![]() |
LUBNA SHAH |
مفسر محمد عبدہ پر لکھے گئے مواد کی جمع اور تدوین اور اُن کے تفسیری تفردات
فہرست مضامین
نمبر شمار |
عنوان |
صفحہ نمبر |
1 |
مقدمہ |
3 |
2 |
محمد عبدہ کا
تعارف |
3 |
3 |
محمد عبدہ کی تصانیف |
5 |
4 |
مفتی
اعظم مصر |
5 |
5 |
افکار ونظریات |
6 |
6 |
تفرد
کی تعریف |
7 |
7 |
تفرد کی شرعی حیثیت |
7 |
8 |
تفسیری
تفردات سے مراد |
7 |
|
محمد عبدہ کے تفسیری تفردات |
7-8-9 |
﷽
مقدمہ
اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ
عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
اما بعد!
مختلف ادوار
میں مفسرین قرآن نے قرآن کی تفاسیر اور تراجم کی تدوین و اشاعت میں خدمات
سر انجام دی ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں
کہ انہی مفسرین علماء کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج قرآن کی تفاسیر اور تراجم کئی
زبانوں میں موجود ہیں جس سے لوگو ں کو
رہنمائی حاصل کرنے میں آسانی میسر آتی ہے۔ لیکن اس کے بر عکس بہت سے لوگوں نے قرآن
میں تاویلات سے کام لیا ہے اور الفاظ
قرآن کے معانی و مفاہیم کے لئے انفرادی رائے قائم کی ہے جس کو تفرّد کہتے ہیں۔ہمارا یہ مضمون بھی ایسی ہی ایک شخصیت
محمد عبدہ کے
بارے میں ہے جس سے ان کےنظریات و افکار اور تفسیری تفردات ،منہج اور تاویلات کو سمجھنے میں
مدد ملے گی۔
محمد عبدہ کا تعارف :
ان کا مکمل نام محمد بن عبدہ بن حسن بن خیر اللہ ہے۔ ١٢٦٥ھ
بمطابق ١٨٤٩ء میں پیدا ہوئے۔ محلے کی ایک مسجد میں ہی صرف و نحو کی ابتدائی
تعلیم حاصل کی' لیکن ان کے بقول تقریباً دو سال کے عرصے میں انہیں نحو کا ایک لفظ
بھی سمجھ نہ آیا ۔ اس کا الزام وہ مدارس کے قدیم نصاب اور طریقہ ٔتعلیم کو دیتے
تھے۔ ١٢٨٢ھ میں تقریباً ١٧ سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ شادی کے بعد
ان کے والد نے انہیں پھر ایک قدیم مدرسے میں زبردستی تعلیم کے لیے بھیج دیا جس سے
وہ راستے میں ہی بھاگ گئے۔ ان
کے بقول مدارس کے قدیم نصابِ تعلیم اور طریقہ تدریس نے ان میں مذہبی تعلیم سے
بیزاری اور بغاوت پیدا کر دی تھی اور اس قدیم نصاب اور طریقہ ٔتعلیم سے ٩٥ فی صد سے زائد طلبہ کچھ حاصل
نہ کر پاتے تھے۔ وہ اس نصابِ تعلیم اور طریقہ تدریس میں انقلابی تبدیلیوں کے قائل
تھے۔ اسی دوران وہ اپنے ایک چچا شیخ درویش کے ہاتھ لگ
گئے جو تصوف کی راہ کے مسافر تھے 'جنہوں نے ان کی روحانی تربیت کی اور انہیں
دوبارہ مذہبی تعلیم کی طرف متوجہ کیااور ان میں اس کا ذوق و شوق بیدار
کیا۔انہوں نے اپنے شیخ اور چچا کی رہنمائی میں سلوک کی کئی منازل طے کیں اور اپنے
کئی ایک روحانی تجربات بھی بیان کیے ہیں۔
١٢٨٧ھ میں سید جمال الدین افغانی کی قاہرہ آمد پر ان سے ریاضی' فلسفہ
اور علم کلام کی تعلیم حاصل کی اور ان کے طرز تدریس اور افکار سے اس قدر متاثر
ہوئے کہ انہی کے ہو کررہ گئے۔ ١٨٦٦ء میں جامعہ ازہر سے تعلیم کے لیے منسلک
ہوئے اور ١٢٩٤ھ بمطابق ١٨٧٧ء میں جامعہ ازہر سے شہادة العالمیہ کا
امتحان پاس کیا۔ جامعہ
ازہر میں تعلیم کے حصول کے دوران بھی ان پر تصوف' عبادت اور مجاہدۂ نفس کا غلبہ
رہا۔ وہ ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے بقول انہیں جذب و کشف کی
اس دنیا سے ان کے استاذ سید جمال الدین افغانی باہر نکال کر لائے۔ ١٨٧٩٩ء
میں مدرسہ 'دار العلوم' میں مدرّس کے طور پر تدریس کا آغاز کیا۔ ١٨٨٢٢ء
میں انگریزوں کی حکومت کے خلاف احمد عرابی پاشا کے انقلاب میں اپنے استاذ جمال
الدین افغانی کے ساتھ شریک رہے۔ اس تحریک کی ناکامی پر جیل بھیجے گئے اور بعد ازاں
ان کو زبردستی بیروت بھیج دیا گیا۔ ١٨٨٤ء میں اپنے استاذ کی دعوت پر
پیرس تشریف لے گئے اور 'العُروة الوثقٰی' نام سے ایک عربی
رسالہ جاری کیا۔١٨٨٥ء میں پھر بیروت آ گئے اور ''العُروة الوثقٰی' کے نام سے ہی ایک
خفیہ تحریک کی بنیاد رکھی۔
١٨٨٩ء میں حکومت کے ساتھ اس معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے کہ آئندہ وہ کسی
قسم کا سیاسی کام نہیں کریں گے' مصر واپس آگئے اور انہیں ابتدائی عدلیہ میں
جج مقرر کر دیاگیا۔ بعد ازاں انہیں مجلس قانون ساز کا رکن بھی مقرر کیا گیا۔ ١٨٩٩ء میں ان کو مصر کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر مفتی عام کا
درجہ دے دیا گیا اور وہ مصر کے پہلے مفتی عام تھے۔ ١٩٠٠ء میں مخطوطات کی نشر و اشاعت کے لیے 'جمعیة احیاء العلوم العربیة' کی بنیاد رکھی۔ ١٩٠٥ء بمطابق ١٣٢٣٣ھ
میں اسکندریہ کے علاقہ میں کینسر کے مرض کی وجہ سے وفات پائی۔ ان کے شاگردوں میں
رشید رضا' حافظ ابراہیم' شیخ عز الدین قسام' شیخ ازہرمحمد مصطفی مراغی' شیخ ازہر
مصطفی عبد الرزاق' شیخ محمد محی الدین عبد الحمید' سعد زغلول' قاسم امین' محمد
لطفی جمعہ اور طٰہ حسین وغیرہ شامل ہیں۔
مفتی محمدعبدہ اپنی
زندگی میں نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کرنا چاہتے تھے جو عربی زبان اور علوم
اسلامیہ کا احیا ءکریں اور مصری حکومت اور حکمرانوں کی بذریعہ تعلیم اصلاح کریں۔
ان کا اپنے استاذ سید جمال الدین افغانی سے یہ اختلاف تھا کہ وہ انقلاب کے لیے
سیاست کی بجائے تعلیم کو بنیاد بناتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں شیخ ازہر بنایا
گیا تو وہ جامعہ ازہر کے نصاب اور مناہج تعلیم' طریقہ تدریس' اندازِ فکر اور نظم و
ضبط میں انقلابی تبدیلیاں لے کر آئے۔ انہوں نے تقلیدی جمود کے برعکس جمیع فقہی
مذاہب اسلامیہ سے برابری کی سطح پراستفادہ کی دعوت پر زور دیا۔ ان کے بعد آنے والے
شیوخ الازہر کی ایک بڑی تعدادنے اپنے فتاویٰ میں ان کے اس منہج کو برقرار رکھا'
بلکہ شیخ مصطفی المراغی کے زمانے میں حنفی' مالکی' شافعی اور حنبلی علماء کی ایک
گیارہ رکنی کمیٹی بنا دی گئی تھی جو مختلف مسائل میں اتفاقی فتویٰ جاری کرتی تھی۔
مفتی محمد عبدہ کے بعد بہت سے شیوخ الازہر حنفی ہونے کے باوجود کئی ایک مسائل میں
امام ابن تیمیہ کے موقف پر فتویٰ جاری کرتے تھے۔
محمد
عبدہ کی تصانیف:
١) 'واردات' ان کی پہلی کتاب ہے جو١٨٧٤ء
میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب انہوں نے صوفیاء کے منہج پر علم ِکلام اورتوحید کے بیان
میں لکھی ہے۔ چارلس ایڈیمس کے بقول ان کی اس کتاب سے ان کے ذہن پروجودیت(pantheism)کا تسلط واضح نظر آتا ہے۔
٢)وحدت الوجود کے بارے بھی ان کا ایک رسالہ
موجود ہے۔
٣) اسماعیل پاشا کی تاریخ پر
بھی ایک کتاب لکھی۔
٤) نہج البلاغہ کی ایک شرح لکھی
۔
٥) بدیع الزمان ہمذانی کے
'مقامات' کی شرح لکھی۔
٦) منطق میں 'شرح البصائر النصیریة' کے نام سے کتاب
لکھی۔
٧) 'مصر میں تعلیم و تربیت کا نظام' کے عنوان
سے بھی کتاب لکھی۔
٨) اتحاد بین المذاہب پر ایک
رسالہ 'رسالة التوحید' کے نام سے لکھا
اور یہ ان کی معروف ترین کتابوں میں سے ہے۔ بعض عیسائیوں نے اس کتاب کے چند مباحث
حذف کرنے کے بعد اس کو اپنے اداروں میں بطور نصاب بھی مقرر کیا ہواہے۔
جامعہ ازہر میں محر
م ١٣١٧ھ
میں تفسیر کی تدریس کا آغاز کیا جو ١٣٢٣ھ تک جار ی رہا۔ اس دوران انہوں نے
سورة النساء کی آیت ١٢٥ تک تفسیر مکمل کی جو تفسیر 'المنار' کے نام سے
پہلی پانچ جلدوں میں موجود ہے اور طبع شدہ ہے۔ تفسیر 'المنار' مفتی محمد عبدہ کے
شاگرد رشید رضا نے مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ شیخ رشید رضا کی تفسیر سورة النساء کی
آیت ١٢٦ سے
لے کر سورئہ یوسف تک 'تفسیر المنار' کے نام سے مطبوع ہے۔
مفتی
اعظم مصر:
خدیو مصر
عباس حلمی پاشا نے شیخ محمد عبدہ کو 3 جون 1899ء کو مفتیٔ اعظم مصر مقرر کر دیا
گیا۔اِس عہدے پر وہ تا دم آخر یعنی 6
سال ایک
مہینہ اور 8 دن فائز رہے۔اِس دوران اُنہوں نے مجموعی طور پر 944 مفصل فتاویٰ جاری
کیے، جن کی تعداد یوں ہے:
· شیخ نے 728 فتاویٰ میراث، وقف، مال، بیع، شرائط، اجازت امانت، وصیت کے
متعلق جاری کیے۔
· رضاعت، طلاق، ازدواج، نکاح، نفقہ، غلامی سے متعلق 100 فتاویٰ جاری کیے۔
· قتل، قصاص اور شرائط نفاذ سزائے اموات پر 29 فتوے جاری کیے۔
· مختلف
فیہٖ مسائل و مشکلات سے متعلق 87 فتاویٰ جاری کیے۔([1])
افکار
ونظریات:
مفتی محمد عبدہ تقلید کے مخالف' آزادی ٔفکر اور سلف صالحین کے منہج پر بذاتِ خود
دین کو سمجھنے کے قائل تھے ۔ عقل
و نقل میں تعارض ہو جائے تو عقل کی ترجیح کے قائل تھے اور اس ترجیح کو علمائے اہل
سنت کے ہاں اتفاقی مسئلہ قرار دیتے تھے۔ اپنے استاذ سید
جمال الدین افغانی کے ساتھ عالمی ماسونی تحریک کی مجالس میں بھی شریک
ہوتے تھے' لیکن اس شرکت کے مقاصد کیا تھے یہ واضح نہ ہو سکے۔ وطنیت کے
فلسفہ کے شدت سے قائل تھے اور اسی بنا پر انہوں نے مصر میں مسلمانوں اور قبطیوں کے
مابین اختلاف میں قبطیوں کے حق میں لکھا۔
ڈاکٹر محمد عمارہ اور دیگر محققین کے نزدیک مفتی محمد عبدہ کے شاگرد قاسم امین
مصری کی کتاب 'تحریر المرأة المُسلمة' کا اکثر حصہ مفتی
محمد عبدہ کا ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ قاسم امین نے لکھا تھا۔ بعد میں اس کتاب
پر مفتی محمد عبدہ نے نظر ثانی کی تاکہ مکمل کتاب کا منہج اور اسلوب یکساں ہو
جائے۔اس کتاب میں انہوں نے کہا ہے کہ عورت کے لیے اپنے چہرے کو چھپانا شرعا ً یا
آداباً واجب نہیں ہے بلکہ یہ اہل عرب کا رواج تھا جو آج تک چلا آرہا ہے اور اُمت
اس رواج پر کبھی بھی متفق نہ ہو سکی۔ ہاتھ' پاؤں اورچہرے کے علاوہ جسم کے ڈھانپنے
کو وہ شرعی حکم میں داخل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے تعد ّدِ ازواج کو بھی اللہ
کے رسولﷺ کے دور کی ایک ضرورت قرار
دیا ہے اور عصر حاضر میں اس کی ممانعت کے قائل تھے۔ اس کتاب میں ان کا یہ بھی کہنا
ہے کہ ستر و حجاب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عورتوں اور مردوں کا اختلاط جائز ہے
اور اللہ کے رسولﷺ نے جس اختلاط سے منع کیا ہے' وہ ایک مرد اورعورت کا تنہا ہونا ہے۔
طلاق کے اکثر مسائل میں انہوں نے فقہ حنفی یا جمہور فقہاء کے خلاف امام ابن تیمیہ
اور ظاہریہ کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔
ڈاکٹر محمد عمارہ نے 'الأعمال الکاملة لمحمد عبدہ' میں لکھا ہے کہ
مفتی محمد عبدہ کے نزدیک عقیدہ میں خبر واحد حجت نہیں ہے۔ اسی طرح 'منہج المدرسة العقلیة الحدیثیة للرومی' میں ہے کہ مفتی
محمد عبدہ وحدتِ ادیان کے فلسفہ کے قائل تھے۔ شیخ یوسف نبہانی نے مفتی محمد عبدہ
پر ایک نظم لکھی ہے جس میں انہوں نے انہیں شیخ فاسق قرار دیا ہے اور ان پر یہ
الزام عائد کیا ہے کہ وہ بعض اوقات نماز ترک کر دیتے تھے اور انہوں نے باوجود
استطاعت کے حج بھی نہ کیا جبکہ وہ بڑے بڑے حکومتی عہدوں مثلاً مفتی مصر' شیخ
الازہر' رکن مجلس قانون ساز وغیرہ پر فائز رہے تھے۔ دجال کے ظہور سے مراد شخص دجال
نہیں لیتے تھے بلکہ اس سے مراد فتنہ دجالیت لیتے تھے۔سورة الفیل کی تفسیر
میں 'طیرًا ابابیل' سے پرندوں کی
بجائے مچھر اور مکھیاں مراد لی ہے اور کہا ہے کہ ان کے پتھر مارنے سے مراد ان کا
کاٹنا ہے جس سے جراثیم مخالفین کے جسم میں گھس کر انہیں ہلاک کر دیتے تھے۔([2])
تفرد کی تعریف:
ایسا کوئی عالم جو جملہ علوم
و فنون میں کامل دسترس رکھتا ہو، اس کا علم، تقوی اور خلوص مسلم ہو، اصول و فروع میں
اہل حق کا تابع ہو، اگر کسی مسئلے میں جمہور امت سے الگ رائے اختیار کرےتو
اس انفرادی رائے کو تفرد کہتے ہیں،۔
تفرد کی شرعی حیثیت:
تفرد قابل اتباع نہیں ہوتا
بلکہ قابل رد ہوتا ہے،، البتہ
اس کے قائل کے یعنی صاحب تفرد کے علمی مرتبہ اور مقام کے پیش نظر اسے اس تفرد میں معذور
سمجھا جاتا ہے،۔
خلاصہ یہ کہ تفرد درحقیقت
کسی بڑی شخصیت یعنی
ایسی شخصیت جس کی علمی خدمات بھی ہوں جو اہل حق اہل علم کے نزدیک تسلیم شدہ ہوں، ایسی
شخصیت سے صادر ہوجانے والی ایک "غلطی" ہوتی ہے اوراس غلطی کی اتباع اور پیروی
ہرگز نہیں کی جاتی البتہ اس کے قائل کے مسلمہ علمی مقام کے پیش نظر اس کے ساتھ رعایت
ضرور برتی جاتی ہے، موجودہ زمانے کے اہل ہوی و اہل ضلال اپنی گمراہیوں کو تفرد کہہ
کر درجہ جواز عطاء کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن
تفرد
اور ضلالت میں بہت فرق ہے
۔([3])
تفسیری تفردات سے مراد:
تفسیری تفردات سے مراد مختلف آیات قرآنی سے وہ منفرد استنباط و
استخراج ہے جو کسی ایک مفسر کا خاصہ ہو اور وہ اس کی اپنی تحقیق ہو جسے وہ اپنی
طرف منسوب کرتا ہو اور حقیقتاً ایسا ثابت بھی ہو جائے کہ ان نکات کو کسی دوسرے
مفسر نے بیان نہیں کیا تو وہ اس کا تفرد کہلاتا ہے۔
محمد عبدہ کے تفسیری تاویلات اور تفردات:
یہاں مفتی محمد عبدہ کی تفسیر کے چند
مقامات پیش خدمت ہیں جس میں انہوں نے تکلف کے ساتھ قرآن کی تفسیر
عقلی منہج پر کرنے کی کوشش کی ہے ۔
·
سورة
البقرة کی آیت ٥٠(وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ )کی
تفسیر میں مفتی محمد عبدہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے ذریعے سمندر کے پھٹ
جانے کے معجزہ کااقرار کیا ہے اور معجزات پر ایمان کو من جملہ ایمانیات میں
شامل قرار دیا ہے۔([4]) انہوں نے ان لوگوں کی
تاویلات کا رد بھی کیاہے جو اس معجزے کی عقلی توجیہہ سمندر کے مدّو جزر سے کرتے
ہیں' جیسا کہ سرسید کا موقف ہے۔
·
سورة
البقرہ کی آیت ٦٣ (وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ
الطُّوْر)کے ذیل میں طور پہاڑ کے حسی طور پر بنی اسرائیل پر اٹھائے جانے کا
انکار کیا ہے اوراس سے پہاڑ کا زلزلہ اور اس کے سایہ کا ان پر چھا جانا مراد لیا
ہے۔([5])
·
سورة
البقرة کی آیت ٧٣ (فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ
بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی) میں
احیائے موتی ٰکے معجزہ کی تاویل کی ہے۔ گائے کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کو مارنے
کی انہوں نے یہ تاویل کی ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ رواج تھاکہ جس بستی میں کوئی
شخص قتل کیا جاتا اور قاتل کا علم نہ ہوتا تو جو شخص اس رسم کے مطابق عمل کر لیتا
تھا تو وہ مقتول کے خون سے بری ہو جاتا تھا اور جو اس رسم کے مطابق عمل نہ کرتا
تھا اس پر قتل کا الزام عائد ہو جاتا تھا۔ اس آیت میں مردوں کو زندہ کرنے کی انہوں
نے یہ توجیہہ کی ہے کہ اس سے مراد قانونِ قصاص ہے کیونکہ قصاص کے بارے میں کہا گیا
ہے کہ اس میں تمہارے لیے زندگی ہے۔([6])
·
سورة
البقرة کی آیت ٨١ (بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَةً
وَّاَحَاطَتْ بِہ خَطِیْئَتُہ فَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا
خٰلِدُوْنَ) کی تفسیر میں انہوں نے گناہ کبیرہ
پر استمرار اور عدم توبہ کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے اور ایسے گناہ کبیرہ کے
مرتکبین کلمہ گومسلمانوں کو دائمی جہنمی قرار دیاہے اور اس مسئلے میں معتزلہ کا
نام لے کر ان کے مسلک کو قرآن کی نص کے قریب قرار دیا ہے۔([7])
·
سورة
البقرہ کی آیت ٨٥( اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْن
بِبَعْضٍ) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اگر مسلمان گناہ
کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس پر اسے شرمندگی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ توبہ کرتا
ہے بلکہ اس گناہ کا ارتکاب جاری رکھتا ہے تو ایسا کلمہ گو مسلمان کافر ہے۔([8])
·
سورة
البقرة کی آیت ٨٧ (وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ
الْقُدُسِ) میں روح القدس سے مراد وحی لی ہے جبکہ مفسرین اس سے مراد
حضرت جبرائیل لیتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے (نَزَلَ
بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ) سے بھی وحی ہی مراد لی ہے۔([9])
·
سورة
البقرة کی آیت ١٠٢ (وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی
الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ)کے
بارے میں کہا ہے کہ اس میں 'مَلَکَیْن' سے مراد دو عام
انسان ہی تھے لیکن ان کو فرشتہ اس لیے کہا گیا ہے کہ لوگ ان کو فرشتہ سمجھتے تھے
یا مجازاً فرشتہ کہہ دیا گیا ہے۔ ([10])
·
سورة
البقرة کی آیت ٢٤٣ (فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ
مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ) کے بارے میں فرماتے
ہیں کہ اس میں موت سے مراد دشمن کے سامنے مغلوب و مقہور ہوناہے اور دوبارہ زندہ
کرنے سے مراددوبارہ آزادی اور قوت دیناہے۔([11])
·
سورہ
آل عمران کی آیت ٣٧ (کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا
زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ
ھٰذَاط قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ) میں
اس واقعے کے خرقِ عادت میں سے ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ الزام عائد کیا ہے کہ
متقدمین نے قرآن میں اکثر و بیشتر مقامات پر تفسیر کرتے ہوئے خرقِ عادت واقعات کا
اثبات من گھڑت اسرائیلیات سے کیا ہے جوتفسیر کا درست منہج نہیں ہے۔
·
سورہ
آل عمران کی آیت٤٩ (وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ
اللّٰہِّ ) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے کے معجزات کے
بارے میں کہاہے کہ اس میں توقف کرنا چاہیے اور قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں
ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
· سورہ
آل عمران کی آیت ٥٥ (اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ)کے
ذیل میں نزولِ مسیح کا انکار کیا ہے اور احادیث میں نزولِ مسیح سے ان کی حقیقی
تعلیمات کادنیا میں غلبہ مراد لیا ہے۔ سورہ آل عمران کی آیات ١١٣ تا
١١٥٥ کے ذیل میں یہ بیان کیا ہے کہ اہل کتاب اگر اپنے بچے کھچے دین پر
صحیح معنوں میں عمل کرتے ہیں' چاہے وہ اسلام نہ بھی قبول کریں' تو اللہ کے ہاں
متقین اور صالحین میں شمار ہوں گے۔
حواشی اور حوالہ جات:
[2] ۔http:/www.punjud.com
[3] ۔
مولانا
احسن خدامی صاحب کی ایک پرانی تحریرسے اقتباس۔
[4] ۔تفسیر القرآن الحکیم،المشتھر
با سم تفسیر المنار، السیّد محمد رشید رِضا،ج۱،ص۳۱۴ ،الطبعۃ الثانیۃ فی سنۃ ۱۳۶۶ھ۔ ۱۹۴۷م
[5] ۔نفس مصدر،ج۱،ص۳۳۹۔۳۴۰
[6] ۔ نفس
مصدر،ج۱،ص ۔۳۵۰۔۳۵۱
[7] ۔ نفس مصدر،ج۱،ص ۔۳۶۲۔۳۶۳
[8] نفس مصدر،ج۱،ص ۔۳۷۳۔۳۷۴
[9] ۔ نفس
مصدر،ج۱،ص ۔۳۷۶۔۳۷۷
[11] ۔ نفس مصدر،ج ۲،ص۴۵۷
0 Comments