بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
الّٰلھمَّ ارنیِ الحق حقّا وّارزقنیِ اِتّباعہ وارنیِ الباطل باطلا وّرزُقنِی اجتنابہ
ربِ یسّر ولا تعسّر وتمّم بالخیر،یا ارحم الرّاحمینَ، ربَّنا تقبّل منّا انّک انتَ السّمیعُ العلیمُ
امّابعد!
سورۃ النسآءمدنی ہے اسمیں ایک سو چہتر(۱۷۶)آیات اور
چوبیس(۲۴) رکوع ہیں۔اس میں عورتوں کے حل ،حرمت،نکاح ،طلاق،ؑعدت،حق مہر،توریث وغیرہ
کے احکامات کا بیان ہے اس لئے اس کا نام سورہ نسآءرکھا گیا ہے۔نسآء نسوۃ کی جمع
ہے بمعنی عورت۔
حرف آغاز!
یوں تو قرآن کی ہر ہر آیت اپنے اندرایک وسیع مفہوم سموئےہوئے ہیں جس کی حقیقت تک رسائی کےلئے عمیق غور اور گہرے مطالعے کی ضرورت ہے یہاں ان سب کا احاطہ تو ممکن نہیں لیکن اس سورت سے آیات احکام یعنی وہ آیات جن سے احکام شرعی مستنبط ہوتے ہیں ان آیات کو جمع کرنے اور ان آیات میں موجود احکام شرعیہ کی تحقیق و تخریج کی ایک ادنٰی سی کوشش کی گئی ہے۔(وما توفیقی الا باللہ)
زیر نظر مبحث میں ہر آیت کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ آیت ذکر کرنے کے بعد اسکا ترجمہ مذکور ہے،اس کے بعد آیت سے مستنبط مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(آیت نمبر:۲)
{ وَآتُوا
الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا
تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا} [النساء : 2]
ترجمہ: اور یتیموں کو ان کے مال دو اور نہ بدلو برے مال کو اچھے
مال سےاور ان کے مال اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ، بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔
مسائل شرعیہ:
اس آیت میں یتیم بچوں کے حقوق کی تاکید اور ان کے اموال کی
حفاظت کے احکام ہیں۔
۱: یتیم جب بالغ
اور سمجھدار ہو جائے تو اسکا مال فوراً اس کے حوالے کر دیا جائے بلوغت کے بعد اس
کے تصرفات مالیہ درست ہیں، مال کی ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں۔([1])
بلوغت کی کم از کم عمر لڑکے کے لئےبارہ سال اور لڑکی کے
لئےنو سال ہے اور ذیادہ سے ذیادہ دونوں کے لئے پندرہ سال ہیں۔
۲: یتیم اگر بلوغت
کے بعد بھی سمجھدار نہ ہو تو پچیس برس تک انتظار کریں اس کے بعد اسکا مال اسے سپرد
کردیں۔([2])
۳: یتیم کو یا جس
کا مال تمہارے پاس ہے اسے ادا کرتے وقت کسی کو گواہ بنا لوتاکہ اختلاف کا احتمال
نہ رہے۔([3])
۴:یتیم کا مال کھانا حرام اورباعث ہلاکت ہے، اسی طرح اس کے
عمدہ مال کے بدلےاپنا ردی اور ناقص مال ادا کرنا بھی حرام ہے،اللہ تعالٰی نےاسے خبیث قرار دیا ہے۔([4])
۵: جو حلال رزق
اللہ تعالٰی نےکسی کے مقدر میں رکھا ہےاس کے علاوہ حرام مال حاصل کرنا حرام ہے۔([5])
(آیت نمبر:۳)
{ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا
تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ
لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا
تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا
تَعُولُوا } [النساء: 3]
ترجمہ:اور
اگرڈرو کہ انصاف نہ کرسکو گےیتیم لڑکیوں کے حق میں تونکاح کر لو ان دوسری عورتوں
سے جن سے تم چاہو خواہ،دو دوسے خواہ تین تین سے خواہ چار چارسےہو ۔پھر
اگر(متعددبیویوں میں)تم کو اس بات کا ڈر ہو کہ تم انصاف نہ کر سکوگے تو ایک ہی
نکاح کر لو یا اپنی لونڈیوں پر ہی اکتفاءکر لو ۔ یہ نا انصافی سے بچنے کے لیے عمدہ
بات ہے۔
اس آیت کے شان
نزول کے بارے میں احادیث :۔
١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ 'ایک شخص ایک یتیم
لڑکی کی پرورش کرتا تھا اس نے صرف اس غرض سے اس کے ساتھ نکاح کر لیا کہ وہ ایک
کھجور کے درخت کی مالکہ تھی ورنہ اس کے دل میں اس لڑکی کی کوئی الفت نہ تھی۔' اس
کے حق میں یہ آیت اتری۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن جریج کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں
کہ وہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔
٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا 'بھانجے اس آیت کا مطلب یہ ہے
کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ترکہ کی رو سے اس کی جائیداد میں
حصہ دار ہو اور ولی کو اس کا مال اور جمال تو پسند آئے مگر وہ اسے اتنا مہر دینے
پر آمادہ نہ ہو جتنا اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں تو وہ اس سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر
اتنا ہی دے دے تو پھر نکاح کر سکتا ہے۔ ورنہ وہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو انہیں
پسند ہو نکاح کر لے۔ اور چار تک ایسی بیویوں کی اجازت دی گئی۔([6])
کچھ ضروری تعریفات:
یتیم کی تعریف:
شرعی اصطلاح میں یتیم سے مراد وہ بچے ہیں جن کے والد فوت ہو
چکے ہوں اور وہ ابھی نابالغ ہوں۔
اس آیت میں یتامٰی سے مراد نا بالغ یتیم لڑکیاں ہیں ۔
نکاح کے اصطلاحی معنی:
علمائے فقہ کی اصلاح میں نکاح اس
خاص معاہدے کو کہتے ہیں جو عورت اور مرد کے درمیان ہوتا ہے،جس سے دونوں میں زوجیت
کا تعلق قائم ہوتا ہے۔([7])
نکاح کے ارکان:
وامّا رُکْنُ النِکاحِ
فَھُوَایجَابُ والقَبُوْلُ۔([8])یعنی نکاح کے دو ارکان ہیں ،ایک
ایجاب اور دوسرا قبول۔
مہر کی اقسام:
مہر کی دو قسمیں ہیں مہر معجل اور
مہر مؤجل۔مہر مؤجل وہ ہے جس کی ادائیگی کے لئے کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو اور
مہر معجل وہ ہے جس کی ادائیگی فوراًیا عورت کے مطالبے پر واجب ہو۔
مہر کے مختلف نام:
مہرکے کل آٹھ نام ہیں چار قرآن اور
چار احادیث میں ہیں۔
قرآن میں ذکر کردہ نام:
صداق،نحلہ،اجر، فریضہ۔
احادیث میں ذکر کردہ نام: مہر
،علیقہ،العقر،الحباء۔
مہر کی مقدار:
ذیادہ سے ذیادہ مہر کی مقدار مقرر نہیں اور کم سے کم
مقدار احناف کے نزدیک دس درہم ہے جو تقریباًدو تولے ساڑھےچار
ماشے چاندی ہے۔([9])
مسائل شرعیہ:
۱: اس آیت میں یتیم نابالغ لڑکی کے نکاح اور نکاح
سے متعلق دوسرے امور مثلاً مہروغیرہ کے احکام مذکور ہے۔
۲: نکاح کرنے کا
جواز اور چار تک نکاح کرنے کی اجازت مذکور ہے۔
۳: ایک سے زائد
بیویوں میں مساوات اور انصاف کا معاملہ رکھنے کاحکم ہے۔
۴: اس سے یہ بھی
ثابت ہوتا ہے کہ اپنی اس کنیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جو شرعی اصولوں کے
مطابق کسی کے ملک میں ہو۔
مسائل کی تفصیل:۔
یتیم لڑکیوں سے
ناانصافی:۔
زیادہ حق تلفی یتیم لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ اب یہ
تو ظاہر ہے کہ یتیم لڑکی کا ولی کوئی قریبی رشتہ دار ہی ہو سکتا ہے اور وراثت میں
بھی ولی اور یتیم لڑکی کا اشتراک ممکن ہے۔ اب لڑکی کے جوان ہونے پر تین صورتیں پیش
آ سکتی تھیں: ایک یہ کہ لڑکی خوبصورت نہ ہو اور ولی کے دل میں اس کی اُلفت بھی نہ
ہو اور وہ محض اس طمع سے اس سے نکاح کر لے کہ اس کا وِرثہ کا مال ہاتھ سے نکل جائے
گا۔ اس طرح کا نکاح کرنا بھی اس لڑکی پر ظلم ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکی خوبصورت بھی ہو
اور صاحب جائیداد بھی ہو، اس صورت میں ولی اس سے نکاح کر لیتا مگر جتنا حق مہر اسے
دوسروں سے مل سکتا تھا اسے اس سے بہت کم دیتا اور دوسرا کوئی شخص ولی کی موجودگی
میں اس سے نکاح کر بھی نہیں سکتا تھا۔ جبکہ ولی خود اس کا خواہش مند ہو ۔ یہ بھی
یتیم لڑکیوں کے حقوق پر ڈاکہ کی ایک صورت تھی۔ یہی ناانصافیاں تھیں جن کا ذکر اللہ
تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔
اور تیسری صورت یہ
کہ لڑکی نہ خوبصورت ہو اور نہ صاحب مال ہو اس صورت میں ولی کو اس سے نکاح کرنے میں
کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔
دوسرا مسئلہ:
چار تک بیویوں سے
نکاح کی اجازت:۔
یتیم لڑکیوں کے
سرپرستوں کو ان دونوں ناانصافیوں سے روکا گیا اور فرمایا کہ اگر تم صاحب ِجمال
لڑکی کا اتنا مہر ادا کر سکو جتنا باہر سے مل سکتا ہے تو تم اس سے نکاح کر سکتے ہو
ورنہ اور تھوڑی عورتیں ہیں ان میں سے اپنی حسب ِپسند چار تک بیویاں کر سکتے ہو ۔
مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں مساوات کا لحاظ رکھو اور اگر یہ کام نہ کر سکو تو
پھر ایک بیوی پر اکتفا کرو ۔ یا پھر ان کنیزوں پر جو
تمہارے ملک میں ہوں ۔ مندرجہ ذیل دو احادیث بھی ان احکام پر روشنی ڈالتی ہیں۔
١۔ چارسے زیادہ بیویاں:۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں
۔ آپ نے اسے فرمایا 'ان میں سے کوئی سی چار پسند کر لو (باقی چھوڑ دو ۔ ') ([10])
٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں کہ آپ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام
قرعہ نکلتا اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن اور ایک رات
مقرر کرتے تھے۔' (بخاری۔ کتاب الہبہ۔
باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بالکل
الگ ہے کیونکہ آپ کی ازواجِ مطہرات امت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں
کر سکتی تھیں ۔ لہذا جتنے نکاح آپ کر چکے تھے وہ سب آپ کے لیے حلال اور جائز قرار
دیئے گئے۔([11])
نکاح نابالغ کا مسئلہ:-
اس آیت میں یتامی سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور
اصطلاح شرع میں یتیم اسی لڑکی یا لڑکے کو کہا جاتا ہے جو ابھی بالغ نہ ہو، اس لئے
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یتیم لڑکی کے ولی کو یہ بھی اختیار ہے کہ ہالت
صغر سنی بلوغ سے پہلے ہی اس کا نکاح کر دے، البتہ لڑکی کی مصلحت اور آئندہ فلاح و
بہبود پیش نظر رہے ایسا نہ ہو جیسے بہت سی برادریوں میں رائج ہے کہ بڑی لڑکی کا
نکاح چھوٹے بچے سے کر دیا، عمروں کا تناسب نہ دیکھا، یا لڑکے کے حالات و عادات کا
جائزہ نہ لیا ویسے ہی نکاح کر دیا۔ اور وہ بالغ لڑکیاں جن کے باپ مر چکے ہیں،
اگرچہ بالغ ہو جانے کی بنا پر خود مختار ہیں لیکن لڑکیاں شرم و حیاء کی بناءپر
عادة بالغ ہونے کے بعد بھی اپنے نکاح کے معاملہ میں خود کچھ نہیں بولتیں ،
اولیاءاور وارث جو کچھ کر دیں اسی کو قبول کر لیتی ہیں ، اس لئے ان کے اولیاء پر
بھی لازم ہے کہ ان کی حق تلفی سے پرہیز کریں ۔ بہرحال اس آیت میں یتیم لڑکیوں کے
ازدواجی حقوق کی پوری نگہداشت کا حکم مذکور ہے.
تعدد ازواج کا مسئلہ:
اسلام نے تعدد
ازدواج پر پابندی لگائی اور عدل و مساوات کا قانون جاری کیا:-
قرآن نے عام معاشرہ کے اس ظلم عظیم کو روکا
تعداد ازواج پر پابندی لگائی اور چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام
قرار دیا اور جو عورتیں ایک ہی وقت میں نکاح کے اندر ہیں ان میں مساوات حقوق کا
نہایت موکد حکم اور اس کی خلاف ورزی پر وعید شدید سنائی، آیت مذکورہ میں ارشاد
ہوا:فانکحوا ماطاب لکم من النسآءمثنی و ثلث و ربع یعنی جو حلال عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر سکتے
ہو، دو دو تین تین چار چار ۔“
آیت میں "ماطاب "کا لفظ آیا ہے، حسن بصری ، ابن جبیر اور ابن مالک
نے ماطاب کی تفسیر ماحل سے فرمائی ہے، یعنی جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ۔
اور بعض حضرات نے
ماطاب کے لفظی معنی کے اعتبار سے”پسندیدہ“ کا ترجمہ کیا ہے۔ مگر ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، یہ
مراد ہو سکتا ہے کہ جو عورتیں طبعی طور پر تمہیں پسند ہوں اور تمہارے لئے شرعاً
حلال بھی ہوں ۔ اس آیت میں ایک طرف تو اس کی اجازت دی گئی کہ ایک سے زائد دو، تین
، چار عورتیں نکاح میں جمع کر سکتے ہیں، دوسری طرف چار کے عدد تک پہنچا کر یہ
پابندی بھی عائد کر دی کہ چار سے زائد عورتیں بیک وقت نکاح میں جمع نہیں کی جا
سکتیں ۔
متعددازواج میں
مساوات رکھنے کا مسئلہ:
اگر متعدد بیویوں میں
مساوات اور عدل و پر قدرت نہ ہو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے:-
چار بیویوں تک کی اجازت دے کر فرمایا فان خفتم الاتعدلوا فواحدة اوماملکت ایمانکم ”یعنی اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی پر بس
کرو، یا جو کنیز شرعی اصول کے مطابق تمہاری ملک ہو اس سے گذارہ کر لو ۔ “
اس سے معلوم ہوا
کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے جبکہ شریعت کے مطابق سب
بیویوں میں برابری کر سکے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے، اگر اس پر قدرت نہ ہو
تو ایک ہی بیوی رکھی جائے، زمانہ جاہلیت میں یہ ظلم عام تھا کہ ایک ایک شخص کئی
کئی بیویاں رکھ لیتا تھا جس کا ذکر چند احادیث کے حوالہ سے اس آیت کے ضمن میں پہلے
گزرا ہے اور بیویوں کے حقوق میں مساوات اور عدل کا مطلق خیال نہ تھا جس کی طرف
زیادہ میلان ہو گیا اس کو ہر حیثیت سے نوازنے اور خوش رکھنے کی فکر میں لگ گئے اور
دوسری بیویوں کے حقوق نظر انداز کر ڈالتے، قرآن کریم نے صاف صاف فرما دیا کہ اگر
عدل نہ کر سکو تو ایک ہی بیوی رکھو، یا کنیز سے گذارہ کر لو، یہاں یہ بات قابل ذکر
ہے کہ مملوک کنیز جس کا ذکر آیت میں ہے اس کی خاص شرائط ہیں، جو عموماً آج کل
مفقود ہیں، اس لئے اس زمانے میں کسی کو مملوک شرعی کنیز کہہ کر بے نکاح رکھ لینا
حرام ہے، اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ
اگرچہ قرآن کریم نے چار عورتیں تک نکاح میں رکھنے کی اجازت دے دیاور اس حد کے اندر
جو نکاح کئے جائیں گے وہ صحیح اور جائز ہوں گے لیکن متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں
ان میں عدل و مساوات قائم رکھنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ عظیم ہے ،([12])
لونڈی
سے نکاح کا مسئلہ:
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے
اپنی باندی کو آزاد کیا اور پھر اس سے نکاح کیا تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے (ایک
آزاد کرنے کا دوسرا نکاح کرنے کا)([13])
(آیت نمبر:۴)
{وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ
لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا } [النساء: 4]
ترجمہ:اور
عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کرو ہاں اگر بیویاں خوش دلی سے اس میں تمہیں
کچھ چھوڑ دیں تو اس کو شوق سے کھاؤ پیو۔
مسائل شرعیہ:
۱:مہر کی ادئیگی اور مہر کی معافی کا مسئلہ:
مہر کے متعلق عرب
میں کئی قسم کے ظلم ہوتے تھے:
ایک یہ کہ مہر جو
لڑکی کا حق ہے اس کو نہ دیا جاتا تھا، بلکہ لڑکی کے اولیاء، شوہر سے وصول کر لیتے
تھے جو سراسر ظلم تھا، اس کو دفع کرنے کے لئے قرآن کریم نے فرمایا: واتوا النسآءصدفتھن
یعنی دو عورتوں کو ان کے مہر“، اس کے مخاطب شوہر بھی ہیں کہ وہ اپنی بیوی کا مہر خود بیوی کو
دیں اور دوسروں کو نہ دیں اور لڑکیوں کے اولیاء بھی مخاطب ہیں کہ اگر لڑکیوں کے
مہر ان کو وصول ہو جائیں تو یہ لڑکیوں ہی کو دیدیں، ان کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں نہ لائیں ۔
دوسرا ظلم یہ بھی
تھا کہ اگر کبھی کسی کو مہر دینا بھی پڑ گیا تو بہت تلخی کے ساتھ، تاوان سمجھ کر
دیتے تھے، اس ظلم کا ازالہ آیت مذکورہ کے اس لفظہ نحلہ سے فرمایا گیا، کیونکہ نحلہ
لغت میں اس دینے کو کہتےیں جو خوش دلی کے ساتھ دیا جائے۔
غرض اس آیت میں یہ
تعلیم فرمائی گئی کہ عورتوں کا مہر ایک حق واجب ہے، اس کی ادائیگی ضروری ہے اور جس
طرح تمام حقوق واجبہ کو خوش دلی کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح مہر کو بھی
سمجھنا چاہئے۔
تیسرا ظلم مہر کے
بارے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ بہت سے شوہر یہ سمجھ کر بیوی ان سے مجبور ہے مخالفت
کر نہیں سکتی، دباؤ ڈال کر ان سے مہر معاف کرا لیتے تھے، جس سے درحقیقت معافی نہ
ہوتی تھی مگر وہ یہ سمجھ کر بےفکر ہو جاتے تھے کہ مہر معاف ہو گیا۔
اس ظلم کے انسداد
کے لئے آیت مذکورہ میں ارشاد فرمایا:فان طبن لکم عن
شی منہ نفسا فکلوہ ھنیاءمریاً یعنی اگر دو
عورتیں خوش دلی کے ساتھ اپنے مہر کا کوئی حصہ تمہیں دیدیں تو تم اس کو کھا سکتے
ہو، تمہارے لئے مبارک ہو گا۔“
مطلب یہ ہے کہ جبر
واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں
ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کر دیں
یا لینے کے بعد تمہیں واپس کر دیں تو وہ تمہارے لئے جائز ہے اور درست ہے۔
یہ مظالم مذکورہ
زمانہ جاہلیت میں بہت زیادہ تھے جن کا اندازہ قرآن حکیم نے اس آیت میں فرمایا،
افسوس ہے کہ جاہلیت کے زمانہ کی یہ باتیں مسلمانوں میں اب بھی موجود ہیں، مختلف
قبیلوں اور علاقوں میں ان مظالم میں سے کوئی نہ کوئی ظلم ضرور پایا جاتا ہے، ان سب
مظالم سے بچنا لازم ہے۔
آیت میں جو لفظ
صدقات آیا ہے صدقتہ (بفتح الصاد و ضم الدال) کی جمع ہے، صدقتہ اور صداق عورتوں کے مہر کو کہا جاتا
ہے،
( جیسا کہ تعریفات
میں بیان ہو چکا)ملا علی قاری مرقاة شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں، وسمی بہ لانہ یظھربہ صدق میل الرجل الی المراة یعنی مہر کو صداق اور صدقہ اس لئے کہتے ہیں کہ ”صدق“ کے اس مادہ میں سچ کے معنی ہیں اور مہر سے بھی چونکہ
شوہر کا اپنی بیوی کی طرف سچا میلان ظاہر ہوتا ہے اس لئے اس مناسبت سے مہر کو صداق
کہنے لگے۔
اور ھنیا اور
مریاً دونوں لغت میں اس چیز کو کہتے یں جو کسی مشقت و تکالیف کے بغیر حاصل ہو جائے
۔([14])
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہر عورت کا حق اور شوہر پر
اس کا ادا کرنافرض ہے۔
بیوی اپنا حق مہر شوہر کے لیے معاف کر دے تو یہ شوہر کے لیے
جائز ہے(جو حکم جز کا ہے وہی کل کا بھی ہے یعنی مہر کا کچھ حصہ یا پورا مہر)
(آیت نمبر:۵)
{
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ
قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا
مَعْرُوفًا} [النساء : 5]
ترجمہ:
اور بے عقلوں کو ان کے مال نہ دو جو تمہارے پاس ہیں جن کو اللہ نے تمہاری بسر
اوقات کیا ہے اور انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔
آیت
میں مذکور احکام شرعی:
"السفھاء"
کا مفہوم:
السفھاء جمع ہے سفیہ کی
بمعنی خفت ،مراد ہے خفت عقل یعنی کم عقلو کوانکا مال حوالہ کرنے کی ممانعت مذکور
ہے۔
ولی
کو حکم ہے کہ ان کی جائز ضروریات ان کے مال سے پوری کرےنیز وقتاً فوقتاً ان کو یہ تسلی دینے کی تاکید ہے کہ مال آپ ہی کا ہے صرف آپ کی خیر خواہی کی وجہ سے ہمارے
پاس محفوظ ہے۔
بے
وقوفوں کو مال حوالہ نہ کرنے کا حکم:
مال سرمایہ زندگی
ہے اور اس کی حفاظت لازمی ہے:-
ان آیات میں ایک طرف تو مال کی اہمیت اور انسانی
معاش میں اس کا بڑا دخل ہونا بیان فرما کر اس کی حفاظت کا داعیہ قلوب میں پیدا کیا
گیا، دوسری طرف حفاظت اموال کے متعلق ایک عام کوتاہی کی اصلاح فرمائی گئی، وہ یہ
کہ بہت سے آدمی طبعی محبت سے مغلوب ہو کر ناتجربہ کار نابالغ بچوں اور ناواقف
عورتوں کو اپنے اموال حوالہ کر دیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مال کی بربادی اور بہت
جلد افلاس و تنگدستی ہوتی ہے۔
عورتوں بچوں اور
کم عقلوں کو اموال سپرد نہ کئے جائیں:-
مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
بیان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں یہ ہدایت فرمائی کہ اپنا پورا مال کم
عقل بچوں عورتوں کے سپرد کر کے خود ان کے محتاج نہ بنو، بلکہ اللہ تعالی نے تم کو
قوام اور منتظم بنایا ہے تم مال کو خود اپنی حفاظت میں رکھ کر بقدر ضرورت ان کے
کھلانے پہنانے پر خرچ کرتے رہو اور اگر وہ مال کو اپنے قبضہ میں لینے کا مطالبہ
بھی کریں تو ان کو معقول بات کہہ کر سمجھا دو، جس میں دلشکنی بھی نہ ہو اور مال
بھی ضائع نہ ہونے پائے، مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ سب تمہارے ہی لئے رکھا ہے، ذرا تم
ہوشیار ہو جاؤ گے تو تمہیں دے دیا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اس تفسیر پر آیت کا مفہوم ان
سب عورتوں، بچوں اور کم عقل ناتجربہ کار لوگوں کو شامل ہے، جن کو مال سپرد کر دینے
پر مال میں نقصان کا خطرہ ہے، خواہ وہ اپنےبچے ہوں یا یتیم بچے اور خواہ وہ مال ان
بچوں اور یتیموں کا اپنا ہو یا اولیاء کا ہو ....... یہی تفسیر حضرت ابوموسی اشعری
سے بھی منقول ہے اور امام تفسیر حافظ طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔([15])
یتیموں کے مال سے زکوٰۃ ادا کرنے اورتجارت کرنے کا
مسئلہ:
مال تو ذریعہ قیام زندگی ہے اگر کسی نادان کے ہتھے چڑھ
جائے گا تو وہ فضول، ناجائز یا گناہ کے کاموں میں اجاڑ دے گا اور اس کے برے اثرات
تمام معاشرہ پر پڑیں گے۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنی املاک پر ہوتے ہیں اتنے
غیر محدود نہیں کہ اگر وہ اس چیز کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو تب بھی
اس کے حقوق سلب نہ کیے جا سکیں ۔ ایسی صورتوں میں اس نادان کا کوئی قریبی رشتہ دار
یا حکومت اس کے مال پر تصرف رکھے گی۔ اس کی خوراک اور پوشاک اسے اس کے مال سے مہیا
کی جائے اور جو بات اس سے کہی جائے اس کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر کہی جائے۔ اور
اگر یتیم کا مال تجارت یا مضاربت پر لگایا
جا سکتا ہو تو اسے تجارت پر لگایا جائے اور منافع سے اس
کی خوراک اور پوشاک کے اخراجات پورے کیے جائیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے
تھے کہ ''یتیموں کا مال تجارت پر لگایا کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ زکوٰۃ ہی ان کے مال کو
کھا جائے۔'' اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ یتیموں کے مال بھی اگر حد
نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوگی اور دوسری یہ کہ جہاں تک ممکن ہو
یتیموں سے اور ان کے اموال سے خیر خواہی ضروری ہے۔([16])
(آیت نمبر: ۶)
{
وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ
مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا
إِسْرَافًا وَبِدَارًا
أَنْ
يَكْبَرُوا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ
بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا
عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا } [النساء : 6]
ترجمہ:
اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ
نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں سپرد کردو
اور انہیں نہ کھاؤ حد سے بڑھ کر اور اس جلدی میں کہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں اور جسے
حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے، پھر جب تم ان کے
مال انہیں سپرد کرو تو ان پر گواہ کرلو، اور اللہ کافی ہے حساب لینے کو،
احکام شرعیہ:
یتیم
کو مال حوالہ کرنے کا شرعی ضابطہ:
نادان کو مال کی
واپسی کی شرائط:۔
گویا یتیموں کو ان کا مال واپس کرنے کے لیے دو
شرطیں ہیں ۔ ایک بلوغت دوسرے رشد۔ یعنی مال کے صحیح طور پر استعمال کرنے کی اہلیت۔
یہ اہلیت معلوم کرنے کے لیے تمہیں ان کا تجربہ کرتے رہنا چاہیے اور یہ چیزیں
معمولی معمولی باتوں سے بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ آیا وہ کفایت شعار ہے یا اجاڑنے
والا ہے۔ خرید و فروخت کیسے کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب تک یہ دونوں شرطیں نہ
پائی جائیں اس کا مال اس کے حوالہ نہ کرنا چاہیے اور اس صورت میں اس کا حکم وہی
ہوگا جو مذکورہ بالا آیت میں نادانوں کے سلسلہ میں ذکر ہوا ہے۔
بلوغت کے لیے
عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ۔
یہاں پھر دو ایسی
باتوں کا ذکر ہوا ہے جن سے یتیم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ضرورت سے زیادہ
مال خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ بلا ضرورت یا ضرورت پیش آنے سے پہلے ہی خرچ کیا جائے
تاکہ وہ بڑے ہو کر اس کا مطالبہ نہ کرنے لگیں ۔ اور یہ سب بددیانتی کی راہیں ہیں
جن سے یتیم کا نقصان ہو جاتا ہے لہذا ہر ایسی صورت سے منع کیا جا رہا ہے۔
یتیم کے ولی کا حق الخدمت:۔
یتیم کا متولی اگر کوئی کھاتا پیتا شخص ہے تو
اسے یتیم کے مال میں سے حق الخدمت کے طور پر کچھ لینا قطعاً ناجائز ہے۔ ہاں اگر
متولی تنگدست ہے تو مال کے تجارت پر لگانے اور حق المحنت کے طور پر ایسا واجبی سا
خرچہ لے سکتا ہے جسے کوئی غیر جانبدار آدمی بھی واجبی قرار دے۔ نیز جو کچھ وہ حق
الخدمت لے چوری چھپے نہ لے۔ بلکہ اعلانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔
نا
بالغوں کی سمجھ اور صلاحیت جانچنے کا حکم ہے۔
(آیت
نمبر:۷)
{لِلرِّجَالِ
نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ
مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ
نَصِيبًا مَفْرُوضًا } [النساء : 7]
ترجمہ:مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ
اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڈ جاویں ۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں
سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڈ جاویں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا
کثیر ہو ،حصہٴ قطعی ۔
عورتوں اور بچوں
کا میراث میں حصہ:۔
عرب میں عورتوں کو
میراث میں شامل کرنے کا دستور نہ تھا بلکہ عورت خود ورثہ شمار ہوتی تھی۔ اس آیت کی
رو سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس ذلت کے مقام سے نکال کر وراثت میں حصہ دار بنا
دیا۔ نیز اس آیت سے مندرجہ ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں (:١) میراث میں عورتوں کا حصہ (٢) ورثہ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ جائیداد خواہ منقولہ ہو یا
غیر منقولہ بہرحال وہ تقسیم ہوگا۔ (٣) قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم
ہوں گے (٤) ان قریبی رشتہ داروں
کا حصہ بھی مقرر ہے جس کی تفصیل اسی سورہ کی آیت نمبر ١١ اور نمبر ١٢ میں آ رہی ہے (٥) عورتوں کے علاوہ چھوٹے لڑکوں کو بھی وراثت سے محروم رکھا
جاتا تھا اور ورثہ کے مالک صرف وہ بیٹے سمجھے جاتے تھے جو دشمنوں سے لڑنے اور انتقام
لینے کے اہل ہوں ۔ اس آیت کی رو سے چھوٹے لڑکوں کو بھی برابر کا حق دلایا گیا اور
حقیقتاً یہی بچے یتیم ہوتے تھے۔([17])
استحقاق میراث کا
ضابطہ:-
اس آیت نے وراثت
کے چند احکام کے ضمن میں قانون راثت کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔
مما ترک الوالدن
والاقربون، ان دو لفظوں نے وراثت کے دو بنیادی اصول بتلا دیئے، ایک رشتہ ولادت ،
جواولاد اور ماں باپ کے درمیان ہے اور جس کو لفظ والدان سے بیان کیا گیا ہے دوسرے
عام رشتہ داری جو لفظ قاقربون کا مفہوم ہے، اور صحیح یہ ہے کہ لفظ ”اقربون“ ہرقسم کی قرابت اور رشتہ داری کو حاوی ہے، خواہ وہ رشتہ
باہمی ولادت کا ہو جیسے اولاد اور ماں باپ میں، یا دوسری طرح کا جیسے عام خاندانی
رشتوں میں یا وہ رشتے جو ازدواجی تعلق سے پیدا ہوئے ہیں، لفظ ”اقربون“ سب پرحاوی ہے، لیکن والدین کو ان کی اہمیت کی وجہ سے
بطور خاص جدا کر دیا گیا، پھر اس لفظ نے یہ بھی بتلا دیا کہ مطلق رشتہ داری وراثت
کے لئے کافی نہیں، بلکہ رشتہ میں اقرب ہونا شرط ہے، کیونکہ اگر اقربیت کو معیاری
شرط نہ بنایا جائے تو ہر مرنے والے کی وراثت پوری دنیا کی تمام انسانی آبادی پر
تقسیم کرنا ضروری ہو جائے گا،
یتیم پوتے کی
وراثت کا مسئلہ:-
اگر اس قرآنی اصول
کو سمجھ لیا جائے تو یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ جو آج کل بلاوجہ ایک نزاعی مسئلہ
بنا دیا گیا ہے، وہ خود بخود ایک قطعی فیصلہ کے ساتھ حل ہو جاتا ہے کہ اگر یتیم
پوتا بہ نسبت بیٹے کے ضرورت مند زیادہ ہو، لیکن ”اقربون“ کے قانون کی رو سے وہ مستحق وراثت نہیں ہو سکتا، کیونکہ
وہ بیٹے کی موجودگی میں اقرب نہیں، البتہ اس کی ضرورت رفع کرنے کے لئے دوسرے
انتظامات کئے گئے ہیں جس میں سے ایک ایسا ہی انتظام اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
اس مسئلہ میں
موجودہ دور کے مغرب زدہ مجددین کے علاوہ کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، ساری امت آج
تک قرآن و حدیث کی تصریحات سے یہی سمجھتی آئی ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو
میراث نہ ملےگی، خواہ اس کا باپ موجود ہو یا مر گیا ہو
میراث کے مقررہ
حصے اللہ کی جانب سے طے شدہ ہیں:-
آخر آیت میں جو ارشاد فرمایا نصیباً مفروضاً، اس
سے یہ بھی بتلا دیا کہ مختلف وارثوں کے جو مختلف حصے قرآن نے مقرر فرمائے ہیں، یہ
خدا کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں، ان میں کسی کو اپنی رائے اور قیاس سے کمی بیشی
یا تغیر و تبدل کا کوئی حق نہیں ۔
(آیت نمبر:۱۱)
{يُوصِيكُمُ
اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ
نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ
وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ
مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ
أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ
السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ
وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ
اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا } [النساء: 11]
ترجمہ:
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے
بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر
تو ان کو ترکہ کی دو تہائی اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اور میت کے
ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو پھر اگر اس کی اولاد
نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہا ئی پھر اگر اس کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو
ماں کا چھٹا بعد اس و صیت کے جو کر گیا اور دین کے، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم
کیا جانو کہ ان میں کون تمہارے زیادہ کام آئے گا یہ حصہ باندھا ہوا ہے اللہ کی طرف
سے بیشک اللہ علم والا حکمت والا ہے،
پچھلی
آیت میں میراث کے احکام کا اجمالی ذکر تھا اس آیت میں ان مستحقین میراث کی بعض
اقسام کی تفصیل مذکور ہےجن کا میت سے نسب اور ولادت کا تعلق ہو۔
میت
کے ترکہ کے وارث تین قسم کے ہوتے ہیں۔
۱: ذوی الفروض:وہ وارث جن کے حصے اور میراث کی
مقدار شریعت مقدسہ میں مقرر و معین ہے، مثلاً خاوند اور بیوی۔
۲: عصبات
نسبی:میت سے نسبی تعلق رکھنے والے لوگ جن کے رشتہ میں عورت کا واسطہ نہ ہو اور
شریعت میں انکا حصہ مقرر نہ ہو بلکہ ذوی الفروض کے پورے حصے نکالنے کے بعد جو کچھ
ترکہ باقی رہ جائےوہ ان کو مل جائے گا اور اگر باقی نہ رہے تو وہ محروم رہ جائیں
،مثلاًچچا کا بیٹا۔
۳: ذوی
الارحام:وہ وارث جن کا حصہ شریعت میں مقرر نہ ہو اور عصبہ بھی نہ ہو ،بلکہ میت سے
رشتہ عورت کے واسطہ سے ہوں،مثلاً خالہ۔
احکام
شرعیہ:
شریعت
میں مقرر حصے چھ ہیں۔
۱: نصف،ربع،ثمن(آٹھواں)ایک تہائی،دوتہائی،چھٹا۔([18])
۲: وارث تین قسم کے ہیں۔جو اوپر بیان ہو چکے۔([19])
۳: وارث سترہ ہیں بارہ جن کا ذکر قرآن مجید میں
ہے وہ یہ ہیں۔
مردوں
میں، باپ ،دادا۔اخیافی بھائی(ماں شریک)زوج۔
عورتوں
میں،زوجہ،بیٹی،پوتی،حقیقی بہن(ماں باپ شریک)علاتی بہن(باپ شریک)اخیافی بہن (ماں
شریک)ماں،دادی۔ان کے علاوہ بیٹا،پوتا،حقیقی بھائی،باپ شریک بھائی، چچا،چچا کا بیٹابھی وارث ہیں ،یہ عصبات ہیں۔([20])
۴:وراثت
کی تقسیم سے پہلے چند امورواجب ہیں ان کی ادائیگی کے بغیر اگر وراثت تقسیم ہوئی تو
یہ تقسیم ناجائز ہےاور اگر میت کا ترکہ ان چیزوں میں خرچ ہوکر ختم ہوگیا تو وارثوں
کو کچھ نہ ملے گا، وہ امور تین ہیں۔
تجہیزوتکفین،قرض،وصیت۔([21])
(آیت
نمبر:۱۲)
{وَلَكُمْ
نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ
لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ
يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ
يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا
تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ
يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ
مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي
الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ
وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ } [النساء: 12]
ترجمہ:اور تمہاری بیویاں جو چھوڑ جائیں اس میں سے تمہا رے لئےآدھا
ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لئے
چوتھائی ہے جو وصیت وہ کر گئیں اور دَین نکال کر اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا
چوتھائی حصہ ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کا تمہارے
ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر، اور اگر کسی ایسے
مرد یا عورت کا ترکہ بٹنا ہو جس نے ماں باپ اولاد کچھ نہ چھوڑے اور ماں کی طرف سے
اس کا بھائی یا بہن ہے تو ان میں سے ہر ایک کاچھٹا حصہ ہےپھر اگر وہ بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں
تو سب تہائی میں شریک ہیں میت کی وصیت اور دین کی ادائیگی کے بعد،یہ اللہ کا ارشاد
ہے اور اللہ علم والا حلم والا ہے،
احکام شرعیہ:
مذکورہ آیت میں بعض دوسرےمستحقین کا ذکر ہے جن سے میت کا نسبی رشتہ نہیں ہوتا بلکہ ازدواج کا رشتہ ہوتا ہے۔بیوی کی وفات پر شوہر کو میراث میں متعین حصہ ملنے کا حکم ہےاور شوہر کی وفات پر بیوی کو متعین حصہ ملنے کا حکم ہے۔ شوہر کی وفات پر بیوی کو ترکہ میں حصہ ملنے کا مسئلہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔
خاوند کی میراث
میں دوحالتیں ہیں:۔
وہ ہمیشہ میراث پاتا ہے کبھی محروم نہیں ہوتا۔میت کی اولاد
کی موجودگی میں شوہر کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو تو پھر نصف
ترکہ شوہر کو ملے گا۔اولاد اگر چہ اسی شوہر سے ہو یا کسی پہلے شوہر سے بہر حال
اولاد کی موجودگی خاوند کے حصے کو نصف سے چوتھائی کر دیتی ہے۔
زوجہ کی میراث میں دو حالتیں ہیں:۔
میت کی اولاد کی موجودگی میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا
اور اگر میت کی اولاد نہ ہو تو پھر بیوی
کو چوتھائی ترکہ ملے گا۔اولاد اگر چہ اسی بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے بہر حال
اولاد کی موجودگی بیوی کے حصے کو چوتھائی سےکم کرکے آٹھواں حصہ کر دیتی ہے۔
میراث کی تقسیم سے متعلق احکام اور استحقاق میراث کا ضابطہ
تفصیلاً آیت نمبر ۷اور آیت نمبر ۱۱ میں بیان ہوچکے۔
اس آیت میں کلالہ کی میراث کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔
کلالہ کی تعریف:۔
کلالہ اس کو کہتے ہیں جس کے اصول و فروع میں سے کوئی نہ
ہو۔بغوی نے لکھا کلالہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی نہ اولاد ہو نہ والد،حضرت علیؓ
اور حضرت ابن مسعودؓ نے یہی فرمایا۔گویا دونوں طرف اس کے نسبی ستون کمزور ہیں۔([22])
یہ آیت حضرت جابرؓ کے بارے میں نازل ہوئی ان کے والد شہید
ہوچکے تھےاور ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔
۱: اگر کوئی وارث نہ ہو اور نہ ہی میت نےترکہ کے بارےمیں
کوئی وصیت کی ہوتو میت کا کل ترکہ بیت المال میں جمع کیا جائیے گا جو تمام
مسلمانوں کے مفاد میں صرف ہوگا۔([23])
(آیت نمبر:۱۵)
{وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ
فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا
فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ
اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا } [النساء: 15]
ترجمہ: اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں ان پر خاص اپنے میں سے
چار مردوں کی گواہی لو پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو
یہاں تک کہ انہیں موت اٹھالے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔
احکام شرعیہ:
جرموں کی سزا دو طرح کی ہے:حدوداور تعزیرات۔
حدود:
حد وہ سزا ہے جس کی مقداراور کیفیت شریعت مطہرہ میں مقرر
ہے،اس میں کمی بیشییا تبدیلی کا کسی کوحق حاصل نہیں شریعت میں پانچ جرائم کی حدود
مقرر ہیں:
۱: ڈاکہ، ۲: چوری،
۳:زنا ، ۴: تہمت زنا، ۵: شراب نوشی۔
تعزیرات:
وہ سزاہے جس کی مقدار اور کیفیت شریعت مطہرہ نے مقرر نہیں
فرمائی بلکہ قاضی یا حاکم کی صوابدیدپرہوتی ہیں۔
بدکاری کے ثبوت پر چار گواہوں کی شہادت۔
۱: میں اس برائی پر چار مردوں کی گواہی کا تذکرہ ہے،جن حکام کے پاس یہ معاملہ پیش کیا جائے ثبوت زنا کے لئے
وہ چار گواہ طلب کریں ، جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں اور گواہی بھی مردوں کی ضروری
ہے، اس سلسلے میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں ۔
زنا کے گواہی میں شریعت نے دو طرح سے سختی کی ہے، چونکہ
یہ معاملہ بہت اہم ہے جس سے عزت اور عفت مجروح ہوتی ہے اور خاندانوں کے ننگ و عار
کا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے۔ اولاً تو یہ شرط لگائی کہ مرد ہی گواہ ہوں، عورتوں کی
گواہی کا اعتبار نہیں کیا گیا، ثانیاً چار مردوں کا ہونا ضرری قرار دیا ، ظاہر ہے
کہ یہ شرط بہت سخت ہےتاکہ دوسرے بدخواہ لوگ دشمنی کی وجہ سے الزام اور تہمت لگانے
کی جرأت نہ کر سکیں۔
۲: شادی شدہ کے لئے سنگساری کی سزا حدیث و سنت سے ثابت ہے
جبکہ غیر شادی شدہ کا
حکم خود قرآن کریم کی سورة نور میں مذکور
ہے۔
"زنا کار عورت اور زنا کار مرد میں سے ہر ایک کو سو
کوڑے مارو"
آیت میں موجود لفظ سَبِیلا سےسورہ نور میں موجوداسی حکم کی
طرف اشارہ کیا گیا ہے،حضرت ابن عباس" سبيل" کی تفسیرکرتےہوئے فرماتے ہیں" یَعْنِیِ اَلرَّجْمُ لِلثَّیِبِ وَالْجَلْدُ
لِلْبِکْرِ"۔([24])
۳: حدود میں عورت،نابالغ اور غلام کی گواہی قبول نہیں۔([25])
۴: فاسقہ بیوی کو طلاق دینا واجب نہیں بلکہ اسے فسق اور
بدکاری سے روکنا واجب ہے،آیت مبارکہ میں کلمہ فَأَمْسِكُوهُنَّ سے اسی طرف اشارہ ہے۔([26])
(آیت نمبر:۲۲)
{وَلَا
تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ
كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا } [النساء: 22]
ترجمہ: اور باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو مگر جو ہو گزرا وہ
بیشک بے حیائی اور غضب کا کام ہے، اور بہت بری راہ ہے۔
احکام شرعیہ:
۱: اپنے اصول و فروع کی منکوحات سے نکاح حرام ہے۔
۲: جس طرح باپ داد کی منکوحات سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ
عورتیں بھی حرام ہیں جن سے باپ داد نے صحبت کی ہو ،صحبت خواہ حلال ہو جیسے منکوحہ
یا باندی سے،یا حرام ہو ۔باپ کی موطوہ سے نکاح ہر حال میں حرام ہے،مزنیہ کے بیٹے
کے لئے زانی باپ کی منکوحہ اور موطوہ
دونوں حرام ہے،اسی طرح مزنیہ کی بیٹی اپنے زانی باپ کے لئےحرام ہے، کیونکہ
زنا سے حرمت مصاحرت ثابت ہو جاتی ہے۔([27])
مزید تفصیل اگلی آیت کے تحت آرہی ہے۔
(آیت نمبر:۲۳)
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ
وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ
الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ
الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ
مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ
بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ
أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ
إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا } [النساء: 23]
ترجمہ: حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور
پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ
پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں
ہیں ان بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو
ان کی بیٹیوں سے حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنیں اکٹھی
کرنا مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
احکام شرعیہ:
محرمات کے بارے میں:
اس آیت میں محرمات کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ کون کون سی
عورتوں سے نکاح حرام ہے۔
۱: آیت میں محرمات نسبیہَ جن سے نسب کی وجہ سے نکاح حرام
ہے وہ سات ہیں قرآن مجید میں ان کی صراحت کر دی گئی ہے ان کی حرمت قطعی ہے اس پر
اجماع امت ہے،ماں، بیٹی،پھوپھی،خالہ،بھتیجی، بھانجی،یہ عورتیں ہمیشہ کے لئے حرام
ہیں۔([28])
محرمات رضاعیہ کا
ذکر ہے جن سے رضاعت کی وجہ سے نکاح حرام ہوجاتا ہے۔
۱: رضاعت کی مدت دو سال ہیں،یعنی بچے کو دو سال تک دودھ
پلایا جائے،لڑکے اور لڑکی کی مدت رضاعت یکساں ہے، اس سے ذیادہ عمر تک دودھ پلانا
حرام ہے،البتہ اڑھائی برس تک دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے اس سے ذیادہ عمر
میں دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔([29])
۲:دودھ پینے سے مرادصرف معروف طریقہ ہی نہیں بلکہ دودھ کا
پیٹ میں جانا ہی کافی ہے، ناک یا حلق میں دودھ ٹپکانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو
جائے گی، دودھ ایک گھونٹ پیا ہو یا ذیادہ بہر حال حرمت ثابت ہو جائے گی۔([30])
یحیی بن یحیی، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، حضرت عمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت
ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ان کے پاس تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آواز سنی کہ ایک
آدمی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں اجازت مانگ رہا ہے عائشہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! یہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے گھر کی اجازت مانگ رہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا میرا خیال ہے کہ یہ فلاں ہوگا حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے رضاعی چچا
کے بارے میں فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر
میرا رضاعی چچا زندہ ہوتا تو کیا وہ میرے پاس ملاقات کے لئے آسکتا تھا ۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں بے شک رضاعت بھی ان رشتوں کو حرام کر دیتی
ہے جن کو ولادت حرام کرتی ہے۔([31])
۳: رضاعت کا
رشتہ تمام امور میں نسبی رشتہ سے یکساں
نہیں ،بعض امور میں موافقت ہے اور بعض میں نہیں،مثلاً رضاعی ماں اور بہن سے نکاح
حرام ہیں لیکن انہیں دیکھنا جائز ہے،ان کے ساتھ خلوت میں ہونا اور سفر کرنا جائز
ہے مگر ایک دوسرے کے وارث نہ ہونگے ایک کا نفقہ دوسرے پر لازم نہیں۔([32])
۴: اس آیت میں محرمات بالمصاہرہ کو بھی بیان کیا گیا ہے
یعنی وہ سسرالی رشتے جن سے نکاح حرام ہے۔مصاحرت کی وجہ سے جن عورتوں سے نکاح حرام
ہے وہ یہ ہیں،بیویوں کی مائیں،بیویوں کی قریب اور بعید کی دادیاں اس میں داخل
ہیں،اسی طرح بیویوں کی رضاعی مائیں اور رضاعی دادیاں نانیاں بھی نسبی کے ساتھ شامل
ہیں۔([33])
۵: دو ایسی عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہیں کہ ان میں
سے جس ایک کو مرد فرض کریں دوسری اس کے
لئے حرام ہو مثلاً دو بہنوں کو،کہ ان میں سے ایک کومرد فرض کریں تو یہ بہن بھائی
ہونگے، پھوپھی بھتیجی،کہ پھوپھی کو مرد فرض کریں تو چچا بھتیجی کا رشتہ ہوا اور
اگر بھتیجی کو مرد فرض کریں تو پھوپھی بھتیجے کا رشتہ ہوا۔ اور اگر دو عورتوں میں
ایسا رشتہ پایا جائے کہ ایک کو مرد فرض کریں تو دوسری اس کے لئے حرام ہو اور اگر
دوسری کو مرد فرض کریں تو پہلی حرام نہ ہو تو ایسی عورتوں کو ایک نکاح میں جمع کرے
میں کوئی حرج نہیں۔([34])
۶: جس طرح دو بہنو کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے اسی طرح
بطور ملکیت دو بہنوں سےایک ہی وقت میں صحبت کرناحرام ہے۔حقیقی،اخیافی ،علاتی اور
رضاعی سب کا ایک حکم ہے۔([35])
(آیت نمبر:۲۴)
{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ
أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ
أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا
اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلَا جُنَاحَ
عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ
كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا } [النساء: 24]
ترجمہ: اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں مگر کافروں کی عورتیں جو
تمہاری ملک میں آجائیں یہ اللہ کا نوشتہ ہے تم پر اور ان کے سوا سب عورتیں تمہارے
لئےحلال ہیں کہ اپنے مال و مہرکے عوض پاکدامنی کے لئےنہ کے شہوت رانی کیلئے۔تو جن
عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو، اور قرار داد کے بعد
اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجاوے تو اس میں گناہ نہیں بیشک اللہ علم و حکمت
والا ہے۔
احکام شرعیہ:
۱:
ایک عورت ایک وقت میں دومردوں کے لئے حرام ہے،لٰہذہ نکاح کی موجودگی میں عورت
دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی،اسی پر اجماع امت ہے۔([36])
مسئلہ:- اگر کوئی
کافر عورت دالحرب میں مسلمان ہو جائے اور اس کا شوہر کافر ہے تو تین حیض گذرنے کے
بعد وہ اس کے نکاح سے جدا ہو جائے گی۔
مسئلہ:- اور اگر
دارالسلام میں کوئی کافر عورت مسلمان ہو جائے اور اس کا شوہر کافر ہو تو حاکم شرع
اس کے شوہر پر اسلام پیش کرے اگر وہ مسلمان ہونے سے انکار کرے تو قاضی ان دونوں
میں تفریق کر دے اور یہ تفریق طلاق شمار ہوگی اس کے بعد عدت گذار کر وہ عورت کسی
مسلمان سے نکاح کر سکتی ہے۔
کتب اللہ علیکم ،
یعنی جن محرمات کا ذکر ہوا ان کی حرمت اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ ہے، قال
القرطبی ای حرمت ھذہ النسآء کتاباً من اللہ علیکم۔
واحل لکم
ماورآءذلکم، یعنی جو محرمات اب تک مذکور ہوئیں ان کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے
لئے حلال ہیں، مثلاً چچا کی لڑکی، خالہ کی لڑکی، ماموں زاد بہن، ماموں چچا کی بیوی
ان کی فات یا طلاق دینے کے بعد بشرطیکہ یہ مذکوررہ اقسام اور کسی رشتہ سے محرم نہ
ہوں اور اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی، جب وہ طلاق دیدے یا وفات پا جائے، بیوی مر
جائے تو اس کی بہن کے ساتھ ........ وغیرہ ........ بے شمار صورتیں بنتی ہیں، ان
سب کو ما ورآءذلکم کے عموم
میں داخل فرمایا دیا۔
مسئلہ:- بیک وقت
چار عورتوں سے زیادہ کو نکاح میں رکھنا جائز نہیں، اس کا تفصیلی بیان سورہ نسآء کے
شروع میں گذر چکا ہے، (معارف القرآن)
ابوبکر حصاص رحمتہ
اللہ علیہ احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ
نکاح مہر سے خالی نہیں ہو سکتی (حتی کہ اگر زوجین آپس میں یہ طے کرلیں کہ نکاح
بغیر مہر کے ہوگا تب بھی مہر لازم ہو گا، جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے) دوسرے
یہ بات معلوم ہوئی کہ مہر و چیز ہونی چاہئے جس کو مال کہا جا سکے۔
حنفیہ کا مذہب یہ
ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ہونا چاہئے، ایک درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا
ہے.(معارف القرآن)
١۔ صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جا سکتا ہے جو امیر لشکر
دیگر اموال غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص
کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے
مشترکہ اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔
٢۔ امیر لشکر کا کسی عورت کو کسی کی ملکیت میں دینے کے بعد
اس سے نکاح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملکیت میں دے دینا ہی کافی ہوگا اور اس کا سابقہ
نکاح از خود ختم ہو جائے گا۔
٣۔ تقسیم کے بعد ایسی عورت سے فوری طور پر جماع نہیں کیا جا
سکتا۔ جب تک اسے کم از کم ایک حیض نہ آ لے۔ اور یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ ہے
یا نہیں ۔ اور اگر وہ حاملہ ہو گی تو اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ اس سے بیشتر اس سے
جماع نہیں کیا جا سکتا۔ اور مزید احکام یہ ہیں :
٤۔ ایسی عورت سے صرف وہی شخص جماع کر سکتا ہے جس کی ملکیت
میں وہ دی گئی ہو ۔ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔
٥۔ اگر اس قیدی عورت سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے
فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
٦۔ اگر ایسی قیدی عورت کو اس کا مالک کسی کے نکاح میں دے دے تو پھر وہ اس سے
دوسری خدمات تو لے سکتا ہے لیکن صحبت نہیں کر سکتا۔
٧۔ جب عورت سے مالک کی اولاد پیدا ہو جائے تو مالک کے مرنے
کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔ شرعی اصطلاح میں ایسی عورت کو ام ولد کہتے ہیں
۔([37])
(آیت نمبر:۲۹)
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ
بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29]
ترجمہ:اے
ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری
باہمی رضامندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
احکام شرعیہ:
تجارت کی حلت ناجائز
کمائی کی حرمت۔
جس طرح باطل طریقہ
سے غیر کا مال کھانا جائز نہیں، خود اپنا مال بھی باطل طریق سے خرچ کرناجائز
نہیں:-
آیت کے الفاظ میں اموالکم بینکم کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں ”اپنے مال آپس میں“ اس میں یہ بات تو باتفاق مفسرین داخل ہے ہی کہ کوئی شخص
دوسرے کا مال ناجائز طریق پر نہ کھائے، ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ
اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنا ہی مال ناجائز طور پر کھائے، مثلاً
ایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسراف بے جا ہیں، وہ بھی آیت کی رو سے
ممنوع و ناجائز ہے۔
آیت میں لاتأکلوا کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں ”مت کھاؤ ۔“ مگر عام محاور کے اعتبار سے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے
کے مال میں ناحق طور پر کسی قسم کا تصرف نہ کرو، خواہ کھانے پینے کا ہو یا اسے
استعمال کرنے کا، عرف عام میں کسی کے مال میں تصرف کرنے کو اس کا کھانا ہی بولا
جاتا ہے، اگرچہ وہ چیز کھانے کی نہ ہو، لفظ ”باطل“ جس کا ترجمہ”ناحق“ سے کیا گیا ہے عبداللہ بن مسعود اور جمہور صحابہ کے
نزدیک تمام ان صورتوں پر حاوی ہے جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں، جس میں چوری ،
ڈاکہ ، غضب، خیانت، رشوت ، سود و قمار اور تمام معاملات فاسدہ داخل ہیں ۔ (بحر
محیط)تجارت کی بہت ساری حلال اور حرام
صورتیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
(آیت نمبر :۳۲)
{وَلَا
تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ
نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا
اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا } [النساء : ]32]
ترجمہ:
اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی مردوں کے
لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے، اور عورتوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ اور اللہ سے اس
کا فضل مانگو، بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
احکام
شرعیہ:
النھی
عن التمنی:آیت میں ان غیر اختیاری فضائل کی تمنا
کرنے سے منع کیا گیا ہے جو دوسروں کو حاصل ہوں، مثلاً مردوں کا میراث میں عورت سے
دگنا حصہ لینا یا ایک مرد کی گواہی کا دو عورتوں کی گواہی کے برابر ہونا وغیرہ۔
(آیت
نمبر:۳۳)
{وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ
الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ
نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا } [النساء : 33]
ترجمہ: اور ہم نے سب کے لئے مال کے مستحق بنادیے ہیں جو کچھ چھوڑ
جائیں ماں باپ اور قرابت والے اور وہ جن سے تمہارا حلف بندھ چکا انہیں ان کا حصہ
دو، بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔
احکام شرعیہ:
عقدموالات کا مسئلہ:
عقد موالات یعنی باہمی رضامندی سے میراث میں حصہ دینے کا
حکم مذکور ہے۔(یہ ابتدائ اسلام میں تھا بعد میں آیت وَاُولُوالاَرحَامِ
بَعضُھُم اَولٰی بِبَعضٍ سے
یہ آیت منسوخ ہوگئی اب اگر دوسرے ورثا موجود ہو تو دو شخصوں کی باہمی رضامندی سے
میراث پر کچھ اثر نہیں پڑتا)۔
(آیت نمبر:۳۴)
{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ
اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ
فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ
وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي
الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ
سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا} [النساء : 34]
ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو
دوسرے پر فضیلت دی اور اس لئے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک عورتیں
فرماںبردار ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا
اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے اپنا
بستر الگ کردو اور انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو ان پر زیادتی
کی کوئی راہ نہ چاہو بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔
احکام شرعیہ:
مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہیں لہٰذا عورت پر شوہر کی
اطاعت لازم ہے۔
بیوی پر شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے نفس اور مال کی حفاظت
لازم ہے اور مرد پر عورت کا نان نفقہ لازم ہے۔
جو عورت شوہر کی نافرمان ہو اس کی اصلاح کا حکم اور اصلاح
کا طریقہ مذکور ہے۔
اسلام نے عورتوں
کو وہ تمام انسانی حقوق دیئے جو مردوں کو حاصل ہیں، اگر عورتوں کے ذمہ مردوں کی
کچھ خدمات عائد کیں تو مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق فرض کئے۔
سورہ بقرہ کی آیت
میں ارشاد فرمایا: ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف(۲:۸۲۲) یعنی ”عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے
مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں ۔‘ اس میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دے کر اس کی تفصیلات
کو عرف کے حوالہ سے فرمایا جاہلیت اور تمام دنیا کی ظالمانہ رسموں کا یکسر خاتمہ
کر دیا، ہاں یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورت کے اعتبار سے متماثل ہوں، بلکہ
عورت پر ایک قسم کے کام لازم ہیں تو اس کے مقابل مرد پر دوسری قسم کے کام ہیں ،
عورت امور خانہ داری اور بچوں کی تربیت و حفاظت کی ذمہ دار ہے، تو مردان کی
ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسب معاش کا ذمہ دار ہے، عورت کے ذمہ مرد کی خدمت و
اطاعت ہے تو مرد کے ذمہ اس کا مہر اور نفقہ یعنی شام ضروری اخراجات کا نتظام ہے،
غرض اس آیت نے عورتوں کو مردوں کے مماثل حقوق دیدیئے۔
لیکن ایک چیز ایسی
بھی ہے جس میں مردوں کو عورتوں پرایک خالص فضیلت حاصل ہے، اس لئے اس آیت کے آخر
میں فرمایا: وللرجال علیھن درجة یعنی مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہے۔
ان آیات میں اسی
درجہ کا بیان قرآن کریم کے حکیمانہ طرز بیان کے ساتھ اس طرح کیا گیا ہے کہ مردوں
کی یہ فضیلت اور تفوق خود عورتوں کی مصلحت اور فائدہ کے لئے اور عین مقتضائے حکمت
ہے اس میں عورت کی نہ کسر شان ہے نہ اس کا کوئی نقصان ہے۔
(آیت نمبر :۳۵)
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا
مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ
اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا } [النساء : 35]
ترجمہ: اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو کہ باہمی ضد
کرتے ہیں تو ایک منصف مرد والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک منصف عورت والوں کی طرف سے
یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان میں موافقت کرادے گا، بیشک اللہ جاننے
والا خبردار ہے۔
احکام شرعیہ:
زوجین کے درمیان صلح کرانے کا شرعی ضابطہ۔
میاں بیوی کے درمیان صلح کے لئے خاندان کے دوسرے افراد کو
صلح صفائی سے مسئلہ حل کرنے کا حکم ہے۔
۱: زوجین کے درمیان اگر کوئی اختلاف آجائے تو اس کو ختم کرانے
اور صلح کرانے کے لئے ایک فریق مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان کی طرف سے
مقرر کیا جائے بہتر یہ ہے کہ صلح کرانے والا نزدیکی رشتہ دار ہو البتہ اجنبی بھی
مصلح بن سکتا ہے بشرطیکہ سمجھدار ،منصف،غیر جانبدار، عادل اور معاملات کو سلجھانے
والا ہو فقہ پر اس کی نظر ہو ،حسن نیت سے
زوجین کا اختلاف ختم کرنے کی کوشش کرے۔([38])
۲: گھر کا جھگڑا گھر ہی میں تدریجی تدبیروں کے ساتھ چکا
دیا جائے۔
۳: یہ صورت ممکن نہ رہے تو حکام یا برادری کے لوگ دو
حکموں کے ذریعہ ان میں مصالحت کرا دیں تاکہ گھر میں نہیں تو خاندان ہی کے اندر
محدود رہ کر جھگڑا ختم ہو سکے۔
۴: جب یہ بھی ممکن نہ رہے تو آخر میں معاملہ عدالت تک
پہونچے، وہ دونوں کے حالات و معاملات کی تحقیق کر کے عادلانہ فیصلہ کرے۔
۵: آخر آیت میں ان اللہ کان علیماً خبیراً، فرما کر دونوں
حکموں کو بھی متنبہ فرما دیا کہ تم کوئی بے انصافی یا کج روی کرو گے تو تم کو بھی
ایک علیم و خبیر سے سابقہ پڑنا ہے اس کو سامنے رکھو ۔([39])
حواشی اور حوالہ جات:
[1]۔احکام القرآن از امام ابوبکر احمد
بن علی رازی جصاص،ج۲،ص۸۲۔
[2]۔ احکام
القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص،ج۵،ص۹۔
[3]۔ احکام
القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص،ج۲،صفحہ ۵۰۔
[4] ۔تفسیر ابن کثیرحافظ عماد الدین اسماعیل بن عمربن کثیر شافعی
ج۱،ص۴۴۹۔
[5]۔ تفسیر
ابن کثیرحافظ عماد الدین اسماعیل بن عمربن کثیر شافعی ج۱،ص۴۴۹،
[6]۔(بخاری۔ کتاب التفسیر)
[7]۔ التعریفات:۱؍۸۱
[8]۔ البدائع
الصنائع۳۱۴۔۵۔
[9]۔ کنز
العمال،کتاب النکاح،الفصل الثالث فی الصداق۔
[10]۔(ابن ماجہ۔ کتاب النکاح۔ باب الرجل یسلم و عندہ أکثر من أربع نسوۃ)
[11]۔ تفسیر
تیسیر القرآن
[12]۔مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر معارف القرآن
[13]۔سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر
۲۸۸ حدیث مرفوع مکررات ۲۱ متفق علیہ۱۰۔
[14] ۔ج۲۔ تفسیر معارف القرآن
[15]۔از مولانا مفتی محمد شفیع،ج۲۔
معارف القرآن
[16]۔ تفسیر
تیسیر القرآن
[17]۔ تفسیر
تیسیر القرآن
[18]۔الجامع الاحکام القرآن از علامہ ابو عبداللہ محمدبن
احمدمالکی قرطبی ج۵،ص۶۰۔
[19]۔ تفسیر خازن از علامہ علی بن محمد خازن شافعی ج۱،ص۳۵۰۔
[20]۔ تفسیر
خازن از علامہ علی بن محمد خازن شافعی ج۱،ص۳۵۰
[21]۔الجامع الحکام القرآن از علامہ ابو
عبداللہ محمد بن احمدمالکی قرطبی ج۵،ص۶۰۔
تفسیر خازن از علامہ علی بن محمد خازن شافعی ج۱،ص۳۵۰،۳۵۴
[22] ۔تفسیر مظہری
از علامہ قاضی ثنااللہ پانی پتی عثمانی مجددی۔
[23]۔ تفسیر
روح المعانی از علامہ ابو الفضل سید محمود آلوسی حنفی ج۴،ص۲۲۹۔
[24] ۔معارف القرآن ج۲،
[25] ۔تفسیر روح المعانی از علامہ ابو الفضل سید محمود آلوسی
حنفی ج۴،ص۲۳۴۔
[26]۔ تفسیر مظہری از علامہ
قاضی ثنااللہ پانی پتی عثمانی مجددی ج۲،ص۵۳۴۔
[27]۔ احکام
القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص،ج۲،ص ۱۲۱ وما بعد۔
تفسیر مظہری از علامہ قاضی ثنااللہ پانی پتی
عثمانی مجددی ج۲ص۵۴۷۔
[28]۔ احکام القرآن
از امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص،ج۲،ص۱۱۳ وما بعد،
[29] ۔احکام القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی
جصاص،ج۲،ص۱۲۴۔
تفسیر
جلالین از علامہ حافظ جلال الدین سیوطی و علامہ جلال الدین محلی
انوار
التنزیل و اسرار التاویل المعروف بہ بیضاوی از قاضی ابو الخیر عبداللہ بن عمر
بیضاوی شیرازی شافعی ص۱۷۸۔
تفسیر
مظہری از علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی عثمانی مجددی ج۲،ص۵۵۳۔
[30] ۔احکام القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی
جصاص،ج۲،ص۱۲۴۔
تفسیر
جلالین از علامہ حافظ جلال الدین سیوطی و علامہ جلال الدین محلی
[31]۔ صحیح
مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر۱۰۷۶ حدیث مرفوع مکررات ۴۷ متفق علیہ ۲۱(اصل میں حدیث
نمبر۳۵۶۸)۔
[32]۔ تفسیر
خازن از علامہ علی بن محمد خازن شافعی ج۱،ص۳۶۳۔
[33] ۔احکام القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی
جصاص،ج۲،ص۱۲۴۔
[34]۔ تفسیر
خازن از علامہ علی بن محمد خازن شافعی ج۱،ص۳۶۳۔
[35] ۔احکام القرآن از امام ابوبکر احمد بن علی رازی
جصاص،ج۲،ص۱۳۰۔
[36]۔ تفسیر
خازن از علامہ علی بن محمد خازن شافعی ج۱،ص۳۶۳۔
[37]۔ تفسیر
تیسیر القرآن
[38]۔ جامع
الاحکام القرآن از علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی ج ۵،ص۱۷۵۔
[39] ۔تفسیر معارف القرآن ج۲۔
1 Comments
Good job
ReplyDelete