![]() |
(PhD scholar)Lubna shah |
قرآن میں نسخ کے وجود کا
تحقیقی جائزہ
(Investigatory overview of the
existence of abolition in the Qura'an)
ABSTRACT
Naskh means the abolition of ayahs
or orders in the Holy Qur'an. Some ayahs in
the Qur'an are valid and some are canceled. The proof of this is clear from the
Qur'an and Hadith, and it was not a defect but was the Shariah requirement
according to time and circumstance. The objectors criticize and deny abolition
in the Qur’an. There is little difference in the terms of the early scholars
and the later scholars regarding the cancellation .but all are believers, and recognize the existence of Naskh in the Qur’an,
the scholars have given different definitions of this but Naskh does not mean the distortion in the Holy Qur’an. Jalal-ud-din Sayutiرحمۃاللہ علیہ has quoted
twenty of the canceled ayahs while Shah Waliullah رحمۃاللہ علیہ has declared
five verses canceled in the Holly Qur’an. The present article is an
investigatory study about the existence of Naskh in the Holy Qur'an
.Keywords: Existence of Naskh, Canceled ayahs, Scholars arguments
﷽
قرآن کریم اللہ تعالی کا
برگزیدہ کلام ہے جسےاللہ تعالی نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمدمصطفی ﷺ پروقتاً
فوقتاً ضرورت اور حالات کے مطابق تدریجی طور سے نازل فرمایا تاکہ لوگوں کوایک مکمل قانون اور دستور حیات
عطا ہو جس طرح حالات کے مطابق آیات کا نزول ہوتا اسی طرح کچھ آیات منسوخ بھی
ہوتی ،علوم
قرآ ن میں ایک اہم بحث ناسخ و منسوخ کی ہےہم اس علم کو نزول وحی میں
تدریج و ترتیب کی ایک قسم قرار دے سکتے ہیں ۔ اس علم کے ذریعے ہم پر یہ
حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کون سی سورت یا آیت پہلے نازل ہوئی اور کون سی بعد میں ۔
ناسخ ومنسو خ کا علم ہر عالم ،قاضی اور مفتی کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اس
علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے
کہ جس شخص کو نسخ کا علم نہ ہوتاصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اس کو فتویٰ دینے
سے منع کرتے اور نہ ہی اس کو منصب ِقضا پر فائز کیا جاتا۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک قاضی سے پوچھا
:’’کیا تو ناسخ منسوخ کو پہچانتا ہے؟‘‘ قاضی نے نفی میں جواب دیا، تو فرمایا: ’’تو
خود بھی ہلاک ہوا اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔‘‘ ([1])
عن ابن عباس في قوله: (وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ
أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا) ، يعني: المعرفة بالقرآن ناسخه ومنسوخه، ومحكمه
ومتشابهه، ومقدمه ومؤخره، وحلاله وحرامه، وأمثاله.([2])
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آیت
کریمہ ’’ وَمَنْ
یُؤتَ الحِکمَۃَ فَقَدْ اُوْتِی خَیْرًا کَثِیْرًا ‘‘ (البقرۃ: ۲۶۹) میں ’حکمت‘ کو قرآن کریم کے ناسخ ومنسوخ،
محکم ومتشابہ، مقدم ومؤخر اور حلال وحرام کی معرفت سے تعبیر کرتے ہیں۔
علم ناسخ ومنسوخ کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر
علمائے کرام نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کیں۔ علم ناسخ ومنسوخ کو علوم
القرآن کے ساتھ ساتھ اُصولِ حدیث اور اُصولِ فقہ میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔نسخ کی اہمیت کی ایک وجہ یہ
بھی ہے کہ اس کی معرفت سے فقہ کی معرفت
حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
نسخ کا مفہوم اور علماء کے اقوال:
نسخ کا لفظ باب فَتَحَسے مصدر ہے اس کا مادہ(حروف
اصلی)ن،س،خ، ہیں۔نَسَخَ،یَنْسَخُ،نَسْخا ً بمعنی ختم
کرنا،کینسل کرنا،منسوخ کرنا،زائل کرنا،مٹانا،لکھنا،نقل کرنا۔([3])لفظ نسخ کو لغوی اعتبار سے متعدد معانی میں استعمال
کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نسخ کے اصطلاحی
مفہوم میں علماء کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ نسخ کے مختلف مفاہیم مع امثال
تفصیلا ًدرج ذیل ہے۔
۱۔نسخ بمعنی زائل کرنا ۔دور کرنا۔اس کی دلیل یہ آیت
ہے۔
{فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي
الشَّيْطَانُ} [الحج : 52] شیطان جو القا ء کرتا ہے اللہ تعالی اس کو مٹا دیتا ہے۔([4]) عربی میں بولتے ہیں نَسَخَتِ الشَّمسُ الظِّلَ یعنی دھوپ نے سایہ کو زائل کر دیا یعنی دور کردیا،اور نَسَخَ الشَّیْبُ الشَّبَابَ بڑھاپے نے جوانی کو زائل کر دیا۔
۲۔نسخ بمعنی تبدیل۔مثلاًیہ آیت :{وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ
آيَةٍ } [النحل : 101] اور جب
ہم کسی آیت کو بجائے دوسری آیت کے بدلتے
ہیں۔([5])
۳۔نسخ بمعنی تحویل۔مثلاً تناسخ مواریث یا مناسخات فی
المواریث۔( تناسخ مواریث کا مطلب ہےمیراث کو ایک شخص سے
دوسرے کی طرف منتقل کیا جائے۔([6])
۴۔نسخ بمعنی نقل۔یعنی نسخ ایک
جگہ سے دوسری جگہ نقل کرنے کو بھی کہتے ہیں۔عربی میں بولتے ہیں نَسَختُ الکِتَابَ([7]) یعنی میں نے کتاب نقل کرلی۔یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب نقل کرنے
والا وہی الفاظ اسی طرز تحریر میں لکھ رہا ہو۔و أصل النسخ من نسخ الکتاب،([8])
بعض علماءاس آخری وجہ کو
تسلیم نہیں کرتے اور دلیل ہی دیتے ہیں کہ
ناسخ(نقل کرنے والا) بعینہ وہی الفاظ نقل نہیں کرتا بلکہ اس عبارت کو با الفاظ دیگر یعنی اپنے الفاظ میں
تحریر کرتا ہے،لیکن امام ابو عبداللہ محمد
بن برکات سعدی نے اس کی صحت پر مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کیا ہے۔{إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا
كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} [الجاثية : 29] جو کام تم کرتے
تھے ہم اسے لکھواتے جا رہے تھے۔([9])
نسخ
کا اصطلاحی مفہوم: نسخ کے اصطلاحی
مفہوم میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں ،نسخ کے معنی بدل کے ہیں۔مجاہدرحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں،مٹانے
کے معنی ہیں جو (کبھی )لکھنے میں باقی رہتی ہے اور حکم بدل جاتا ہے۔حضرت ابن
مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد اور ابو العالیہ اومحمد بن کعب قرظی سے بھی اسی طرح مروی
ہے۔ضحاک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں بھلا
دینے کے معنی ہیں۔عطا رحمۃ اللہ فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں۔سدی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں۔([10])
علامہ
زین الدین عراقی و سخاوی رحمھمااللہ
فرماتے ہیں: اصطلاحا ھورفع الشارع الحکم السابق من احکامہ([11])
اصطلاح
میں اسکا مفہوم یہ ہے کہ شارع ﷺ نے پہلے کوئی حکم دیا ،پھر دوسرا حکم دے کر اس
پہلے حکم کو ختم یا زائل کر دیا۔اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:و المراد بارتفاع الحکم قطع تعلقہ بالمتکلفین ولافا لحکم
قدیم لا یرتفع([12])یعنی
حکم کے رفع ہونے سے مراد مکلفین کا اس حکم
سے تعلق کٹ جانا ہے ورنہ قدیم حکم رفع نہیں ہوگا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں"النسخ ھو بیان انتہاءالحکم"([13])یعنی انتہاء حکم کے بیان
کونسخ کہتے ہیں۔ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرے مقام پر نسخ کو رفع الحکم([14])
سے تعبیر کیا ہے۔
زین الدین آمدی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۷۱۲ھ،۱۳۱۲ء) فرماتے
ہیں۔النسخ عبارۃ
عن خطاب الشارع المانع من استمرار ما ثبت من حکم خطاب شرعی سبق۔([15])
یعنی نسخ شارع کا وہ خطاب ہے جس کے زریعے
سابقہ خطاب شرعی سے ثابت حکم کا استمرارختم کر دیا جاتا ہے۔
علامہ ابن حزم اندلسی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ کہنا
کہ ایک حکم نے دوسرے حکم کو منسوخ کردیا
صحیح نہیں ہے بلکہ اس کی زیادہ
صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ ایک
حکم کے بعد دوسرا حکم نازل ہوا۔([16])
علامہ محمد بن حمزہ
انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نسخ ایک ایسی شرعی دلیل سے عبارت ہے جس سے سابقہ شرعی حکم کے عرصے بعد دوسرا نیا اور آخری حکم
ثابت ہوتا ہے۔([17])
ابو بکر جصاص حنفی رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے:نسخ کا مطلب حکم یا تلاوت کی مدت بیان کردینا ہے۔([18])آپ
رحمۃاللہ علیہ مزید فرماتے ہیں :قرآن کی کسی آیت پر جب نسخ کا حکم لگایا جاتا ہے تو اس سے مراد آیت
کا ازالہ نہیں ہوتا بلکہ مدعا یہ ہوتا ہے کہ آیت پر جو حکم لگا ہے یا لگا تھا وہ
اس وقت کے زمانے کے اعتبار سے تھا۔حالات بدل جانے سے کسی طرح بھی وہ حکم مطلقا
ممنوع نہیں ہوتا۔([19])
علامہ تاج السبکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:انہ رفع الحکم الشرعی الخطاب۔آپ رحمہ اللہ علیہ مزید فرماتے
ہیں: انہ اقرب
الحدود۔([20])
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نسخ سے مرادکسی تخصیص یا شرط کی بنا
پر ظاہری معنی کو ترک کر دینا یا اسے اختیار کر لیناہے۔([21])
علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کی تعریف میں علماء
کے اقوال میں تھوڑا بہت اختلاف ہے لیکن اس لفظ کے لغوی و اصطلاحی معنی و مفہوم کے
مابین جو ربط و تعلق پایا جاتا ہے اس کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ دین کا
ایک اہم معاملہ ہے۔لہذا نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں
اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے،ناسخ کاکام یہ نہیں ہوتاکے وہ منسوخ کو غلط
قرار دے بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کر دے اور یہ بتلا دے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا
اس زمانے کے لحاظ سے تو وہی مناسب تھا،
لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بناءپر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے ، جو شخص بھی سلامت فکر کے ساتھ غور کرے
گاوہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہیہ کے عین مطابق
ہے۔
مطلب یہ ہےکہ بعض
مرتبہ اللہ تعا لی کسی زمانے کے حالات
کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرما تا ہے، پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی
حکمتِ بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کر کے اسکی جگہ کوئی
نیا حکم عطا فرما دیتا ہے ،اس عمل کو" نسخ" کہا جاتا ہے اور اس
طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اسے"
منسوخ" کہتے ہیں اور وہ نیا حکم جو منسوخ
کی جگہ لے لیتا ہے اس کو" ناسخ" کہتے ہیں۔
قرآن میں نسخ کے
وجودکی دلیل :
قرآن کریم میں
"نسخ" کی دلیل اللہ تعا لی کا
یہ قول ہے۔
{مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا
أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ }
[البقرة : 106]
جس آیت کو بھی ہم منسوخ کرینگے یا بھلائیں گے،اس سے بہتر یااس جیسی آ یت لے آئیں گے، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر
قادر ہے۔
قرآن کریم کی یہ آیت خود قرآن
میں نسخ کے وجود پر دلالت کرتی ہے،اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی
قرآن میں نسخ کے وجود پر دال ہے:
4481 - حدثنا
عمرو بن علي، حدثنا يحيى، حدثنا سفيان، عن حبيب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس،
قال: قال عمر رضي الله عنه: " أقرؤنا أبي، وأقضانا علي، وإنا لندع من قول
أبي، وذاك أن أبيا يقول: لا أدع شيئا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم
". وقد قال الله تعالى: {ما ننسخ من آية أو ننسها} [البقرة: 106] ([22])
حضرت
عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے سب سے بڑے قاری اُبی بن کعب رضی
اللہ تعالی عنہ ہیں اور سب سے بڑے قاضی اور فیصلہ کرنے والے علی رضی اللہ تعالی
عنہ ہیں
لیکن اس کے باوجود ہم اُبی بن کعب کی ایک بات کو ترک کرتے ہیں اور اسے تسلیم
نہیں کرتے اور وہ یہ کہ اُبی کہتے ہیں
کہ میں رسول ﷺ سے سنی ہوئی آیات میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا حالانکہ
اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں : مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا یعنی اللہ تعالی نے خود بعض آیات
منسوخ کی ہیں تو پھر ابی بن کعب کا یہ کہنا کہ میں کسی بھی آیت کو ترک نہیں کروں گا ان کی یہ بات ہمیں تسلیم نہیں۔اس حدیث کو ابن
کثیر نے بھی صحیح بخاری کے حوالے سےنقل کیا ہے۔
نسخ کا وجود قرآن میں کوئی عیب نہیں اور نہ ہی یہ
کوئی عجیب بات ہے کیونکہ نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر
ہے جو پچھلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے ۔تفسیرابن کثیر میں
ہیں کہ حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز
تھا پھر اسے حرام کر دیا ۔نوح
علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض
کی حلت منسوخ ہو گئی۔ دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن
پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا ۔ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی
کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا ۔بنی اسرائیل کو حکم دیا جاتا
ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے
باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے ،اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات موجود ہیں
۔([23])
اہل
عقل اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ نسخ کا تعلق انسانی زندگی سے مربوط ہے ہماری
روز مرہ زندگی سے بھی اسکی کئی مثالیں
ملتی ہیں مثلاًتفسیر مدنی کبیر کی یہ مثال
کہ انسان کی غذا اس کے بچپن سے لیکر آخر تک کیسے بدلتی رہتی ہے ؟ ماں کے پیٹ میں
اس کی غذا اسکا خون ہوتا ہے، اور وہ بھی منہ سے نہیں، ناف کے راستے ، پھر پیدائش
کے بعد ایک عرصہ تک یہ دودھ پیتا ہے، اور وہ بھی ایسا کہ جو ابتداء میں اس کی
طبیعت و حالت کے عین مطابق بالکل پتلا اور ہلکا ہوتا ہے ، اور پھر رفتہ رفتہ وہ
گاڑھا ہوتا چلا جاتا ہے ، پھر اس کے بعد یہ بچہ ہلکی ہلکی غذا کھانے لگتا ہے ، پھر
آہستہ آہستہ یہ دوسری
غذائیں کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح شریعت کے جوابتدائی احکام تھےوہ بالکل ہلکےاور ا بتدائی نوعیت کے تھے ،
پھر آہستہ آہستہ جب انسانیت شباب و عروج کو پہنچ گئی، تو اس کو قرآن و سنت کی
شکل میں وہ آخری اور کامل غذا مرحمت فرما دی گئی جو قیامت تک اس کی ضرورتوں کیلئے
کافی ہے۔
نسخ کے حدوداور "ناسخ "کی تعریف:
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتاب
اللہ کی آیات کے لئے کن چیزوں کو ناسخ مانا جائے گا اور کن کو نہیں ؟اس سوال کا
جواب دینے سے پہلے لفظ "ناسخ "کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے، کشف
الباری کتاب التفسیر میں شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نےکشف الاسرار علی اصول فخر الاسلام،باب
تقسیم الناسخ کے حوالے سے چار
تعریفات ذکر کی ہیں جن میں ایک جامع تعریف یہ ہے۔
ھُوَالخِطَابُ
الدَّالُ عَلَی ارتِفَاعِ الحُکم الثابت بالخطابِ المقدمِ عَلَی وَجہ لَولاہ،لکان
ثابِتا مَع تراخیہ عنہ۔
یعنی ناسخ اس خطاب کو کہتے ہیں جو پہلے خطاب سے ثابت شدہ حکم کے
ختم ہونے پر دلالت کرے اس طرح کہ دوسرا خطاب(جو پہلے حکم کے بعد آیا ہے) نہ آتا
تو پہلے خطا ب کا حکم ثابت اور برقرار رہتا۔([24])
اب سوال کےجواب کو سمجھنا
آسان ہوگاکہ سورہ بقرہ کی آیت
نمبرچھ(۶)میں چونکہ "نأتِ بخیر"کی قید ہے اس لئےکتاب اللہ کے لیے قیاس کو ناسخ نہیں مانا جائےگا اور نہ
اجماع اکثر علماء کے نزدیک کتاب اللہ کیلئے ناسخ بن سکتا ہے البتہ کتاب اللہ اور احادیث
نبویہ حنفیہ کے نزدیک ایک دوسرے کے ناسخ
بن سکتے ہیں۔ لیکن شوافع کے نزدیک یہ بھی درست نہیں کیونکہ اس سے معترضین
کواعتراض کا موقع ملتا ہے، حنفیہ اس احتمال کو بے وزن سمجھتے ہیں کہ
"نسخ" کے معنی جب مدت اورانتہاکے ہیں تو پھر اعتراض کہاں رہا؟ گویا اللہ
تعالی نے رسول کے حکم کی اور رسول نے اللہ کے حکم کی مدت اور انتہا بتلا دی۔اور
چونکہ ناسخ و منسوخ میں مماثلت یا نسخ کا خیر ہونا بلحاظ سہولت و ثواب ہے اس لئے
قرآن وحدیث کا ایک دوسرے کیلئے ناسخ بننا
باعث اشکال نہیں ہونا چاہئے۔([25])
نسخ کے بارے میں متقدمین اور متأخرین
کی اصطلاحات :
متقدمین کی اصطلاح میں لفظ
"نسخ" ا یک وسیع مفہوم کا حامل
تھا اس میں بہت سی صورتیں داخل تھیں متقدمین
کے نزدیک عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید
وغیرہ بھی نسخ کے مفہوم میں داخل تھیں ،([26])
چنانچہ اگر ایک آیت میں عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور دوسری آیت میں انہیں
کسی خاص صورت سے مخصوص کر دیا گیا ہے تو علمائےمتقدمین پہلی کو منسوخ اور دوسری کو
ناسخ قرار دیتے ہیں جسکامطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ پہلا حکم بالکلیہ ختم ہوگیا،
بلکہ مطلب یہ ہو تا تھا کہ پہلی آیت سے جو عموم سمجھ میں آتا تھا دوسری آیت نے
اس کو ختم کردیا۔
اس کی مثال قرآن پاک کی یہ آیت
ہے۔
{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ
حَتَّى يُؤْمِنَّ} [البقرة : 221]
یعنی مشرک عورتوں سے نکاح نہ
کرو،یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔
اس آیت میں مشرک عورتوں کا لفظ
عام ہے اور اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی مشرک عورتوں سے نکاح حرام
ہے ، خواہ وہ بت پرست ہوں یا اہل کتاب لیکن ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے،
{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ
أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ}[المائدة :5]
اور تمہارے لیے حلال ہیں اہل کتاب
میں سے با عفت عورتیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ پہلی آیت میں
مشرک عورتوں سے مراد وہ مشرک عورتیں تھیں جو اہل کتاب نہ ہوں، لہٰذا اس دوسری آ
یت نےپہلی آیت کے عام الفاظ میں تخصیص پیدا کر دی اور بتادیا کہ ان سے مراد مخصوص قسم کی مشرک
عورتیں ہیں ۔متقدمین اس کو بھی نسخ کہتے ہیں اور پہلی آ یت کو منسوخ اور دوسری کو
ناسخ قرار دیتے ہیں۔([27])علامہ
سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کی آیات منسوخ نہیں بلکہ مخصوص ہوتی
ہیں۔ابن عربی کا بھی یہی بیان ہے۔([28])
جبکہ متأخرین کی اصطلاح میں نسخ سے
مراد وہ تبدیلی ہے جو پہلے حکم کو بالکل
ختم کر دے۔ اصطلاح کے اس فرق کی وجہ سےمتقدمین کے نزدیک قرآن کریم کی آیات میں نسخ کی تعداد بہت ذیادہ تھی لیکن
متأخرین کی اصطلاح میں تعداد نسخ بہت کم ہے۔
نسخ کی صورتیں:
نسخ کی علماء کرام نے مندرجہ ذیل چار صورتیں بیان کی ہیں۔
۱۔نسخ القرآن بالقرآن ۔۲۔نسخ السنتہ با لسنتہ۔۳۔نسخ
القرآن بالسنتہ۔۴۔نسخ السنتہ بالقرآن۔
نسخ القرآن بالقرآن کی پھرتین
قسمیں ہیں۔
پہلی قسم:یہ کہ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ کئے جاویں۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے۔" کان فیما انزل عشر رضعات
معلومات فنسخ بخمس معلومات فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھن مما یقرأمن
القرآن"۔([29])
یعنی ابتداءمیں دس رضعات سے حرمت
رضاعت ثابت ہو جاتی تھی پھر پانچ رضعات سے اس کے ثبوت کا حکم ہوا،حضرت عائشہؓ
فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب زمانے تک اس کی تلاوت
بھی کی جاتی تھی لیکن اب دس اور پانچ دونوں رضعات کا حکم اور تلاوت منسوخ ہے قرآن
کی آیت" {وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ} [النساء 4: 23] سے۔
دوسری قسم: یہ کہ حکم منسوخ
ہو اور تلاوت باقی ہو اس کو منسوخ الحکم آیت کہتے ہیں، اس کی مثال یہ آیت ہے ۔
{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا
أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ
فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} [البقرة 2: 184] حضرت عبداللہ بن عمر اور دیگر اہل علم کے نزدیک اس آیت کا حکم منسوخ ہو چکا
ہے البتہ اس کی تلاوت باقی ہے۔اس آیت کے لیےناسخ یہ آیت ہے۔ "{ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
} [البقرة 2: 185]" البتہ بعض حضرات"وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ"کو منسوخ تسلیم نہیں کرتے اور کہتے
ہیں کہ "يُطِيقُونَهُ" لَايُطِيقُونَهُ" کے معنی میں ہے۔([30])
تیسری قسم:یہ کہ الفاظ منسوخ ہو
مگر حکم باقی ہو اس کو منسوخ التلاوت آیت کہتے ہیں ،اس کی مثال یہ آیات ہیں۔
۱۔الشيخ و الشيخة إذا زنيا
فارجموھماالبتۃنکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم۔([31])
ان الفاظ کے بارے میں مفسرین علماء کا اختلاف ہے بعض اس کو منسوخ التلاوت
آیات کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں
جبکہ بعض کے نزدیک یہ کبھی قرآن کا حصہ نہیں رہا بلکہ یہ
تورات کا حصہ ہے ۔حافظ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کے
رجم کے واقعہ میں جب نبی کریم ﷺ نے قسمیں دے کر عبداللہ بن صوریا سے پوچھا کہ تورات
میں شادی شدہ زانی کا حکم کیا ہے ؟ تو اس نے یہ الفاظ پڑھ کر سنائے اس پر
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: فھوذاک یعنی بس یہی حکم تو چاہیے تھا۔([32]) جس
طرح ان الفاظ کا آیتِ قرآنی ہونے میں اختلاف ہے اسی طرح اس متن کے الفاظ میں بھی
اختلاف پایا گیا ہےکیونکہ الاتقان میں دو احادیث میں یہ الفاظ ایک مفہوم لیکن مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ایک
حدیث میں یہ الفاظ ۔"الشیخ و الشیخۃ فرجموھماالبتۃ بماقضیا من اللذۃ"۔جبکہ دوسری حدیث میں یہ الفاظ
مذکور ہیں۔"اذازنی الشیخ والشیخۃفارجموھماألبتۃ نکالامن اللہ واللہ عزیز حکیم"۔([33])
۲۔وعن أنس رضی اللہ عنہ أنہ نزل فی
قتلی بئر معونۃ بلغوا إخواننا نحن لقینا ربنا فرضیی عنا وأرضنا۔
۳۔و عن ابی بکررضی اللہ عنہ کنا
نقرأ فی القراٰن لا ترغبواعن اٰبائکم فإنہ کفر بکم۔([34])
مذکورہ الفاظ چونکہ منسوخ ہوچکے
ہیں لیکن ان کا حکم قانونِ اسلام میں اب بھی باقی ہے۔
نسخ کی دوسری قسم ہے "نسخ السنتہ با لسنتہ" ،اس کی چار صورتیں ہیں۔
۱۔نسخ المتواتر با المتواتر: یعنی ایک متواتر حدیث کے حکم کو
دوسری متواتر حدیث سے منسوخ کر دینا، یہ با لاتفاق جائز ہے۔
۲۔نسخ الآحاد بالآحاد:یہ بھی بالاتفاق جائز ہے۔
۳۔نسخ الآحادبالمتواتر:یہ بھی بالاتفاق جائز ہے۔
۴۔نسخ المتواتر بالآحاد:اس میں اختلاف ہے بعض اہل ظواہر
اس کے جواز کے قائل ہیں لیکن جمہور کے نزدیک یہ جائزنہیں ہے۔
نسخ کی تیسری قسم ہے" نسخ القرآن با لسنتہ"۔
حنفیہ کے نزدیک یہ جائز ہےجمہور
فقہاء اور اکثر متکلمین کا بھی یہی مذہب ہےامام شافعی ،اکثر محدثین اور امام احمد
بن حنبل رحمھم اللہ علیھم اجمعین کے نزدیک
یہ صورت جائز نہیں۔
چوتھی قسم ہے "نسخ السنتہ بالقرآن"۔
یعنی قرآن کی کسی آیت کی وجہ سے
سنت کا منسوخ ہونا،یہ حنفیہ کے نزدیک جائز ہے البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک
یہ صورت بھی جائز نہیں۔([35])
عمل میں خفیف اور ثقیل ہونے کے اعتبار سے
نسخ کی اقسام :
ناسخ ومنسوخ احکام پر عمل کرنے کے
اعتبار سے اس کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں۔
۱۔نسخ الی بدل مساوٍ:یعنی ناسخ و منسوخ کا ایک دوسرے
کے مماثل ہونا اسکی مثال نماز میں استقبال بیت المقدس کے حکم کا منسوخ ہونا اور
استقبال خانہ کعبہ کے حکم کا ناسخ ہونا۔
۲۔نسخ الی بدل اخف:یعنی ناسخ کا بہ نسبت منسوخ کے
اسہل یعنی آسان ہونااسکی مثالیں پچاس نمازوں کے حکم کا منسوخ ہو کر پانچ نمازوں
کے حکم کا ناسخ ہونا اور سورہ انفال کی آیت نمبر پینسٹھ(۶۵)اور چھیاسٹھ(۶۶) یعنی
ایک مسلمان کا دس کافروں کے مقابل ہونا منسوخ ہو کر ایک کا دو کے مقابلے میں آنا،ان
آیات کی تفصیل آگے (منسوخ آیات کی تعدادکے ضمن میں )ذکر ہوگی۔
۳۔نسخ الی بدل اثقل:یعنی منسوخ کے مقابلہ ناسخ کا اثقل ہونا اسکی مثالیں تحریم خمر اور
حد زنا کےا حکام ہیں جو پہلے آسان تھے لیکن بعد میں یہ احکام منسوخ ہو کر اس کی
جگہ سخت احکام نازل ہوئے،آیت عفو کا آیتِ قتال
سے منسوخ ہونا اور ابتداء اسلام میں روزہ اور فدیہ کے اختیار کی منسوخیت
تعیین روزہ کے ساتھ۔
۴۔نسخ بلا بدل:یعنی منسوخ حکم کے بدلے کوئی دوسرا حکم نافذ نہیں
ہوتا اسکی مثال "فقدموا بین یدی نجواکم
صدقۃ"ہےجو منسوخ ہوا لیکن اسکی جگہ کوئی دوسرا حکم نازل نہیں ہوا۔([36])
قرآن کی کتنی سورتوں میں ناسخ اور
منسوخ آیات موجود ہیں؟
علماء محققین نے قرآنی سورتوں
کو آیات منسوخہ پر مشتمل ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے
مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا ہے۔جن سورتوں میں صرف ناسخ آیات ہیں وہ کل
چھ(۶) سورتیں ہیں۔ایسی سورتیں جو ناسخ و منسوخ سے خالی ہیں ان کی تعداد تینتالیس
(۴۳) ہیں۔([37])
جن سورتوں میں صرف منسوخ آیات ہیں ان کی تعدادچالیس(۴۰) ہیں۔([38])جن
سورتوں میں ناسخ و منسوخ دونوں طرح کی آیات ہیں وہ کل اکتیس(۳۱) ہیں۔([39])
جبکہ بعض نے ایسی سورتیں جن میں ناسخ اور منسوخ دونوں طرح کی آیات موجود ہیں کی
تعدادپچیس(۲۵)بتائی ہے۔([40])
منسوخ آیات کی تعداد :
علا مہ جلاالدین سیوطیؒ نے متأخرین
کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل بیس(۲۰) آیتیں منسوخ ہیں۔([41])۔
جبکہ بعد میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان بیس آیات میں غور وفکراور تبصرہ کرکے
صرف پانچ(۵) آیات میں
"نسخ" تسلیم کیاہے۔ ([42])جن
پانچ آیتوں کو انہوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں۔
{كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ
أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ
وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ}[البقرة : 180]
"جب تم میں سے کسی کے سامنے موت
حاضر ہوجائے اگر وہ مال چھوڑرہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباءکے لئے وصیت
بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے،یہ متقیوں پر لازم ہے"۔
یہ آیت اس زمانے میں نازل ہوئی
تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے۔بعد میں آیت میراث نازل ہوئی جس نے اس حکم
کو منسوخ کر دیا۔آیت میراث یہ ہے،
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي
أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ } الخ[النساء : 11] ([43])
۲:{ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ
صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا
أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ} [الأنفال :
65]
"اگر تم میں سے بیس آدمی
استقامت رکھنے والے ہونگے تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے،اور اگر تم میں سے سو آدمی ہونگے تو ایک
ہزار کافروں پر غالب آجائیں گےکیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں
رکھتے"۔
یہ آیت بظاہر خبر لیکن معنی کے اعتبار سے حکم ہے کہ مسلمانوں کو
اپنے سے دس گنازائد دشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں،یہ حکم اگلی آیت سے منسوخ
ہے۔یعنی
{الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ
وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ
يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ
بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ} [الأنفال : 66] ([44])
اس آیت نے پہلی آیت کے حکم میں
تخفیف پیدا کر دی، اور دس گنا زائد دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کر دی کہ اس حد
تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔
۳:{لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ
مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ
حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ
رَقِيبًا } [الأحزاب : 52]
"ان کے بعد اور عورتیں تمہیں حلال
نہیں اور نہ یہ کہ ان کے عوض اور بیویاں بدلو اگرچہ تمہیں ان کا حسن بھائے اور وہ
جو تمہاری ملک میں ہیں، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے"،
یہ آیت جس آیت سے منسوخ ہے وہ یہ
ہے۔
{ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا
أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ} الخ[الأحزاب : 50]
اے نبی ﷺہم نے تمہارے لیے حلال
فرمائیں تمہاری وہ بیویاں جن کو تم مہر دو۔([45])
۴:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً
ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ
رَحِيمٌ} [المجادلة : 12]
"اے ایمان والوں جب تمہیں رسول اللہ
ﷺ سے سرگوشی کرنی ہو تو اس سے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرو یہ تمہارے لیےباعث خیر اور
طہارت ہے، پھر اگر تمہارے پاس(صدقہ کرنے کو) کچھ نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان
ہے"،
یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہے
یعنی،
{أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا
بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ
عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ
وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ } [المجادلة : 13]
کیا تم اپنی سرگوشی کے قبل خیرات دینے
سے ڈر گئے ․ سو (اخیر) جب تم (اس کو) نہ کرسکے اور اللہ تعالیٰ نے
تمہارے حال پر عنایت فرمائی تو تم نماز کے پابند رہو اور زکوٰة دیا کرو اور اللہ
اور رسول علیہ السلام کا کہنا ماناکرو اور اللہ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے
۔ ([46])
اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے
کا حکم منسوخ ہوگیا۔
۵:{ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا
قَلِيلًا} [المزمل : 2]
"اے مزّمل( نبیﷺ) رات کو تہجد میں کھڑے رہئے،مگر تھوڑا سا حصہ
،آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دیجیے"۔
ان آیات میں رات کے کم از کم
آدھےحصہ میں تہجد کا حکم تھا جو بعد میں سورہ مز ّمل کی آیت نمبر ۲۰ سے منسوخ
ہوگیا،آیت یہ ہے،
{ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ
فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ }الخ [المزمل : 20]
اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ تم اس
(تقدیر وقت ) کو ضبط نہیں کرسکتے تو اس نے تمہارے حال پر عنایت کی سو (اب ) تم لوگ
جتنا قرآن آسانی سے پڑھاجاسکے پڑھ لیا کرو ۔([47])
نتائج:
اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
آیات قرآنی میں نسخ کا وجود ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ نسخ کلام اللہ میں کوئی عیب
نہیں بلکہ ایک شرعی ضرورت ہے جواللہ تعالی
کی حکمت بالغہ کے تحت کلام اللہ میں وقوع پذیر ہوئی کلام الہی میں اس نسخ سے کوئی
تحریف اور تغیرلازم نہیں آتا کیونکہ "نسخ" کی یہ تمام صورتیں آنحضرتﷺ
کے زمانے میں مصلحتِ الہی سے ہوا کرتی تھیں اور آپ ﷺکے بعد قرآن پاک میں ایک حرف
کی کمی بیشی ظہور میں نہیں آئی۔اور نا ہی
انسانی عمل کا اس میں کوئی دخل ہو سکتا ہےکیونکہ قرآن ایک محفوظ
کتاب ہےجسکی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے ۔(واللہ اعلم)
تجاویز :
مندرجہ بالا بحث سے علم ناسخ و منسوخ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اسی اہمیت کے پیش نظر موجودہ دور کے علماء کرام
کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے
متقدمین اور متأخرین علماء کی
تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے علوم القرآن کی تعلیم وتعلم کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ اس میدان میں مزید تحقیق سے علم کے درخشاں باب کھل سکے اور معترضین کے
اعتراضات کی صورت میں مدلل انداز میں
اپنےعقائد، نظریات اور مؤقف کا کامیابی
سےدفاع کر سکے۔نئی نسل جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے دین سے وابستہ علوم میں مہارت
حاصل کر کے علم کے اس عظیم ورثے کو محفوظ بنا کرآگے منتقل کرنے کی کوشش
کریں اور تحقیق کے شعبے میں نئی طرز فکر
اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار
لاتے ہوئے قرآن سے وابستہ علوم کی خدمت میں اپنےکردار کو ممکن بنا سکیں۔
حواشی اور حوالہ جات:
[1]
۔ الناسخ والمنسوخ فی القرآن العزیز وما فیہ من الفرائض و
السنن،ابو عبیدالقاسم بن سلام بن عبد اللہ
الھروی البغدادی (التوفی:۲۲۴ھ): ص:۴) الناشر :مکتبہ شرکۃ الریاض۔الریاضالطبعۃ:الثانیۃ۔نیز البرھان،ص347
[2]
۔ تفسير الطبري = جامع البيان ت
شاكر - (5 / 576)
[3]
۔القاموس
الوحید،مولاناوحید الزماںقاسمی کیرانوی رحمۃاللہ علیہ، باب
النّون۔ص۱۲۹۶۔پبلشرز،ادارہ اسلامیات۔اشاعت اول،جمادی الثانی۱۴۴۰ھ،۲۰۱۹ء۔
[4]۔البرھان فی علوم القرآن
،الامام بدرالدین محمدبن عبداللہ الزرکشی (۷۹۴۔۷۴۵)ص۳۴۷۔
سنۃ الطبع،۲۰۰۶۔۱۴۲۷۔الاتقان فی علام القرآن،علامہ جلال الدین
سیوطیؒ،(متوفی:1505ء) النوع السابع
والاربعون،فی ناسخہ ومنسوخہ،ص۴۶۲۔ تیسیر مصطلح الحدیث ،الدکتور محمود الطحان
،ص64،مکتبہ رحمانیہ۔
[5]۔الاتقان فی علوم القرآن،علامہ جلال الدین سیوطیؒ،ص۴۶۲۔
البرھان فی علوم القرآن ،ص۳۴۷
[6]۔ البرھان فی علوم القرآن
،ص۳۴۷ ۔ الاتقان فی علوم القرآن،علامہ جلال الدین سیوطیؒ،ص۴۶۲۔
[7]۔الاتقان فی علوم القرآن،علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
،ص۴۶۲۔ البرھان فی علوم القرآن ،ص۳۴۷
[8]۔ تفسیرالقرآن العظیم(تفسیر ابن کثیر ) ،اسماعیل بن عمر بن کثیر
القرشی الدمشقی ابو الفداء عماد الدین ابن
کثیررحمۃ اللہ علیہ ،ج۱۔ص۳۷۵۔الناشر
دارطیبہ۔سنۃ النشر۱۴۲۰۔۱۹۹۹،عدد مجلدات:
۸۔
تیسیر مصطلح الحدیث ،الدکتور محمود الطحان ، ص64،مکتبہ رحمانیہ۔
[9]
۔ البرھان فی علوم القرآن ،ص،۱۴۸۔اساس البلاغہ،ص۴۵۴
[10]
۔تفسیرالقرآن
العظیم(تفسیر ابن کثیر ) ،اسماعیل بن عمر
بن کثیر القرشی الدمشقی ابو الفداء عماد
الدین ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ ،ج۱۔ص۳۷۶۔الناشر دارطیبہ۔سنۃ النشر۱۴۲۰۔۱۹۹۹،عدد مجلدات:۸
[11]
۔فتح المغیث
للعراقی،ص۳۳۰،فتح المغیث للسخاوی ،ج۴۔ص۴۶۔تقریب النواوی مع تدریب،ج۲۔ص۱۹۱۔مقدمہ
ابن الصلاح،ص۲۳۹۔التقید والایضاح للعراقی،ص۲۳۹۔نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃالفکر، امام الحافظ احمدبن علی بن
محمدبن حجر العسقلانی ،(773۔852ھ)ص73۔الطبعہ،1432ھ/2011ء۔مکتبہ البشری کراچی
پاکستان۔ تیسیر مصطلح الحدیث ،الدکتور محمود اللطحان ،ص64۔مکتبہ رحمانیہ۔
[12]۔فتح المغیث بشرح ألفیۃ
الحدیث،محمد بن عبدالرحمن السخاوی ج۴۔ص۴۷۔۴۶۔مکتبہ،دارالمنہاج سعودیہ الریاض۔
[13]
۔فتح الباری
لابن حجر،ج۵۔ص۲۸۱
[14]
۔نفس
مصدر،ج۱۳۔ص۴۸۶
[15]
۔الاحکام الآمدی فی
اصول الأحکام للامدی،
ابوالحسن زین الدین آمدی رحمۃ اللہ علیہ،(۷۱۲ھ۔۱۳۱۲ء)ج۳۔ص۱۵۵۔مکتبہ
الاسلامی،بیروت۔دمشق۔لبنان۔۱۴نوفمبر ۲۰۱۰۔
[16]
۔الاحکام لابن
حزم،ج۴۔ص۵۹
[17]
۔فصول
ابدائع فی اصول الشرائع،ج۲۔ص۱۰۔۹۔طبع
استنبول۱۲۸۹ھ۔
[18]
۔احکام
القرآن للجصاص،ج۱۔ص۹۷۔طبع قسطنطنیہ۱۳۳۸ھ۔
[19]
۔ نفس
مصدر،ج۱۔تفسیر سورۃالبقر ہ آیت ۱۔۸
[20]
۔فتح المغیث
للسخاوی،ج۴۔ص۴۵
[21]
۔اعلام
الموقعین،ابن القیم الجوزی،ج۱۔ص۲۹
[22]
۔ صحيح البخار - (6 / 19)اخرجہ البخاری فی کتاب التفسیر، باب قولہ تعالی:ما ننسخ من آیۃ او ننسھا نأت بخیر منھا ، رقم ا
لحدیث:۴۲۱۱،و کتاب فضائل القرآن ،باب
القرآء من اصحاب النبی ﷺ،رقم الحدیث :۴۷۱۹
[23]
۔ تفسیرالقرآن العظیم(تفسیر ابن کثیر ) ،اسماعیل بن عمر بن کثیر
القرشی الدمشقی ابو الفداء عماد الدین ابن
کثیررحمۃ اللہ علیہ ،ج۱۔ص۳۷۹
[24]
۔ کشف
الباری عمّا فی صحیح البخاری، کتاب التفسیر
،ص ۲۷
[25]
۔ کمالین/شرح تفسیر جلالین)
ص۱۳۲۔کشف الباری عما فی صحیح البخاری ،کتاب التفسیر،ص۳۰ ۔۳۲
[26]
۔کشف الباری
عمّا فی صحیح البخاری، کتاب التفسیر
ص۲۷۔۲۸۔ نیزدلائل المحققین ترجمہ اعلام الموقعین،المعروف بہ دین
محمدیﷺ،ابوعبداللہ محمدبن ابوبکرالمعروف ابن القیم جوزی (المتوفی،۷۵۱ھ)
ص،۱۷۔مکتبہ،محمدیہ اورنگی ٹاون کراچی۔
[27]
۔علوم
القرآن،مولانا محمد تقی عثمانی۔ص۱۶۲۔مکتبہ دارالعلوم کراچی،طبعہ جدید،ربیع
الثانی۱۴۳۵ھ بمطابق فروری ۲۰۱۴۔
[28]
۔علوم
القرآن،ڈاکٹر صبحی صالح،بیروت،مترجم۔ص۳۷۹،۳۸۰۔طابع،ملک سنز پبلشرز،کارخانہ فیصل
آباد۔۱۹۹۳۔۱۹۹۴
[29]
۔الاتقان فی علوم
القرآن،ص۴۶۴۔البرھان ،ص ۳۵۵
[30]
۔روح المعانی جلد ۲،صفحہ ۸۳۔الاتقان فی علوم القرآن
،ص۴۶۶
[31]
۔ الاتقان فی علوم القرآن ،ص ۴۷۰۔البرھان،ص۳۵۰
[32]۔
جامع
البیان فی تأویل القران تفسیر طبری،محمد بن جریربن زیدکثیربن غالب الآملیی ،ابو
جعفر الطبری (المتوفی :310ھ )تفسیر سورۃالمائدہ،آیت 4,42/157
[33]
۔ الاتقان فی علوم القرآن ،ص ۴۷۰۔
[34]
۔کتاب المحصول أبوعبداللہ محمد بن عمربن الحسن بن الحسین
التمیمی فخر الدین رازی ،ج 3 ص
322,323,324 ۔
[35]
۔کشف الباری
عمّا فی صحیح البخاری،کتاب التفسیر،ص۔۳۰۔۳۲
[36]
۔تفسیرکمالین شرح اردو تفسیر جلالین ۔مولانا محمد ندیم
دیوبندی ،ج ۱۔ص ۱۳،مکتبہ دارالاشاعت،طباعت ایڈیشن جنوری ۲۰۰۸۔مجلدات،۲
[37] ۔(الاتقان،ص۴۶۳)۔(البرھان ص۳۵۰
[38] ۔(الاتقان
ص۴۶۴) (البرھان،ص۳۵۰
[39] ۔البرھان،الزرکشی،ص۳۵۱۔
[40]۔ تفسیرکمالین شرح اردو تفسیر جلالین،ج۱۔ص۱۳۳ ۔الاتقان ص۴۶۴
[41] ۔ الاتقان،علامہ سیوطیؒ،ص۴۶۷
[42] ۔الفوز الکبیرص۴۰۔الفوز الکبیر،شاہ
ولی اللہ دہلوی۔ترجمہ پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری،ص 73،مکتبہ قرآنیات لاہور۔
کشف الباری عمافی صحیح البخاری،کتاب التفسر،ص۲۷،مکتبہ فاروقیہ کراچی پاکستان۔
[43] ۔الفوز الکبیر مترجم،ص۵۸۔۵۹
[44] ۔نفس مصدر ،ص۶۸۔۶۹
[45] ۔ الفوزالکبیر مترجم ،ص۷۱۔۷۲
[46] ۔ نفس مصدر ، ص۷۲
[47]
۔ الفوزالکبیر
مترجم ،ص۷۳
0 Comments