Ad Code

Responsive Advertisement

Valentine Day

Valentine Day ویلنٹائن ڈے:

Lubna Shah (Ph.D Scholar)
 

ویلنٹائن ڈے کے بارے میں لکھنے کے لیے  بہت سوچا کئی  بار آغاز کر کے  ادھورا  چھوڑدیا  اس سوچ کے ساتھ کہ اس موضوع  پر لکھنے کا  کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا  لیکن اس موضوع پر قلم نہ اٹھانے  کا نقصان  میرے خیال میں موجود تھا  جو کہ ہماریYoung Generation کی لا علمی  اور اندھی تقلید کی صورت  میں ہمارے سامنے ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ  اپنے  مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں  اور اپنے  وقت ،پیسے،تعلیم  اور اپنے مستقبل  کو نقصان  سے دوچار کر رہے ہیں ۔سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے  کہ  Valentine dayہے کیا ،اس کی ابتدا کب ہوئی ، یہ کن لوگوں کا تہوار ہے  اور اس کے منانے کی اصل وجہ کیا ہے۔ اس کے بعد   دیکھیں گے کہ اس بارے میں  اسلامی  نقطہ نظر اور احکام  کیاہیں ۔

: ویلنٹائن ڈے  کی تاریخ اور  ابتداء

اس دن کے بارے میں لوگوں کے مختلف نظریات ہیں   جن میں  ذیادہ مشہور  مندرجہ ذیل ہیں:

*       اس بارے میں پہلا نظریہ یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کا نام Saint Valentine کے نام پر رکھا گیا ہے، جو تیسری صدی میں رہنے والے ایک مسیحی  تھے۔ اس کی زندگی کی صحیح تفصیلات واضح طور پر  معلوم  نہیں ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس نے چھپ کر عیسائی جوڑوں کے لیے شادیاں کیں، جو اس وقت حرام تھیں۔ وہ ضرورت مندوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔ آخرکار اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس کوپھانسی دے دی گئی۔

*      ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ دن موسم بہار کی آمد کا جشن منانے کے لیے منایا جاتا تھا۔لیکن بعد  میں یہ   دن  آہستہ آہستہ رومانوی محبت کے ساتھ منسلک ہوگیا، اور اس کے بعد سے محبت اور پیار کا ایک مقبول جشن بن گیا.ویلنٹائن ڈے  اب  عام طور پر محبت اور پیار کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، کچھ عام سرگرمیوں میں تحفے دینا اور وصول کرنا شامل ہیں جیسے پھول، Chocolate ، یا   Cardsیا کسی خاص کھانے یا تقریب کے لیے باہر جانا وغیرہ۔

ویلنٹائن ڈے کسی بھی ملک میں عام تعطیل نہیں ہے۔ تاہم، یہ امریکہ، کینیڈا، میکسیکو، برطانیہ، فرانس، اٹلی، آسٹریلیا، بھارت، اور بہت سے دوسرے ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ثقافتی تقریب کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کوئی اسلامی تہوار نہیں ہے۔ لیکن آج کل مسلمان بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی  اس دن  کو منانے  کا اہتمام کرتے  نظر آتے ہیں اور نو جوان طبقہ اس دن  کی تاریخ او ر ابتدا سے بے خبر اندھی تقلید میں  مبتلا ہیں۔ اس تہوار  کی ابتدا عیسائی روایت میں ہوئی اور اس کے بعد سے دنیا بھر میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں نے اسے سیکولر بنایا اور منایا۔اور  اب موجودہ دور میں اس دن نوجوان  طبقہ  لڑکے اور لڑکیاں  ایک دوسرے سے محبت کے اظہار کے طور پر مناتے ہیں   اور ایک دوسرے سے تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے  نظر آتے ہیں۔


اسلامی تصور:

کچھ مسلمان ویلنٹائن ڈے کو اس کی عیسائیت سے مناسبت کی وجہ سے نہیں   مناتے ، یا اس وجہ سے کہ  یہ تہوار بے حیائی یا ناجائز تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ  ویلنٹائن  ڈے منانا    ہر مسلمان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ میرے خیال میں  ہر مسلمان  جو عاقل  بالغ ہو وہ  شریعت  کے احکام کا مکلف ہے اس لیے کوئی بھی غیر شرعی   کا م یا تہوار  اس کی اپنی مرضی  اور ذاتی فیصلہ نہیں  سمجھا جائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً   ۠وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ[1]  

 ترجمہ: اے ایمان والو  ں اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اس آیت کے شانِ نزول پر نظر ڈالے تو معلوم ہوتا ہے کہ  عبداللہ بن سلام اور اس کے اصحاب کے بارے میں ہے جو تاجدار رسالتﷺ پر ایمان لانے کے بعد بھی  شریعت موسوی کے بعض  احکام پر عمل پیرا تھے وہ اعمال بھی ایسے جوکہ شریعت محمدی میں حرام تو نہیں بلکہ مباح تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اسلامی احکام کی پوری طرح پیروی کرو  نہ کہ تورات کہ احکام کی جو کہ منسوخ ہو چکے ہیں۔

ایمانی کمزوری کی علامت :

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غیر مسلموں کی  تقلید ،رہن سہن اور ان کی وضع قطع  اختیار کرنا  اسلامی تعلیمات  کے منافی ہے  لہذا ان کے تہوار منانا  اور پھر ایسے تہوار جو بے حیائی کو فروغ دیتے ہو  ں ان  کے منانے کی اجازت  اسلام  کیسے دے سکتا ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً  ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا  [2]

ترجمہ: اور زنا کے قریب نہ جاؤ بیشک وہ بےحیائی ہے اور بری راہ ہے۔

زنا کے قریب نہ بھٹکو، اس کے حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دور ہیں جو اس راستے کی طرف لےجاتے ہیں ۔ رہا معاشرہ ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا، اور محرکات زنا ، اور اسباب زنا کا سدباب کرے، اور اس غرض کےلیے قانون سے، تعلیم و تربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے، اور دوسری تمام مؤثر تدابیر سے کام لے‘‘۔[3]

اس آیت کی تفسیر  سے  یہ بات اچھی طرح واضح ہے  کہ مروجہ ویلنٹائن  ڈے او راس جیسے دوسرے غیر شرعی تہوار  دواعی زنا  کے زمرے میں آتے ہیں لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔


حوالہ جات:

___________________

.[1]سورۃ البقرہ208:2,

[2] ۔سورہ بنی اسرائیل،32:17

[3] ۔تفسیر مودودی۔ سورة  سورہ بنی اسرائیل حاشیہ نمبر :32 

Post a Comment

0 Comments

Close Menu