Ad Code

Responsive Advertisement

طالب علم کا قتل،مدرسین کی غفلت اور کوتاہی


طالب علم کا قتل،مدرسین کی غفلت اور کوتاہی
Lubna Shah(PhD Scholar)

بسم اللّہ  الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو ان کو حکم دیا کہ "فقولا له قولا لينا"[1].وہ فرعون جو خدائی کا دعویدار تھا اس کو دعوت حق دینے کے لئے نرمی کا حکم دیا۔لیکن جو فرشتے(چھوٹے طالبعلم) خود ہمارے پاس دین سیکھنے آ تے ہیں ہم ان کو ذلالت کے ساتھ قتل کر دیتے ہیں؟؟؟

کل سوات کے علاقے خوازا خیلہ میں جو واقعہ پیش آیا وہ قابل مذمت ہے جس میں مدرسے کے اساتذہ نے ایک بچے کو  چھٹی کرنے کی وجہ سے اتنا مارا کے وہ بے چارہ مر گیا۔

اگر  طالب علموں سےہمارا رویہ ایسا ہی رہا تو ہم اپنے دین کے خود دشمن بن رہے ہیں  کیونکہ ایسے میں ہم اپنی نئی نسل کو دین سے دور اور متنفر کرنے کے خود ذمہ دار ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے اگر آپ کو اللہ نے دین کی فہم عطا کی ہے اور لوگ آپ سے سیکھتے ہیں۔یہ دین کی فہم اللہ تعالیٰ ہر کسی کو عطا نہیں کرتا۔

قال النبیﷺ من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين[2]۔ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ایک اور جگہ ارشاد ہے۔ علماء انبیا ء کرام کے وارث ہیں۔اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس دین کی لاج رکھ کر صحیح معنوں میں اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔

استاد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام اور مرتبہ عطا کیا ہے اس کا  لحاظ رکھنا لازم ہے۔اپنے طلباء سے نرمی اور پیار محبت سے پیش آنا چاہئے۔احادیث میں نرم رویے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

حضرت جریرؓ روایت ہے کہ  رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص نرمی سے محروم رہاوہ بھلائی سے محروم رہا[3]۔

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالی  عَنْہا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا،  اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور رِفق یعنی نرمی کو پسند فرماتا ہے اور  اللہ تعالیٰ نرمی کی وجہ سے وہ چیزیں  عطا کرتا ہے جو سختی یا کسی اور وجہ سے عطا نہیں  فرماتا[4]۔

اسلام برا نہیں ہے بلکہ کچھ نام نہاد مسلمان اس کو بدنام کر رہے ہیں۔اسی طرح مدارس برے نہیں بلکہ وہ تو اسلام کے قلعے ہیں لیکن کچھ نام نہاد مدرسین ان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

بچے تو اللہ تعالیٰ کی وہ معصوم مخلوق ہیں جن کی وجہ سے دنیا کی خوبصورتی برقرار ہے۔بچے تواس دنیا میں امید کی روشن کرنیں ہیں۔اور جب یہ بچے اپنے دین کی محبت اور سر بلندی کے لئے مدارس کا رُخ کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں فرشتے ان کی حفاظت میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔

 ابوالدرداء رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کوئی راستہ چلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اور فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، آسمان و زمین کی ساری مخلوق یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی میں طالب علم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، لہٰذا جس نے اس علم کو حاصل کیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا[5]۔

لہذا یہ شان ہے طالب علم اور  عالم دین کی یہ نہیں کہ حیوانیت پر اتر کر دین کو ہی نقصان پہنچا  ئیں۔معلم اور مدرس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں علوم دینیہ کا طالب علم اساتذ ہ کے پاس قوم کی امانت ہے۔عصر حاضر میں مدرسین و معلمین کی ذمہ داریاں صرف دینی علوم کی  درس و تدریس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اپنے طالبعلموں کو دنیا سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا  اور ان کی مخفی صلاحیتوں کو  اجاگر کرنا بھی ہے۔ تمام مدارس اور مدرسین ایک جیسے ہر گز نہیں بلکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو  طلباء کو زندگی کے ہر دوڑ میں کامیابی  دلانے کے لئے  اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں اور دینی اور عصری دونوں علوم میں اصلی معنوں میں رہنما ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ  ایک خبر کے مطابق اس سال میٹرک کے سالانہ  نتائج میں   پنجاب کے نو میں سے آٹھ  بورڈز میں  مدارس کے طلباء نے  ٹاپ کیا ہے۔لہذا ایسے بھی مدارس اور مدرسین ہوا کرتے ہیں ۔

 

WWW.islamichub.online



[1] ۔سورۃ الطہ،آیت نمبر 44

[2] ۔ صحيح البخاري،كتاب العلم،حدیث: 71

[3] ۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، حدیث: ۷۴

[4] ۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، حدیث نمبر: ۷۷

[5]۔ سنن ابن ماجه،أبواب كتاب السنة،حدیث نمبر: 223 

Post a Comment

0 Comments

Close Menu