Ad Code

Responsive Advertisement

زاد المسیر فی علم التفسیر کا تعارف و منہج

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حنبلی تفسیر زاد المسیر


Lubna Shah (Ph.D Scholar)

جیسا کہ ہمارے  خطے  برصغیر پاک و ہند میں فقہی مذہب حنفی  ہے  تو  حنفی فقہی تفاسیر  کے متعلق  آگہی بھی ذیادہ ہے  اسی طرح دوسرے مذاہب کے فقہی تفاسیر  کا تعارف بھی تھوڑا بہت موجود ہے لیکن  حنبلی  فقہی تفاسیر کا تعارف  معدوم  حد   تک  پہنچا ہو ا ہے لیکن ابن جوزی کی  ایک  فقہی تفسیر زاد المسیر کا  تعارف اور  منہج    یہاں بیان کرنے  کی   ایک سعی   کی  جارہی ہے۔

زاد المسیر فی علم التفسیر کا تعارف و منہج:

اس تفسیر کی نسبت تمام اہل علم نے ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کی ہے اور اس کتاب کے ان کی تصنیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے مزید انہوں نے خود اپنی تصانیف میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ ان کی ایک مفصل تفسیر ’’المغنی‘‘ کا اختصار ہے ۔

 سبب تالیف:

 آپ نے اپنی اس کتاب کے لئے کہا ہے :

’’انی نظرت فی جملۃ من کتب التفسیر،فوجدتھا بین کبیر  قد یئس الحافظ  منہ  وصغیر لا یستفاد کل المقصود منہ و المتوسط منھا قلیل الفوائد،عدیم الترتیب ، وربما أھمل  فیہ المشکل، و شرح  غیر الغریب ، فأ تیتک  بھذا المختصر الیسیر ، منطویا علی العلم الغزیر، ووسمتہ بزاد المسیر  فی علم التفسیر‘‘[i] 

میں نے تفسیر کی متعدد کتابیں دیکھیں تو مجھے یاتو اتنی لمبی نظر آئیں کہ وقت کا دھیان رکھنے والے ان سے مایوس ہو جائے یا اتنی مختصر کہ ہر طرح کا استفادہ ممکن نہ ہو اور  جو تفاسیر درمیانے حجم  میں تھی ان کا اتنا فائدہ نہیں تھا نہ ہی ان  میں مرتب  انداز میں  گفتگو کی گئی تھی بلکہ بسا اوقات  قابل اشکال چیز یں ،مشکل الفاظ کے معنی وغیرہ بھی حل کئے بغیر چھوڑ دیے گئے تھے تو میں آپ کے سامنے یہ تفسیر  پیش کر رہا ہوں جو کہ آسان اور مختصر ہونے کے باوجود علم سے بھرپور ہے اور میں نے اس کا نام ’’زاد المسیر فی علم التفسیر‘‘ رکھا ہے۔ 

پھر آگے چل کر اس کی مزید وضاحت بیان کرتے ہیں :

’’میں نے جمہور مفسرین کی تفاسیر دیکھیں تو ان میں کوئی کتاب تمام مقاصد اور اہداف کو پورا کرتی ہوئی نہ ملی ،ایک ہی آیت کے لئے متعدد تفاسیر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے چنانچہ کچھ ایسی ہے کہ ان میں علم ناسخ و منسوخ سرے سے ہے ہی نہیں یا کامل نہیں ہے اور اگر ناسخ و منسوخ ہیں تو اسباب نزول بالکل نہیں ہے کہ اکثر اسباب نزول کو ذکر ہی نہیں کیا گیا اور اگر یہ بھی ہے تو پھر مکی اور  مدنی کی وضاحت نہیں ہے، اور اگر یہ بھی موجود ہے  تو پھر آیت  کے حکم کا ذکر نہیں ہے اگر یہ بھی موجود ہے تو پھر آیت کے متعلق  پیدا ہونے والے اشکال  کا جواب نہیں دیا گیا،یا اسی طرح دیگر ضروری علوم و فنون پر کامل انداز سے گفتگو نہیں کی گئی[ii]۔‘‘

 اس تفسیر کے بارے میں مؤلف مزید لکھتے ہیں: 

’’میں نے اس کتاب کو بہت زیادہ مبالغہ  کہ ساتھ مختصر لکھا ہے اس لیے اس کتاب کو یاد کرنے کی بھرپور کوشش کریں اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے[iii] ۔‘‘

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب درسی ضروریات کو پورا کرنے اور اسے زبانی یاد کرنے کے لئے لکھی تھی لیکن آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ اس تفسیر کی محض ورق گردانی بھی ہمارے لئے گراں ہو چکی ہے۔ 

ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کا منہج:

 کسی بھی  تصنیف یاتالیف  کا منہج پہچاننے  کے لیے  تین طریقے  استعمال کیے جاتے ہیں :

1.    پہلا طریقہ یہ ہے کہ مصنف خود سے اپنا منہج بیان کردے۔

2.     دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب کو اچھی طرح پہلے پڑھا جائے اور پھر مصنف کا طریقہ کار دیکھ کر اس کا منہج کشید  کیا جائے ۔

3.    تیسرا طریقہ یہ ہے کہ دونوں طریقوں کو ملا کر دیکھا جائے، یہ آخری طریقہ کسی بھی مصنف کے منہج کو واضح کرنے کے لئے سب سے اعلی طریقہ ہے، اسی طریقے کی طرف ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ کیا ہے اور کہا ہے:

’’وقد أدرجت فی ھذا الکتاب من  ھذہ الفنون المذکورۃ مع مالم أذکرہ مما لا یستغنی التفسیر عنہ‘‘[iv]

’’ میں نے اپنی اس کتاب میں پہلے ذکر کردہ فنون بھی بیان کئے ہیں اور وہ بھی ذکر کئے ہیں جن کو میں نے پہلے ذکر نہیں کیا ہے ان کے بغیر تفسیر نامکمل ہوتی ہے۔‘‘ 

یعنی جو منہج ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے ذکر کیا کتاب میں وہ بھی ہے اور کچھ ایسے فنون بھی ہے جنہیں یہاں مقدمہ میں بیان نہیں کیا گیا تو پہلے ہم ابن جوزی کے خود کے بیان کردہ طریقے کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنا منہج کیا ذکر کیا ہے:

·       آپ نے اس تفسیر کو مرتب کرتے ہوئے اختصار سے کام لیا ہے ۔

·       ایک بات  گزر  جانے کے بعد اس کو دوبارہ ذکر کرنے سے گریز کیا ہے ۔

·       آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نہ صرف  ناسخ و منسوخ ،اسباب نزول ،مکی و مدنی  ،آیات کا حکم، آیت پر وارد ہونے والے اشکالات اور ان کا جواب بھی ذکر کیا ہے ۔

·       کوشش کی ہے کہ کسی بھی مسئلے میں تمام تر سے  صحیح اقوال  کا اختصار کے ساتھ احاطہ کیا جائے۔

·       اس تفسیر میں صرف ترین اقوال و آثار احادیث کی کوشش کی گئی ہے۔

·       اگر کہیں تو کسی چیز کو ذکر کرنا ضروری ہو اور اس تفسیر میں انہیں ذکر نہ کیا جائے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں :

1.    یا تو اس پر گفتگو  پہلے  گزر چکی ہے۔

2.    یا پھر وہ بات  واضح  ہوگی اسے ذکر کرنے کی چندآں ضرورت نہ ہوگی۔[v]

تو یہ وہ امور ہیں  جن کا ذکر ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے خود بطور منہج  کیا ہے، آئندہ صفحات میں کوشش ہو گی کہ اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد شائع ہونے والے منہج اور مندرجہ بالا امور کی مثالوں کے ساتھ وضاحت ہو جائے ۔

·       ابن جوزی نے تفسیر کے آغاز سے پہلے ایک مختصر مقدمہ لکھا ہے جس میں انہوں نے سب سے پہلے علم تفسیر کی فضیلت بیان کی۔ دوسری فصل کے تحت تفسیر اور تاویل کے معنی میں فرق بیان کیا ،تیسری فصل میں نزول قرآن  کی مدت بیان کی ،اس کے بعد سب سے پہلے اور آخر میں نازل ہونے والی وحی کے بارے میں گفتگو کی ،پھر تعوذ  اور تسمیہ کے بارے میں الگ الگ  فصل قائم کرکے تفصیلات لکھیں تسمیہ  کے بارے میں اقوال، لفظ اسم کی لغات ، لفظ جلالہ کا مشتق  اور رحمن اور رحیم کا معنی بیان کرنے کے بعد سورہ فاتحہ کی تفسیر کا آغاز کیا ہے۔

·       سورۃ کی تفسیرسے قبل سورۃ سے متعلقہ فضائل ذکر کرتے ہیں ،مثلا :سورہ فاتحہ کے آغاز میں لکھتے ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: 

’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے  ام القرآن  سورۃ سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تورات، زبور، انجیل اور فرقان میں اس جیسی کوئی سورۃ نازل  نہیں ہوئی ،یعنی سبع المثانی اور مجھے دیا جانے والا قرآن عظیم ہے[vi]۔‘‘

اسی طرح سورتوں کے مختصر ترین الفاظ میں فضیلت سورۃ البقرہ  [vii]اورسورۃملک  [viii]کے آغاز سے پہلے  بھی ذکر کی ہے۔

·       جن سورتوں کی فضیلت بیان نہ کریں تو ان کے مکی اور مدنی ہونے کے بارے میں اختصار کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

 جیساکہ آل عمران ، سورۃ النحل ،طہ،رعداور زخرف کے آغاز میں کیا ہے ۔

·       ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے سورتوں کے فضائل کے متعلق اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ثابت شدہ فضائل ہی ذکر کیے جائے چنانچہ سورہ یاسین سورہ الرحمن سورہ الواقع وغیرہ کے فضائل ذکر نہیں کیے۔

·       جہاں ضرورت ہو وہاں سورۃ کی تفسیر کے آغاز سے قبل مفصل انداز میں گفتگو کرتے ہیں بطور مقدمہ کئی فصلیں قائم کر کے ضروری امور کی وضاحت کر دیتے ہیں ،جیسے  کہ سورۃ التوبہ کے آغاز میں سات فصلیں قائم کی:

.1سورت کے نزول کا وقت

.2سورت کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت

.3سورۃ کے 9 نام

.4سورۃ کے آغاز میں تسمیہ نہ لکھنے کی وجہ

.5سبب نزول

.6اہل  مکہ کی جانب کتنی آیات بھیجیں؟

.7 سیدناابوبکر اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان فضیلت کا مسئلہ جیسے ضروری امور کی تفصیل ذکر کی[ix]۔

·       سورت کے آغاز میں اس سورت کے مختلف نام بھی بتلاتے ہیں جیسے کہ سورہ فاتحہ کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ  

اس سورت کے ناموں میں  فاتحہ  بھی ہے جو کہ اس سورت کے ذریعے قرآن کریم کی تلاوت اور کتابت کا آغاز کیا جاتا ہےنیز اس سورت کا نام  ام القرآن اور ام الکتاب بھی ہے کیونکہ یہ کتاب  کے آغاز میں ہے۔ اسی طرح اس  سورت کو سبع المثانی بھی کہتے ہیں ۔ 

·       سورت یا آیت کے سبب  نزول کے بارے میں بسا اوقات جتنے بھی اقوال ہوں انہیں بیان کرتے ہیں جیسے کہ  سورۃ الفتح  کے آغاز میں سبب نزول بیان کیا اور پھر آیت: فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا  [x]

آئی تو اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں دو اقوال ہے ’’یہ سیدنا زبیر اور ایک انصاری کے درمیان جھگڑے پر نازل ہوئی اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت منافق اور یہودی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ اپنا فیصلہ کروانے کے لیے کعب بن اشرف کی طرف گئے تھے ‘‘[xi]۔

·       ان کی کوشش ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں جن لوگوں کا ذکر اشارتا آیا ہے تو ان کا نام بھی بتلایا جائے جیسے کہ فرمانِ باری

[xii] تعالی ہے: اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ 

اس سے مراد سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اور صفوان رضی اللہ تعالی عنہماہیں 

قرآن کریم کی  مختلف قرا ٔت کا ذکر بھی کرتے ہیں ،جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہےاِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ[xiii] 

کے بارے میں کہتے ہیں کہ جمہور نے لفظ وَالصّٰبِـــِٕيْنَ میں با کے بعد والے ہمزہ کو پورے قرآن مجید میں  باقی  رکھا ہے اور سب ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں جبکہ نافع  نے پورے قرآن کریم میں ہمزہ نہیں پڑھا۔[xiv] 

·       آپ متواتر قرات  کے ساتھ بسااوقات شاذ قرات بھی بیان کرتے ہیں اور ساتھ میں اس پر شاذ  ہونے کا حکم  لگاتے ہیں جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى[xv]  

میں قرات کا ذکر کرتے  ہوئے لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کو ’’جَنَّہُ الْمَاْوٰى‘‘ یعنی  ہائے صحیح کے ساتھ پڑا گیا ہے جو کہ شاذ قرات ہے۔ 

·       مفسرین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد اس پر حکم بھی لگاتے ہیں جیسے کہ سورۃالمائدہ میں مجوسیوں کے بارے میں جمہور اہل علم کا  موقف ذکر کیا ہے  کہ ان کے مجوسی اہل کتاب میں شامل نہیں ہیں چنانچہ جس نے بھی یہ کہا ہے کہ مجوسی اہل کتاب میں شامل ہیں تو اس کا قول شاذ ہے۔

  بہت سی جگہوں پر آیت کے متعلق مختلف اقوال ذکر کر دیتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو راجح  یا مرجوح قرار نہیں دیتے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ [xvi]

اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے متعلق  دو اقوال ہیں  ایک یہ کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہے یہ موقف مجاہد اور اورضاحک کا ہیں اس کے مطابق تقدیری عبارت کچھ یوں ہوگی:’’ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا، ومن آمن  من ا لَّذِيْنَ ھَادُوْا‘‘ 

جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ سورہ اعلیٰ عمران کی آیت   ’’ اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ وَلَهٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ‘‘[xvii]  کی وجہ سے منسوخ ہے۔

·       آپ نے اپنی اس تفسیر میں ماوردیؓ  کی تفسیر النکت و العیون جیسا اسلوب اپنایا ہے کہ کسی بھی مسئلے کی تفصیل سے پہلے کہتے ہیں

اس میں اتنے اقوال ہے پھر ان اقوال کی تفصیل ذکر کرتے ہیں اور قائلین کی طرف ان کی نسبت بھی بتلاتے  ہیں ۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی اور حوالہ جات

[i] ۔ عبد الرحمٰن ابو الفرج ابن جوزی ، زاد المسیر  فی علم التفسیر(بیروت دار الکتاب العربی،1422 ء) 1:11

[ii] ۔ایضاً،1:14

[iii] ۔ ایضاً ،1:11

[iv] ۔ ایضاً ،1:14

[v] ۔ ایضاً ،1:14

[vi] ۔ ایضاً ،1:18

[vii] ۔ ایضاً ،1:24

[viii] ۔ ایضاً ،1:313

[ix] ۔ایضاً،2:230-233

[x] ۔سورۃ النسا،4:25

[xi] ۔زاد المسیر ،1:257

[xii]۔سورۃ النور،24:26

[xiii] ۔سورۃ البقرہ، 622:

[xiv] ۔زاد المسیر،1:72

[xv] ۔سورۃ النجم،1553:

[xvi] ۔سورۃالبقرہ۔622:

[xvii] ۔سورہ آلعمران، 833: 

Post a Comment

0 Comments

Close Menu