﷽
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصرتعارف:
علامہ ذہبیؒ کا پورا نام حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد
بن عثمان بن قايماز ذہبی دمشقی ترکمانی شافعی ہے،امام ذہبی کی پیدائش ربیع الثانی
۶۷۳ھ مطابق 5 اکتوبر ۱۲۷۴ء و کفربطنا، دمشق میں ہوئی۔ شام میں تعلیم حاصل کی اور
ساری عمر تصنیف و تالیف میں گزاری۔ بلند پایہ مورخین اور محدثین میں شمار ہوتے ہیں
اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ دمشق اور قاہرہ میں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام
دیے۔ امام ذہبی ؒ
۳ذوالقعد ۃ ۷۴۸ھ ۱۳۴۸ء کو انتقال کر گئے اور دمشق میں دفن ہیں۔([1])
علامہ ذہبی رحمۃاللہ
علیہ نےبہت ساری کتابیں تصنیف فرمائی ہیں یہاں تک کہ آپ کی کتب کی تعداد سو تک
پہنچتی ہے۔جن میں سے چند ایک مشہور کتابیں درجہ ذیل ہیں۔
1۔تذکرۃ الحفاظ
2۔ سیراعلام النبلاء
3۔ تاریخ اسلام
4۔ میزان الاعتدال فی نقدالرجال
5۔طبقات الحفاظ
6۔المثبت فی
الاسماءوالرجال
7۔نباء الرجال
8۔ طبقات القراء
9۔اختصارسنن البیھقی
10۔المستحلی
اختصارالمحلی ،
اساتذہ کرام:
آپ نے بڑے
بڑے علماء سے تحصیلِ علم کی جن میں قابلِ ذکرعلامہ ابن دقیق العید([2])،امام
ابن تیمیہ([3]) علامہ یوسف بن عبد الرحمن المزی([4])،
اورعلامہ علم الدین البرزالی([5])ہیں۔
یہاں
امام ذہبی کی چند تصانیف کا مختصر
جائزہ پیش خدمت ہے۔
v
کتاب سیر اعلام النبلاء
:
سیر اعلام النبلاء علم اسماء
الرجال اور تراجم پر مشہور و معروف شخصیت
امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبی کی تصنیف ہے۔
ا
س کتا
ب کے نام
میں کافی اختلاف ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :
تاريخ العلماء النبلاء۔
تاريخ النبلاء۔
كتاب النبلاء۔
اعيان النبلاء۔
سير النبلاء۔
سير أعلام النبلاء : یہ مشہور
و معروف نام خود امام ذہبی نے بھی استعمال کیا۔
سير أعلام النبلاءکی
خصوصیات:
یہ کتاب صحابہ و تابعین کے
حالات کاانسائکلوپیڈیا اور بنیادی ماخذ ہے۔
یہ کتاب علما،امرا،حفاظ،قراء،فضلاء
اورہر فن کے اکابرین کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔
امام ذہبی نے اپنی کتاب تاريخ
الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام سے نکالی ہوئی ایک کتاب ہے۔
انہوں نے تاریخ اسلام سے تاریخی
حوادث کو چھوڑ دیا ،اور اکابرین کے حالات اور اموات پر مشتمل حالات کو سیر اعلام النبلاء
میں رکھا۔
اس کتاب کی اشاعت 25جلدوں
میں مکمل ہوئی، جس میں تاریخ اسلام کا نصف حصہ شامل ہے اور انہوں نے اپنی اس کتاب کچھ
اور اضافے کیے ،۔
اس کتاب میں 732ھ تک کے قابل
ذکر لوگوں کے حالات شامل ہیں۔
اس میں کتاب کو طبقات میں
تقسیم کیا گیا اور 40 طبقات شامل کتاب ہیں۔
([6])
v
کتاب تاریخ
اسلام ووفیات المشاہیر والاعلام:
تاریخِ
اسلام علامۃ شمس الدین الذہبی ؒ کی شہرہ
آفاق تصنیف ہے،یہ کتاب دوسرے تاریخی کتابوں اورتراجم کے مقابلے میں بہت ضخیم
ہے،جو53 جلدوں پر مشتمل ہیں۔اس کتاب کو آپ نے۷۰
طبقات میں تقسیم کیا ہے۔
یہ
انتہائی مفید کتاب ہے،جس میں اسلام کے ابتداء سے لیکر ۷۰۰ ھ تک تما م صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم تابعین ،تبع تابعین ،علماء کرام ،قراء،زاہد،عابد،صوفیاء کرام ،خلفاء
،سلاطین ،وزراء،نحویین ،صرفیین ،ان کے طبقات ، شیوخ اور ان کے حالات تفصیل کیساتھ
مذکورہیں۔
اسلامی
دنیا میں جتنے حالات وحوادث وقوع پذیر ہوئے،مسلمانوں کی کفار ومشرکین اوریہود ونصاری کیساتھ لڑی گئی جنگیں ہو
یامسلمانوں کی آپس میں جتنی تنارعات آئی ہو،ان سب کوعلامہ ذہبی نے تاریخ اسلام میں
قلم بند کرلیاہے۔
تاریخ
اسلام کی خصوصیات:
۱۔اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ اور تراجم دونوں ایک ساتھ
مذکورہیں،جب کی دوسری کتابوں میں یاتوتاریخ ہوتی ہے یاتراجم ہوتی ہے۔
۲۔دوسری
خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ اورتراجم سنین ِوفات کے اعتبارسےمذکور ہے،اس میں علامہ ذہبی نے حوادث اور وفیات کوجمع
کردیا ہے۔
۳۔دوسری
تاریخ وتراجم کی کتابوں میں اور اس کتاب میں ایک فرق یہ ہے کہ علامہ ذہبی نے اس
کتاب میں ایسے حضرات کے تراجم ذکر کئے ہیں جن کاتذکرہ دوسری تاریخ کی کتابوں میں
نہیں ملتا۔
۴۔اس
کتاب کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں صحابہ
،تابعین اورتبع تابعین کی جو روایات صحاح کی کتابوں میں موجود ہے اس کی طرف علامہ
ذہبی خاص رموز کے ساتھ اشارہ بھی کرتے ہیں یہ بات دوسری تاریخ کی کتابوں میں
موجودنہیں ہے۔
تاریخ
الاسلام میں علام ذہبیؒ کا منہج:
۱۔علامہ
ذہبیؒ کسی صاحبِ ترجمہ کے تعارف اورتاریخ وفات لکھنے سے پہلے وہ حالات اور واقعات
بیان کرتے ہیں جن میں صاحب ترجمہ نے حصہ لیاہو اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے ترجمہ سے پہلے اول جلد میں صرف مغازی ذکرکئے ہے۔
۲۔تاریخ
اسلام کے ابتدائی جلدوں میں اَعلام کا تذکرہ بہت کم ہے جس کے بارے میں خود علامہ
ذہبیؒ رقمطراز ہے کہ ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اس وجہ سے دوسرے
زمانوں کے مقابلے میں ابتداء میں مرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور علامہ موصوف
تو چونکہ وفیات کے اعتبار سے اعلام ذکر
کرتے ہیں اسلئے ابتداء میں اعلام بہت کم ہے۔
۳۔مزیدلکھتے
ہیں کہ میں اپنے اس کتاب میں صرف مشہور لوگوں کو ہی ذکر کروںگا غیر مشہور اور
مجہول لوگوں کو ذکرنہیں کروں گا۔اور صرف ان کے بڑے واقعات کی طرف اشارہ کروںگا
ورنہ تو یہ کتاب سینکڑوں جلدوں میں بھی مشکل سے سماسکےگی ،بلکہ اس کتاب میں ایسے
سینکڑوں لوگ موجود ہے کہ جن کے حالات الگ سے پچاسیوں صفحات پر مشتمل ہوگی۔
تاریخ
اسلام میں تراجم تلاش کرنے کا طریقہ:
اس کتاب میں علامہ شمس الدین ذہبیؒ نےاسماء
الرجال کو مختلف طبقات میں تقسیم
کیاہے،پھر ہرطبقہ میں پہلے حوادث اور وفیات ذکر کرتےہیں،اس کے بعد ہرہر طبقہ میں
حروفِ تہجی کے اعتبار سے رجال کی تاریخ ِ ولادت ،تاریخ ِ وفات مکمل تعارف ،شیوخ ،
تلامذہ ،تصانیف اور خدمات ذکرکرتےہیں،اور
پورے کتاب کوتاریخِ وفات کے اعتبار سے
مرتب کیا ہے۔
لھٰذا اگرتاریخ ِاسلام میں کسی
کا ترجمہ وحالات تلاش کرنا ہو تو اِس
کیلئےاُس صاحب کاتاریخ وفات معلوم کرنا ہوگا،تاریخ معلوم کرنے کے بعد آپ تاریخ
ِاسلام کاکوئی بھی جلد کھولے تو پہلے صفحہ پرلکھاہوگا "حوادث ووفیات فلاں ہجری ۔تافلاں ہجری"مثلاًہم نے امام
ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی ؒکے حالات معلوم کرنے ہیں ،اور امام ترمذی
کی تاریخِ وفات ۲۷۹ھ ہے،اس کے لئے ہم نے
تاریخِ اسلام جلد نمبر ۲۰ کھولا تو پہلے
صفحہ پر لکھا ہے"حوادث ووفیات۲۶۱۔۲۷۰ھ
اور۲۷۱۔ ۲۸۰ھ"
طبقہ نمبر۲۸میں ص ۴۵۹ پر امام
ترمذی ؒ کے حالات مذکورہیں۔
اس کے علاوہ ہر جلد کے آخر میں
الفہارس ہے،جس میں اُ س جلدکےآیات ،احادیث ،اماکن ،علماء فقہاء
،زہاد،صوفیاء،وزراءاورسلاطین وغیرھاکے فہارس ہوتے ہیں،جس کے ذریعے آسانی سے آپ
اپنے مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔
تاریخ اسلام میں مندرجہ ذیل
کتب سے استفادہ کیا گیا ہے:
علامہ شمس الدین ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کتا
ب کو لکھنے کے لئے میں نے بہت ساری کتابوں کا مُطالعہ اوران سے استفادہ کیا ہے،جن
میں چند کتابیں درج ذیل ہے۔([7])
· سیرۃ النبی لابن اسحاق
· دلائل النبوۃ للبیھقی
· معاذیہ لابن عائذ
· تاریخ ابی بکرابن ابی حیثمہ
· تاریخ ابوعبداللہ البخاری
· تاریخ یعقوب الفسوی
· تاریخ ابی حفص بن الغیاث
· تاریخ محمدبن المثنی العنزی
· تاریخ ابی بکربن شیبہ
· تاریخ واقدی
· تاریخ ھیثم بن عدی
· تاریخ خلیفۃبن خیاط
· طبقات خلیفۃبن خیاط
·
کتاب
النسب لزبیربن بکار
· تاریخ ابی الدمشقی
· الفتوح
لسیف بن عمر۔
v کتاب تذکرۃ الحفاظ:
تذکرۃ الحفاظ اما م ذہبی کی
علم اسماء الرجال پر بہت ہی مستند کتاب ہے۔
یہ کتاب چار ضخیم جلدوں
میں ہے یہ صحابہ سے لے کر اپنے دور تک کے حفّاظِ حدیث([8])
کا تذکرہ ہے، دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
یہ حاملانِ علمِ نبوی کی
عدالت بیان کرنے والوں کا تذکرہ ہے، جن کے اجتہاد پر توثیق و تضعیف اور تصحیح میں
رجوع کیا جاتا ہے۔
امام ذہبی نے نے تمام
کتاب میں اس اصول کو ملحوظ رکھا ہے اور کسی ایسے شخص کا ترجمہ نہیں لکھا کہ جو
حدیث کا حافظ نہ شمار کیا جاتا ہو۔ چنانچہ علامہ ابنِ قتیبہ کے متعلق جو لغت
وعربیت کے مشہور امام ہیں اور علمِ حدیث میں بھی ان کی بعض تصانیف موجود ہیں، یہ
لکھتے ہیں:
ابنِ قتیبہ علم کا مخزن
ہیں، لیکن حدیث میں ان کا نام تھوڑا ہے اس لیے میں نے ان کو ذکر نہ…
ذکر نہیں کیا۔
اور خارجہ بن زید بن ثابت
اگرچہ فقہائے سبعہ میں شمار کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے متعلق بھی صاف تصریح کردی ہے
کہ چونکہ وہ قلیل الحدیث تھے اس لیے میں نے ان کو حفّاظِ حدیث میں شمار نہیں کیا۔
اسی طرح ان لوگوں کا
تذکرہ بھی اس کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ جو اگرچہ حدیث کے حافظ تھے، مگر محدثین کے
نزیک متروک الروایہ خیال کیے جاتے تھے۔
اور واقدی کے بارے میں
لکھتے ہیں:
حدیث کے حافظ اور سمندر
تھے، میں ان کا ترجمہ یہاں اس لیے نہیں لایا کہ محدثین ان کی حدیث کو ترک کرنے پر
متفق ہیں۔ یہ علم کا مخزن تھے، لیکن حدیث میں پختگی نہیں رکھتے تھے۔ اور مغازی
وسیر کے تو یہ سر آمد عُلما میں سے ہیں، مگر ہر قسم کے لوگوں سے روایت لے لیتے
ہیں۔
اس کی مزید تشریحات بھی
لکھی گئیں ہیں۔
ذیل تذکرۃ الحفاظ:
حافظ ابوالمحاسن حسینی
دمشقی المتوفی 765ھ۔ یہ حافظ ذہبی کی مذکورہ کتاب کا ذیل ہے اور اس میں ان حفّاظِ
حدیث کا تذکرہ ہے کہ جن کا ذکر ذہبی سے رہ گیا ہے۔ یہ کتاب دمشق میں طبع ہو کر
شائع ہوچکی ہے۔
نظم تذکرۃ الحفاظ:
حافظ اسماعیل بن محمد المعروف
بہ ابن بردس المتوفی 786ھ۔ اس کتاب کا ذکر حافظ ابن فہد نے علامہ ذہبی کی تذکرۃ
الحفاظ پر جو ذیل لکھا ہے اس میں کیا ہے، ابن بروس نے اس کتاب میں حافظ ذہبی کی
مذکورہ کتاب کو نظم کر دیا ہے۔([9])
حواشی اور حوالہ جات:
1۔تاریخ اسلام
ووفیات المشاھیر والاعلام ج1 ص21 مکتبہ دار الکتب العربی۔ الاعلام لخیر الدین
الزرکلی (ج 5 ،ص326)مکتبہ دارالعلم للملایین
سنہ1986۔
2۔محمد
بن علی بن وہب بن مطیع، أبو الفتح، تقیّ الدین القشیری المعروف بابن دقیق
العید(المتوفی۷۰۲ھ)،امام ، مجتہد ، اصولی ،
دقیقہ سنجی و نکتہ شناسی میں اپنی نظیر آپ ہیں، کئی کتابوں کے موٴلف ہیں جن
میں:إحکام الأحکام ،الإلمام بأحادیث الأحکام، الإمام فی شرح الإلمام ، الاقتراح فی
بیان الاصطلاح معروف ہیں۔( الاعلام لخیر الدین الزرکلی ج6 ،ص283)۔
3۔ علامہ ابن تیمہ کا اصل نام
احمد، کنیت ابو العباس اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں 621ھ میں پیداہوئے فوات الوفیات میں آپ کى کتابوں کی تعداد
تین سو مجلد منقول ہے۔ ان میں سے آپ کا ایک مبسوط فتاوى، الجوامع، السیاسۃ
الشرعیۃ، الجمع بین العقل والنقل، الصارم المسلول على شاتم الرسول، رفع الملام عن
الأئمۃالأعلام، مجموعۃالرسائل والمسائل بھی ہیں(الاعلام ج4،ص6)
4۔ علامہ
یوسف بن عبد الرحمن المزی 654ھ دمشق میں پیداہوئے،بہت بڑے امام ،علامہ،
محدث،مورخ،ناقد اور محقق تھے،آپ نے تہذیب الکمال فی
اسماء الرجال 35 جلدوں میں اور الاطراف
تصنیف کی ۔(کتاب طبقات الشافعیہ لابن القاضی شھبہ ج3 ،ص75)۔
5۔ علامہ علم الدین البرزالی665ھ میں
ولادت اور739ھ میں وفات ہوئی ہے،بہت بڑے عالم ،محدث اور مورخ گزرےہے(سیر اعلام
النبلاء ج17، ص585 مکتبۃ التوفیقیۃ)
[6]
۔ سير
اعلام النبلاء:مؤلف: شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
ناشر: دار الحديث- القاهرة)
[8]
۔احادیث کی کتب کے
حافظ کو حافظ احادیث کہا جاتا ہے۔ علم حدیث میں 500،000 احادیث حفظ کرنے والوں کو
حافظ کہا جاتا ہے۔ اصطلاح حدیث کے مطابق وہ محدث جو ایک لاکھ احادیث کی اسانید
ومتون کا عالم ہو اسے حافظ الحدیث کہا جاتا ہے (نصاب اصول حدیث،مکتبۃ المد ینہ باب
المدینہ)
[9]
۔
امام ابنِ ماجہ اور علمِ حدیث،عبد الرشید نعمانی المیزان اردو بازار لاہور
0 Comments