﷽
الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور
انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشہد ان
لا الہ الا اللہ حدہ لا شریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ
فرقہ کا مفہوم:
فرقہ کا لفظ فرق سے بنا ہے
جس کے معنی مختلف یا الگ کرنے یا تمیز کرنے کے ہوتے ہیں، مگر جب بات مذہب کی ہو تو
اس سے مراد اختلاف، قطع یا منحرف کی لی جاتی ہے یعنی کسی ایک مذہب میں اس کے ماننے
والوں میں ایسے گروہ واقع ہونا کہ جن میں آپس میں متعدد یا چند امور یا ارکان یا خیالات
میں (واقعتاً یا مجازاً) اختلاف پایا جاتا ہو اور وہ ایک دوسرے سے انحراف رکھتے ہوں،
اس مذہب کے فرقے کہلاتے ہیں اور یہ عمل فرقہ بندی کہلاتا ہے۔ فرقہ کی جمع ؛ فرقے یا
فرقات کی جاتی ہے اور اس کی ضد، جمع (جماعۃ کی جاتی ہے۔ مذہب اسلام کے ماننے والوں
میں بھی متعدد تاریخی و سیاسی وجوہات کی باعث اپنے خیالات میں ایک دوسرے سے اختلافی
یا افتراقی گروہ پائے جاتے ہیں ۔جن کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے۔
کتاب الفرق بین الفِرق کا مختصر
تعارف:
کتاب میں مصنف نے مخالف فرقوں کے ابطال پر مستند کتاب
اور اس کے علاوہ اور بھی کتب تحریر کی ہیں۔ اختلاف امت کا ذکر اور ان کی کیفیات
اور دیگر فرقوں اور ان کے عقائد اور تاریخ کا جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے اور ان کا رد بھی پیش کیا ہے اور
نقد و جرح بھی کی ہے۔ اس کتاب میں پانچ ابواب ہیں‘ ہر باب میں آگے فصول بھی ہیں۔اور
کتاب اپنے موضوع پر نہایت جامعیت کا مرقع ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ اور شاندار
ہے۔ ہر باب کے آخر میں حواشی کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ کتاب’’ الفرق بین الفرق ‘‘ ابو
منصور عبد القاہربن طاہر بن محمدالبغدادی کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ
شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں
کتب اور بھی ہیں۔
عبد القاہر ابن طاہر کا تعارف:
اس کتاب کے
مصنف عبد القاہر ابن طاہر
متوفی ۴۲۹ ھ، ہیں آپ کے مشہور تلامذہ میں القشیری اور ابو
بکر بیہقی شامل ہیں
ابن منصور عبد القاہر ابن طاہر ابن محمد ابن
عبد للہ التمیمی الشافعی البغدادی عرب ریاضیدان تھا بغداد کا رہنے والا، جو اپنی تصنیف
التکملہ فی الحساب کے لیے مشہور ہے۔ اس میں نظریۂ عدد پر نتائج ہیں اور الخوارزمی کا
کام جو اب گُم ہو چکا ہے، پر حاشیاتی تبصرے ہیں۔ ان تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ نشاط
الثانیہ کے ریاضیدانوں میں 'الخوارزی' بمقابلہ 'گنتاریے ' پر بحث کیا تھی۔ برصغیری
ریاضیدان حساب کے لیے گنتارا کا استعمال کرتے تھے، جبکہ الخوارزمی انگلیوں پر گن کر
حساب کا حامی تھا۔ البغدادی نے نظریہ عدد میں وافر اعداد، کامل اعداد، ناقص اعداد،
مطابقت اعداد اور محبانہ اعداد پر نتائج پیش کیے۔
تصانیف:
· الملل والنحل
· نفي خلق القرآن
· بلوغ المدى من أصول الصدى
· تأويل متشابہ الأخبار
· أصول الدين في علم الكلام
· الإيمان وأصولہ
· التحصيل في أصول الفقہ
· العماد في مواريث العباد
· تفضيل الفقير الصابر على الغني الشاكر
· معيار النظر
· التكملة في الحساب
· رسالة المساحة
کتاب الملل و النحل:
كتاب الملل والنحل) جس کا ترجمہ: فرقوں اور
عقائد کی کتاب بنتا ہے۔ عبدالکریم شہرستانی
کی تقابل ادیان و اسلامی فرقوں کی تاریخ پر مشتمل کتاب ہے۔ جو عربی زبان میں لکھی گئی۔
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصہ میں تمام اسلامی فرقوں (اس دور تک کے ) کے پیدا
ہونے اور ترقی پانے کی تاریخ ہے۔ اس کے ساتھ ان کے اعتقادات اور مسائل نہایت تفصیل
سے لکھے ہیں، دوسرے حصہ میں دیگر مذاہب کی تاریخ لکھی ہے خصوصا حکمائے یونان کا حال
نہایت شرح و بسط سے لکھا گیا ہے۔ ایک ایک یونانی فلسفی کے فلسفہ کا خلاصہ کافی تحقیق
کے ساتھ شامل کتاب ہے۔ جس وجہ سے اسے یورپ میں خاص قدر حاصل ہوئی اور انگریزی و فرانسیسی
زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔
مقالات
الاسلامیین و اختلاف مصلین :
علامہ ابوالحسن اشعری (260۔330ھ)چوتھی صدی ہجری کی جلیل
القدر شخصیت ہیں ۔اور تقریبا یک صد سے زائدکتب کے مصنف ہیں۔زیر نظر کتاب ’’مسلمانوں
کے عقاید وافکار‘‘ علامہ ابو الحسن اشعریکی مایہ ناز کتاب ’’مقالات الاسلا میین‘‘ کاترجمہ
ہے ۔جس میں علامہ ابو الحسن اشعری نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ان تمام عقائد وافکار
کو بغیر کسی تعصب کے بیان کردیا ہ جو صدیوں فکری وکلامی مناظروں کا محور بنے رہے۔ اس
کتاب کے مطالعہ سے جہاں یہ معلوم ہوگاکہ مسلمانوں نے نفسیات،اخلاق اور مادہ وروح کے
بارہ میں کن کن علمی جواہر پاروں کی تخلیق کی ہے وہاں یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آجائے
گی کہ ماضی میں فکر ونظر کی کجی نے کن کن گمراہیوں کوجنم دیا ہے ۔اور ان گمراہیوں کےمقابلہ
میں اسلام نے کس معجزانہ انداز سےاپنے وجود کو قائم اور برقرار رکھا ۔یہ کتاب دو حصوں
پر مشتمل ہے جس کے ترجمے کا کام مولانا محمد حنیف ندوی نے سر انجام دیا۔
چند
مشہور فرقوں کا تعارف اور عقائد:
فرقہ جہہمیہ:
جہمیہ یہ جہم بن
صفوان کے ساتھی ہیں۔
اس فرقے کا بانی جھم بن صفوان تھا ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں
مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔(جمادات کی طرح
کوئی قدرت نہیں رکھتے)ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں
پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے
جو یہودی نبی ﷺ کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات
کا منکر تھا۔ یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن
کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا
توحید ہے۔ جنت و دوزخ میں لوگوں کو داخل کر کے فنا کر دیا جائےگااس کے بعد فقط
اللہ کی ذات باقی رہے گی۔([1])
فرقہ جہمیہ کے عقائد:
فرقہ جہمیہ کے چند اصولی اور بنیادی عقائد کا ذکر کیا جاتا
ہے جو اہل سنت کے عقائد سے الگ ہیں ۔
·
(1) ایمان صرف معرفت قلب کا نام ہے اگر
وہ حاصل ہے تو انکار لسان کے باوجود بندہ کامل الایمان ہے ۔
·
(2) ایمان کے بعد اعمال صالحہ کی کوئی
ضرورت نہیں اور افعال سیۂ سے بھی ایمان متا ثر نہیں ہوتا ۔
·
(3) تمام افعال کا اللہ تعالیٰ ہی خالق
ہے ۔
·
(4) بندہ مجبور محض ہے اسے کوئی اختیار
نہیں ۔
·
(5) کلام اللہ حادث اور مخلوق ہے ۔
·
(6) اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی چیز قدیم
نہیں ۔
·
(7) رؤیت باری تعالیٰ محال اور قطعا نا
ممکن ہے ۔
·
(8) انبیا اور ان کے امتیوں کا ایمان
یکساں اور ایک درجہ کا ہے اس میں کوئی تفاوت نہیں ۔
·
(9) اللہ تعالیٰ کا علم حادث ہے کسی چیز
کے وجود اور اس کی خلقت سے پہلے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا ۔
·
(10) جنت اور جہنم کو ان کے مستحقین کے
داخل ہو نے کے بعد فنا کر دیا جائیگا قرآن کریم وحدیث میں خالدین وغیرہ جیسے الفاظ
کثرت کے معنیٰ میں وارد ہوئی ہیں ۔
·
(11) اللہ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف
کرنا جائز نہیں جو بندوں میں پائی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ جہمیہ نے اللہ تعالیٰ کے
حی اور عالم ہو نے کا انکار کر دیا کیونکہ یہ بندوں کے بھی اوصاف ہیں اور اللہ
تعالیٰ کو صرف فاعل وقادر قراردیا کیونکہ یہ بندوں کے اوصاف نہیں ہیں ۔
·
(12) جہمیہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا
صراحتا انکار کرتے ہیں ۔
·
(13) معتزلہ کی طرح یہ بھی ہر اس غیبی
خارق عادت ثابت شدہ امر کا ناکار کرتے ہیں جو ان کی عقل سے با ہر ہو ۔
(14) باری
تعالیٰ کے لیے تحیز با لمکان کے قائل ہیں۔([2])
علماء کرام کی
رائے:
امام ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں :”جو کوئی یہ کہے کہ اللہ
تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ہے ،یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا ،یا یہ کہے کہ قرآن
اللہ کی طرف نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد
نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے ۔“([3])
جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق
ہیں،وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے
کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علاحدہ
کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔ صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ
اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شے ہے۔
ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں :
جہم کا کہنا تھا :اللہ تعالیٰ کو شے کہنا جائز نہیں،
کیونکہ شے اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو۔ جبکہ تمام
مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں
ہے“۔([4])
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
·
﴿قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً0ۭ قُلِ اللہُ0ۣۙ شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ0ۣ ﴾ (الانعام
:19)
پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی
گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمہارے درمیان میں
گواہ ہے ۔
حقیقت میں جہمیہ کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ
تعالیٰ کی ذات کا انکار ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
تعطیل کرنے والے جہمیہ کاعقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو
فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہ خالق، اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے :
·
﴿ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ
غَيْرِيْ0ۚ﴾(القصص: 38)
·
﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى24ۡۖ ﴾(النٰزعٰت: 24)
فرعون'' جہمیہ کی طرح موسی ؈ کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا، اسی طرح وہ اس بات
کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسیٰ ؈ کا کوئی معبود ہے ۔([5])
اسی لیے جہمیہ کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو اللہ رب
العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے :
ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
”جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار
کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل
ہیں۔ ہر معطل (صفات کا انکار کرنے والا )مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا
ضروری نہیں ہے، جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے ۔“([6])
سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔ یزید بن ہارون کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔([7])
البتہ وہ لوگ
جو جہمی عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں ملت اسلام
سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار 72 گروہوں میں ہوتا ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں:
امام احمد نے جہمیہ
کے (تمام) اعیان کو کافر نہیں کہا، نہ ہر اس شخص کو کافر کہا کہ جس نے یہ کہا کہ
وہ جہمی ہے۔ نہ اسے کہ جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی۔ بلکہ آپ نے
(قرآن کو مخلوق کہنے والے) اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف
بلانے والے ،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو
سخت سزائیں پہنچانے والے تھے۔ آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور
ان کے لیے دعا کرتے تھے۔([8])
فرقہ ما
تریدیہ:
فرقہ ماتریدیہ سرزمیں ماوراء النھرمیں وجود
میں آیا ہے جب ماوراء النھر کو مسلمانوں نے فتح کیا تو اس میں نیم خودمختار حکومتیں
قائم ہوگئیں عباسی حکمران مامون نے بنی اسد بن سامان کو اس سرزمین کے بعض حصوں پر حکومت
کے لۓ
منتخب کیا۔
ماتریدیہ فرقے کا بانی ابومنصور ماتریدیہہے
جس کی پیدائیش 238 ہجری قمری اور وفات 333 ہجری قمری میں ہوئي ابو منصور ذکاوت و نبوغ
و جدل میں کافی مہارت رکھتے تھے انہون نے اپنے فرقے کی تاسیس میں بزرگ اساتذہ سے استفادہ
کیا ہے ان میں محمد بن مقاتل رازی ،ابو نصر عیاضی ،ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی
اور نصیر جن یحی بلخی قابل ذکر ہیں ۔
ابو منصور نے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کرنے کے
علاوہ بہت سے شاگردوں کی تربیت کی ہے ان میں ابوالقاسم حکیم سمرقندی ،علی رستغفنی ،ابو
محمد عبدالکریم بردوی اور احمد عیاضی قابل ذکر ہیں ۔
ابو منصور نے تاویلات قرآن کے بارے میں ایک
تاویلی تفسیر لکھی ہے اور علم کلام میں کتاب التوحید تحریر کی ہے جس میں مختلف فرقوں
کے کلامی آراء کا ذکر کیا ہے ان کی دو اور کتابیں ہیں جس کے نام شرح فقہ الاکبر اور
رسالۃ فی العقیدہ ہے ان کی فقہی کتابوں میں ماخذالشرایع والجدل قابل ذکر ہیں ۔
ماتریدیہ کی مشہورشخصیتیں:
Ø
ابو
یسر بزدوی
Ø
-ابولمعین
نسفی
Ø
-نجم
الدین نسفی
Ø
-نورالدین
صابونی
ماتریدیہ کی کلامی روش کے بارے میں تین قول ہیں ۔
ü
ماتریدیہ
کی روش اشعری کی طرح ہے
ü
-ان
کی روش معتزلہ سے نزدیک ہے
ü
-اشعری
اور معتزلہ کے مابین ہے
ماتریدیہ کے نزدیک عقل و سمع دین و شریعت کے
سمجھنے کے دو اہم منابع ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت حصول نقل سے پہلے عقل
سے ثابت ہوتی ہے اور ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرے
اسی بناپر حسن و قبح عقلی پر بھی یقین رکھتے ہیں ،ان کے دیگر نظریات بطور اختصار حسب
ذیل ہیں ۔
ماتریدیہ اور ابومنصور کا عقیدہ ہےکہ نصوص کو
ان کے حقیقی معنی پر حمل کرنے سے تجسم و تشبیہ لازم آتی ہے بنابریں قرآن و حدیث میں
مجاز کا استعمال ہواہے لھذا تاویل و تفویض ایسے اصول ہیں جن پر ماتریدیہ کے اصول عقائد
استوار ہیں ۔
ماتریدیہ کی نظر میں توحید کی کئي قسمیں ہیں
۔
- توحید در صفات یعنی خدا کی کس صفت میں اس کا
کوئي نظیر نہیں ہے ۔
-توحید در ذات یعنی ذات خداوندی میں کثرت نہیں
ہے ۔
-توحید در افعال یعنی نفی خدا اپنے افعال کی
انجام دہی میں غیر خدا سے تاثیر قبول نہیں کرتا ہے ۔
توحید ربوبی یعنی انسان کے لۓ
خدا کی معرفت فطری معرفت سے مکمل نہیں ہوتی اور اسے صرف عقل سے ہی مکمل کیا جاسکتا
ہے ۔
تکلم خداوند:
خدا کےتکلم پر ماتریدیہ جو دلیل لاتے ہیں وہ
عقلی دلیل ہے جو جسب ذیل ہے ۔
کلام صفات مدح و کمال میں سے ہے اور خدا متعال
حی و قدیم ہے اور اس کے قدم کی شرط میں سے ہے کہ تمام کمالات کا ثبوتا حامل ہو لھذا
اس کا متکلم ہونا ضروری ہے ورنہ اس میں نقص لازم آے گا ۔
نبوت:
اثبات نبوت اور عوام کا اسے قبول کرنا نبی کی
طرف سے معجزہ پیش کۓ
جانے پر اور اس کی طرف سے چلینج قبول کرنے پر منحصرہے ماتریدیہ کے نزدیک اولیاء کی
کرامات بھی یہی حکم رکھتی ہیں
۔
قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کے کلامی فرقوں میں
ماتریدیہ کلام شیعہ سے سب سے زیادہ نزدیک ہے اوراس وقت مذھب اشعری کے بعد اہل سنت کا
دوسرا کلامی مکتب ہے اور اہل سنت کی ایک بڑی تعداد بالخصوص مذھب حنفی کے پیرو کلام
ماتریدی کی اتباع کرتے ہیں ۔([9])
اشاعرہفرقہ:
ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا
ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے
شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات
سیکھے ۔ اپنے علم میں غوروفکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان
پر تنقید کی ۔
ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کے کلامی نظریات
کے ماننے والوں کو اشاعرہ کہا جاتا ہے، اشعریوں کی پیدائش کی جب تحقیق کرتے ہیں تو
معلوم ہوتا ہے کہ اس میں معتزلہ کا سب سے بڑا دخل رہا ہے ، چونکہ معتزلہ نے حقیقت کو
کشف کرنے میں تغیر و تبدل کو ملاک قرار دیدیا تھا اس کے علاوہ ان کے فقہاء اور محدثین
کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوگئے تھے اور اس طرح ان کے درمیان اشعریوں کا ایک نیا
فرقہ بن گیا ۔
سنتی عقاید کے لئے عقلی دلیل قائم کرنے کو اشاعرہ
قبول کرتے تھے اور تیسری صدی کے آخر میں مندرجہ ذیل تین علماء نے اس روش پر بہت زیادہ
کام کیا ۔
۔ بغداد میں ابوالحسن اشعری ۔
۔ مصر میں طحاوی ۳۳۱ م۔
۔
سمرقند میں ابومنصور ماتریدی ۳۳۳ م۔
اگر چہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا لیکن
ان سب میں جو چیز مشترک تھی وہ معتزلہ کا مقابلہ تھا ۔
ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا
ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے
شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات
سیکھے ۔ اپنے علم میں غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان
پر تنقید کی ۔ ان کے پہلے عقاید میں سے کچھ عقیدے مندرجہ ذیل ہیں :
خلق قرآن (قرآن کریم کا مخلوق ہونا) ، خدا کا
دکھائی نہ دینا، خداوند عالم کی طرف شرور کی نسبت دینے سے پرہیزکرنا وغیرہ۔ کتاب ”الابانة
میں اشعری نے معتزلہ پر بہت زیادہ تنقید کی ہے ،اس کتاب میں معتزلہ کو قرآن کی تاویل
کرنے والا بیان کیا ہے اور اپنے متعلق کہا ہے کہ ہم قرآن کریم ، سنت نبوی اور احمدبن
حنبل کے طور طریقہ پر چلتے ہیں ۔ ابن عساکر نے ان کی ۹۸ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن
میں سے چار کتابیں بہت زیادہ مشہور ہیں :
۔ اللمع فی الرد ع لی اھل الزیغ والبدع
۔ الابانة فی اصول الدیانة۔
۔ استحسان الخوض فی علم الکلام ۔
۔ مقالات الاسلامیین و اختلاف مصلین ۔
شروع کی تین کتابیں علم کلام اور چوتھی کتاب
علم فرق کے بارے میں لکھی ہیں ۔
اشعری کے نظریات:
اشعری نے عقلی اور نقلی روش کو معتدل روش کے
عنوان سے انتخاب کیا ، مثلا وہ توحید کے مسئلہ میں ذات پر صفات کے زائد ہونے کے قائل
تھے اور ان کے نظریات میں میانہ روی پائی جاتی تھی ۔ اشاعرہ ، وجود خدا کو تین طریقوں
سے ثابت کرتے ہیں : روش نقلی، روش عقلی اور گذشتہ صوفی علماء کی روش(جیسے غزالی اور
فخر الدین رازی) ۔فخر الدین رازی کے نظریہ کی بنیاد پر اشاعرہ خدا وند عالم کے وجود
کے اثبات کے لئے دو فلسفی دلیلیں یعنی برہان امکان اجسام (ذوات) اور برہان امکان اعراض
(صفات) اور دو کلامی دلیلیں یعنی برہان اجسام اور برہان اعراض سے استفادہ کرتے ہیں
۔خداوند عالم کی شناخت کے سلسلہ میں بعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ ممکن امر نہیں ہے
(جوینی اور غزالی) اور دوسرے بعض لوگ جیسے باقلانی وغیرہ اس کے ممکن ہونے کے قائل ہیں
۔
صفات خدا وند :
خداوند عالم کے صفات یا ثبوتی ہیں یا سلبی ہیں
یا انسانوں کے صفات (جیسے آنکھ اور ہاتھ) کی طرح ہیں ۔ اشعریوں کا عقیدہ ہے کہ آخری
صفات کو بلاکیف (بغیر کیفیت )کی صورت میں قبول کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کی ماہیت ہمارے
لئے معین نہیں ہے ۔
جبر و اختیار :
اس مسئلہ میں اشاعرہ نے دونوں پہلو یعنی قضا
و قدر الہی کی رعایت کی ہے اور اختیار انسان یعنی ”نظریہ کسب“ کو جو کہ ایک قرآن لفظ
ہے ، انتخاب کیا ہے اور خود اشعری کی تفسیر یہ ہے : قدرت کی دو قسمیں ہیں۔
۔ قدرت قدیم جو کہ خدا وندعالم سے مخصوص ہے
۔اور مخلوق میں فعل موثر ہے ۔
۔ قدرت حادث جو کہ بندوں سے مخصوص ہے اور اس
کا فائدہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے اندر آزادی کا احساس کرتا ہے ، لہذا کسب فعل یعنی
مخلوق کا فعل قدرت کے خلق کے ساتھ انسان میں حادث ہوتا ہے اگر چہ اشعری خود کسب کو
بھی خدا کی مخلوق جانتے ہیں اوران کا عقیدہ ہے : جو فعل کو کسب کرتا ہے وہ ایسی
جگہ ہے جہاں پر خداوند عالم فعل کو محقق کرتا ہے اور کسب کرنے والا ایک وسیلہ کے ذریعہ
عمل کرتا ہے ۔
حسن وقبح فعل :
اشعری نے حسن و قبح کے تین مختلف معنی بیان
کرنے کے بعد تیسرے معنی کو صحیح تسلیم کیا ہے ، یہ تین معنی یہ ہیں :
۱۔ کمال اور نقص ۔ ۲۔ مصلحت اور مفسدہ ۔ ۳۔
مدح و ذم کا مستحق ہونا ۔ کوئی بھی فعل اپنے آپ مدح اور ذم کا اقتضاء نہیں کرتا اور
صرف شارع کی امر و نہی کے ذریعہ ایسی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
جہان شناسی :
الف : جہان کی بناوٹ ۔
اشاعرہ کا عقیدہ ذرہ گرائی(جوہر فرد) کے نظریہ
کو قبول کرتا ہے ، اشاعرہ کو اس نظریہ کی روشنی میں یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ حدوث
جہان کے راستہ سے خداوند عالم کی ذات کوصرف ذات قدیم کے عنوان سے ثابت کریں ۔
ب : جہان کا محکم و استوار نہ ہونا ۔
اشاعرہ دنیا کی ناپائداری کو اس طرح بیان کرتے
ہیں کہ جس سے اعراض کو ناپائدار اور جوہر کو باقی رہنے والا جانتے ہیں ۔ اس نظریہ کو
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اشاعرہ اس کے ذریعہ خداوند عالم کی ذات کو قدیم اور اس
دنیا میں اس کے ہمیشہ موثر ہونے کو ثابت کرتے ہیں ۔
انسا
ن شناسی
:
اس میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں :
الف : انسان کی حقیقت جوہر جسمانی ہے (جوینی )
ب : انسان ایک روحانی حقیقت ہے (باقلانی)۔
مذہب اشعری کے بزرگ علماء:
اس سلسلہ میں کتاب ”التمہید“ کے مولف ابوبکر باقلانی کا نام لیا جاسکتا ہے ، اس مذہب کے دوسرے علماء غزالی، امام الحرمین جوینی، بیضاوی، سید شریف جرجانی وغیرہ ہیں ۔
اس مقالہ کے آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس
کلامی فرقہ نے مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اثر چھوڑا ہے ، اگر چہ خود ان کے زمانہ میں
اشعری کا ستارہ زیادہ نہ چمک سکا ، در واقع دوسرے مذاہب کی مخالفت اور اہل حدیث سے
بحث و مجادلہ کی وجہ سے یہ مذہب بالکل مہجور ہوگیا ، لیکن بعد میں خصوصا امام الحرمین
جوینی کے بعد اور خواجہ نظام الملک طوسی کے زمانہ میں سلجوقیوں کی حمایت کی وجہ سے
اہل سنت والجماعت میں کلامی نظریات پر اشعری گری کو غالب حاصل ہوگیا اور آج بھی پوری
دنیا میں اکثر اہل سنت مسلمان خصوصا شافعی اور حنفیوں کی ایک کثیر تعداد کلامی لحاظ
سے اشعری مذہب کی پیروی کرتے ہیں ۔
[1] ۔ خزائن التعریفات، محمد انس رضا قادری، صفحہ 124،والضحیٰ پبلیکیشنز لاہور
[2] ۔فرقہ جہمیہ ، الغزالی۔
[3] ۔مجموع
الفتاوی:3/99
[4] ۔مقالات
الاسلامیین 1/259
[5] ۔ مجموع
الفتاوی13/185
[6] ۔درء التعارض 10/288،289
[7] ۔الرد علی الجہمیۃ :111
[8] ۔ مجموع الفتاویٰ: 507,508/7
[9] ۔ الماتریدیہ دراسۃ وتقویما
ڈاکٹر احمد بن عوض اللہ الحربی، آراء ابن منصور الماتریدیہ
الکلامیہ القاسم بن حسن، ابکار والافکار الآمدی،- - تاویلات اہل السنۃ
لابی منصور الماتریدی، رسالۃ فی الخلاف بین اشاعرہ
والماتریدیہ محمد بن محمد بن شرف الخلیلی۔
0 Comments