکساں قابل فہم اور منفرد اسلوب بیان کا حامل ہے،  جس میں بامحاورہ زبان کی سلاست اور روانی ہے۔

* ترجمہ ہونے کے باوجود تفسیری شان کا حامل ہے اور آیات کے مفاہیم کی وضاحت جاننے کے لیے قاری کو تفسیری حوالوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

* یہ نہ صرف فہم قرآن میں معاون بنتا ہے بلکہ قاری کے ایقان میں اضافہ کا سامان بھی ہے۔

* یہ تاثیر آمیز بھی ہے اور عمل انگیز بھی۔

* حبی کیفیت سے سرشار ادب الوہیت اور ادب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا شاہکار ہے جس میں حفظ آداب و مراتب کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔

* یہ اعتقادی صحت و ایمانی معارف کا مرقع ہے۔

* تجدیدی اہمیت کا حامل دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اردو ترجمہ ہے،  جس میں جدید سائنسی تحقیقات کو مد نظر رکھا گیا ہے۔

* یہ علمی ثقاہت و فکری معنویت سے لبریز ایسا شاہکار ہے،  جس میں عقلی تفکر و عملیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔

* روحانی حلاوت و قلبی تذکر کا مظہر ہے۔

* اس میں نہ صرف قرآنی جغرافیہ کا بیان ہے بلکہ سابقہ اقوام کا تاریخی پس منظر بھی مذکور ہیں۔                                                                                                                                      

8.    ترجمہ بھٹوی:

ترجمہ قرآن جماعۃالدعوۃپاکستان کےجامعہ الدعوۃالاسلامیہ،مریدکے،شیخورہ کےشیخ الحدیث والتفسیرمحترم جناب الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمدبھٹوی  کاہے آپ نے ۲۰۰۷ میں قرآن کریم کا  ایسا ترجمہ پیش کیا  جس میں  قرآن کے ہر  لفظ اور ہر حرف کو اردو ترجمہ میں سمونے کی کوشش کی ہے اور اپنے اس اہتمام پر شروع سے آخر تک حتی المقدور  ثابت  رہنے کی کوشش کی ہے۔یہ ترجمہ بہت سی خوبیوں کا حامل ہے۔

یہ ترجمہ قرآن مجیدکےاردوتراجم میں ایک نہایت عمدہ اورقابل تعریف اضافہ ہے۔ جسم یں انہوں نےقرآن مجیدکےدلنشیں اسلوب کالحاظ رکھتےہوئےلفظ بہ لفظ  ترجمہ کرنےاوراسےاردومحاورہ کےمطابق بنانےکی بھرپورکوشش کی ہے.

Post a Comment

0 Comments

Close Menu