فہرست مضامین
صفحہ نمبر |
عنوان |
نمبر شمار |
3 |
تحرک ریشمی رومال
کا مختصرتعارف |
1 |
4 |
شیخ الہند مولانامحمود الحسن ؒ |
2 |
5 |
مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ |
3 |
6 |
شیخ عبدالرحیم
سندھی |
4 |
6 |
شیخ عبدالمجید
سندھی |
5 |
7 |
مولانا حافظ
برکت اللہ بھوپالی |
6 |
7 |
مولانا منصور
انصاری |
7 |
8 |
مولانا احمد علی
لاہوری ؒ |
8 |
8 |
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ |
9 |
9 |
مولانا عزیر گل |
10 |
9 |
مولانا سیف
الرحمٰن کابلی |
11 |
10 |
مولوی محمد علی |
12 |
10 |
شیخ ابراہیم |
13 |
10 |
مولانا سیّد
احمد مدنی |
14 |
10 |
مولانا وحید
احمد فیض آبادی |
15 |
11 |
حکیم سید نصرت
حسین |
16 |
11 |
مصادر
و مراجع |
17 |
﷽
اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ
عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
تحرک ریشمی رومال کا
مختصرتعارف:
تحریکِ آزادی میں علمائے کرام کی جد وجہد وقربانی کو
خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کی تحریک اس وقت شروع ہوئی ،جب ہندوستان کی آزادی کے لیے
ملک میں کوئی دوسری تحریک شروع نہیں ہوئی تھی۔ ملک کی آزادی کے لیے، انھوں نے ہر
طرح کی قربانیاں دیں۔ قید وبند کی تکلیفیں برداشت کیں،پھانسیاں دی گئیں،کالاپانی
بھیجے گئے۔ اس تحریک میں خود حصہ لیا۔ برادرانِ وطن کودعوت دی، اور ان کے ساتھ مل
کر ملک کو آزاد کرانے میں پیش پیش رہے۔ ان حضرات نے ملک کی آزادی کے لیے بہت سی
تحریکیں بھی چلائیں اور بہت سی تنظیمیں قائم کیں، جن کا ملک کی آزادی میں اہم رول
رہا ہے۔ان تحریکوں میں سے تحریک ریشمی رومال بہت مشہور ہے۔
ریشمی رومال تحریک (انگریزی: Silk
Letter Movement) علمائے اہلسنت و جماعت کی 1913 سے 1920 کے درمیان
شروع کی گئی تحریک ہے۔ اس کا مقصد جرمنی، ترکی اور افغان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد
کرانا تھا۔
اگرچہ کہ اس تحریک میں قائدانہ
کردار ادا کرنے والے علماء کا تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا لیکن اس میں یونیورسٹی اور
کالجز کے طلباء اوردیگر دینی مراکز اور مکاتب فکر کے علماء و افراد بھی شریک جدو جہد
رہے، انہوں نے وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کی بے شمار قربانیاں دیں،
اگرچہ ان کی تحریک اسلامی عقائد کی بنیاد پہ آزادی کے مقصد
پہ جدو جہد کر رہی تھی، لیکن انہوں نے اپنے ہندو بھائیوں سے بھی شانہ بشانہ مل کر آزادی
کی جدو جہد کے لئے کام کیا۔
۱۰/اگست ۱۹۱۶ء
کو رب نواز کے ذریعہ کمشنر کو تحریک کے بارے میں مفصل رپورٹ ملی ، اس کی روشنی میں حکومت نے نہایت ہی تیزی سے کاروائی
شروع کردی، چھاپے مارے گئے۔ اور گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ اور اس طرح ۲۲۰ افراد کے خلاف انکوائری اور پوچھ تاچھ کی گئی۔ ۵۹اشخاص پر حکومت برطانیہ کا تختہ الٹنے کا اور غیر ممالک سے
امداد حاصل کرنے کی سازش کا مقدمہ قائم کیاگیا۔
یہاںاس تحریک میں شامل
چند علماء کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
1.
شیخ الہند مولانامحمود الحسن ؒ :
شیخ الہند مولانا محمود
حسن کے والد محترم کا
نام مولانا ذوالفقار علی تھا۔ آپ کی پیدائش
۱۸۵۱ء کو بریلی میں ہوئی۔ چھ
سال کی عمر میں سلسلہٴ تعلیم شروع ہوا ۔ ابتدائی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی ۔
تعلیم کی تکمیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے کی ۔ آپ سفر وحضر میں حضرت استاذ
کے ساتھ رہے۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد معین مدرس بنائے
گئے۔ اور چار سال کے بعد دارالعلوم دیوبند میں مدرسِ چہارم قرار دیے گئے۔ پھر ۱۸۸۸ء میں صدر المدرسین کے
عہدہ پر فائزکیے گئے۔ جس کے فرائض ۱۹۱۵ء
تک انجام دیتے رہے۔
دار العلوم میں مدرس کی حیثیت سے تقرر کو
پانچ سال ہوئے تھے کہ آپ نے دارالعلوم ہی کے حلقہ میں ایک جماعت بنائی ”ثمرة
التربیت“ اس کا نام تجویز کیا ۔ دارالعلوم کے مالی مفاد کے لیے فضلاء اور ہمدردانِ
دارالعلوم سے رابطہ رکھنا اس جماعت کا مقصد ظاہر کیاگیا؛ مگر ظاہر ہے کہ جملہ
مقاصد کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاتا۔
۱۳۲۱ھ/۱۹۰۳ میں”نظارة المعارف“ کا
قیام عمل میں آیا۔ اس کے بانی حضرت مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ اور روحِ رواں حضرت
شیخ الہندمولانا محمود حسن ۔
یہ تعلیم گاہ بھی تھا۔ تربیت گاہ بھی اور خفیہ مشورہ گاہ بھی۔ حضرت مولانا سید
حسین احمد مدنی تحریر
کرتے ہیں:
”اس کا مقصد یہ تھا
کہ انگریزی تعلیم سے نوجوانانِ اسلام کے عقائد اور خیالات پر جو بے دینی اور
زہریلا اثر پڑتا ہے اس کو زائل کیا جائے اور قرآن کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ ان
کے شکوک وشبہات دینِ اسلام سے دور ہوجائیں اور وہ سچے اور پکے مسلمان ہوجائیں ۔“
ساتھ ہی اس کا مقصد سیاسی بھی تھا۔ سی آئی
ڈی نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:
دیوبند کو اپنے مشنریوں کی تربیت گاہ نہ بنا سکا تو
عبیداللہ نے فیصلہ کیا کہ ایک مدرسہ دلّی میں اس مقصد کے لیے قائم کرے۔ اس میں درس
کے علاوہ جو ”نظارةالمعارف“ میں دیا جاتاتھا وہ صریحاً درست نہیں تھا،یہ سازشوں کے
لیے وقتاً فوقتاً مل بیٹھنے کے لیے ایک جلسہ گاہ بھی تھا۔“
۱۹۱۴ء
میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن نے محسوس کیا کہ وقت قریب آگیاہے کہ
ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ شروع کی جاسکتی ہے ۔ حضرت شیخ الہند نے محسوس کرلیاتھا کہ ہندوستانی عوام
اور مشرقِ وسطی کے ممالک خصوصاًافغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ کو متحد کیے
بغیر برطانوی حکومت سے ایشیاء کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا ہے۔ اس وقت خلافت عثمانیہ
مشرقی وسطی کے وقار کی محافظ سمجھی جاتی تھی، اور ترکی ہی برطانیہ،اٹلی ‘ فرانس،یونان
اور روس کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا تھا؛ اس لیے آپ نے حضرت مولا نا عبید اللہ سندھی کو
افغانستان جانے کا حکم دیا اورخود حجاز وخلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔
آپ کو۲۳ صفر ۱۳۳۵ ھ
شبِ یکشنبہ کو چار عربی سپاہیوں کی
حراست میں تین رُفقاء
مولوی عزیر گل ،مولوی وحید احمد
اور مولوی نصرت حسین کے ہمراہ
مکہ معظمہ سے گرفتار کر کے جدہ
روانہ کیا گیا۔ سوا تین سال
تک مالٹا میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رہنا
پڑا ([1])۔۲۰
رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ کو بمطابق ۸ جون ۱۹۲۰ء کو دن ایک بجے دوبارہ سرزمین ِ ہندوستان پر قدم رکھا۔
2.
مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ
علیہ:
پیدائش اورخاندان :
امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید
اللہ سندھی 12 محرم الحرام 1289ھ / 10مارچ 1872ء بروز جمعۃ المبارک کو سیالکوٹ کے
قریب ایک گاؤں ’’چیانوالی‘‘ میں اپنے والدرام سنگھ کی وفات کے چار ماہ بعد پیدا
ہوئے۔آپ کے والد ہندو سے سکھ ہو گئے تھے۔([2]) آپ
کی والدہ کا نام پریم کور تھا۔آپ ایک سکھ
خاندان میں پیدا ہوئے آپ کے دادا نے آپ کا نام بوٹا سنگھ رکھا۔دو سال کی عمر میں
آپؒ کے دادا کا بھی انتقال ہو گیا تو ان کی والدہ انھیں لے کر اپنے والدین کے گھر
جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان چلی گئیں۔
تعلیم و تربیت:
1878ء میں چھ سال کی عمر میں جام پور میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ اردو مڈل
تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ آپؒ
نے اپنے تعلیمی عرصے میں ریاضی، الجبرا، اُقلیدس اور تاریخِ ہند سے متعلق علوم بڑی
دلچسپی سے پڑھے۔ 1884ء میں بارہ سال کی عمر میں ایک نومسلم عالم عبید اللہ
مالیرکوٹلی کی کتاب ’’تُحفۃُ الہِند‘‘ پڑھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپؒ نے اسلام
قبول کیا اور اس کے مصنف کے نام پر آپؒ نے اپنا نام ’’عبید اللہ‘‘ رکھا۔ پھر قبول اسلام
کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں
داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی۔
1888ءمیں سید العارفین حضرت حافظ محمد صدیق بھر چونڈیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ انھوں
نے حضرت سندھیؒ کو اپنا بیٹا بنا کر توجۂ باطنی ڈالی۔ اس اجتماعِ صالح کی برکت سے
مولانا سندھیؒ کے قلب میں معاشرتِ اسلامیہ راسخ ہو گئی۔ مولانا سندھی رحمۃ اللہ
علیہ نے اپنی ذاتی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’ حافظ صاحب کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ اسلامی معاشرت میری طبیعت ثانیہ بن
گئی۔‘‘([3])
دو ماہ قیام کے بعد سید العارفین کے خلیفۂ اوّل
حضرت مولانا ابوالسراج غلام محمدؒ کے پاس دین پور تشریف لے آئے۔ آپؒ کے اساتذۂ
کرام میں مولانا عبد القادرؒ، مولانا خدا بخشؒ، مولانا احمد حسن کانپوریؒ (شاگرد حضرت
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ)، مولانا حافظ احمدؒ مہتمم دار العلوم دیوبند، حضرت شیخ
الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے جید علمائے کرام
شامل تھے۔ امتحااامتحان میں مولانا سید احمد دہلویؒ نے حضرت سندھیؒ کے جوابات کی
بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ: ’’اگر اس کو کتابیں ملیں تو یہ شاہ عبد العزیز ثانی
ہوگا۔‘‘
3. شیخ عبدالرحیم سندھی:
شیخ عبدالرحیم سندھی جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر
ہوکر اسلام قبول کرلیا یہ بھی حضرت شیخ الہند کی تحریک کےمعتمدتھے۔شیخ عبدالرحیم ریشمی
رومال تحریک کے اہم رہنما تھے جو
افغانستان ہجرت کر گئے تھے۔آپکا تعلق حیدرآباد سے تھا یہ پاکستان کے سابق سکرٹری
خارجہ نجم الدین شیخ کے چچا تھے۔آل انڈیا نیشنل
کانگرس کے مرکزی رہنما آچاریہ کر
پالانی شیخ عبدالرحیم کے بھائی تھے۔
4. شیخ عبدالمجید سندھی:
شیخ عبد المجید سندھی 7 جولائی، 1889ء کو سندھ کے تاریخی
شہر ٹھٹہ میں ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام جیٹھ آنند تھا۔ 20 سال کی
عمر میں انہوں جناب عبد الرحیم کے ہاتھ اسلام قبول کیا جنہوں نے ان کا عبد المجید
رکھا۔ ہندوؤں کے احتجاج پر انہیں کچھ عرصے کے لیے لدھیانہ بھیج دیا گیا۔ جہاں سے
وہ جلد کراچی لوٹ آئے۔ کراچی کے حالات سازگار نہ پا کر وہ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔ شیخ
عبد المجید سندھی نے اپنی صحافت کی ابتدا سکھر سے نکلنے والے سندھی ہفت روزہ الحق
کی۔ 1918ء میں انہوں نے ریشمی رومال تحریک میں حصہ لینے کے پاداش میں 3 سال اور
1920ء میں تحریک خلافت میں انگریزوں کے خلاف تقرریر کرنے کے الزام میں 2 سال قید
کاٹی۔ 1924ء میں انہوں نے سندھی روزنامہ الوحید جاری اور اس کے ذریعے سندھی
مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کرتے رہے۔ سندھ سے بمبئی کی علاحدگی کے بعد انہوں نے
الوحید کا سندھ آزاد نمبر شائع کیا، یہ تاریخی نمبر 16 جون، 1936ء کو شائع ہوا۔
شیخ عبد المجید سندھی نہ صرف سندھ اور انڈیا، بلکہ بین
الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی سیاسی پیشن گوئیاں ہمیشہ سچ ثابت ہوتی
تھیں۔ اس حوالے سے ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ سندھ کے نامور سیاست دان ان کو
اپنا رہنما مانتے تھے۔ وہ انتخابی سیاست کی روح سے بھی بخوبی واقف تھے اور ان کے
انتخابی فیصلے ہمیشہ کامیاب ہوتے تھے۔ انہوں نے ایسا ہی ایک فیصلہ کیا اور وہ سر
شاہ نواز بھٹو کے خلاف سندھ اسمبلی کے 1937ء انتخابات میں حصہ لینا تھا۔ لاڑکانہ میں
سر شاہ نواز بھٹو کے خلاف انتخابات لڑنا ایک انقلابی فیصلہ تھا۔ شیخ صاحب کا تعلق
عوام سے تھا اور ان کا انداز بھی عوامی تھا۔ ان کی انتخابی مہم بیل گاڑیوں پر چلائی
گئی، جب کہ سر شاہ نواز بھٹو کے حمایتی ان کی مہم جیپوں پر چلا رہے تھے۔ سندھ اسمبلی
کے اس انتخاب میں شیخ عبد المجید سندھی آزاد سندھ پارٹی کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہوئے۔
کچھ عرصہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی شامل رہے۔ 1949ء میں انہوں نے آل پاکستان
عوامی پارٹی قائم کی۔
قیام پاکستان کے بعد شیخ عبد المجید سیاسی طور پر معتوب
ٹھہرے۔ وہ شخص جس نے ہندو سے مسلمان ہونے کے بعد جس جوش و جذبے سے ہندوستانی
مسلمانوں کے حقوق کے لیے نہ صرف آواز اٹھائی، بلکہ عملی طور پر بھی جدوجہد کی، ان
کی ان تمام خدمات کا صلہ دینے کی بجائے انہیں سیاسی اچھوت قرار دے دیا گیا۔
5. مولانا حافظ برکت اللہ بھوپالی:
عبد الحافظ محمد برکت اللہ (7 جولائی 1854ء تا 20 ستمبر
1927ء) اپنے اعزازی نام 'مولانا برکت اللہ' سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک بھارتی
انقلابی تھی جن کی ہمدردیاں پان اسلامی تحریک کے ساتھ تھیں۔ برکت اللہ 7 جولائی
1854ء کو مدھیا پردیش ، بھارت کے اتورا محلہ بھوپال میں 7 جولائی 1854ء کو پیدا
ہوئے۔ وہ بھارت سے باہر رہ کر اپنی پرجوش تقاریر اور نمایاں اخبارات میں انقلابی
تحریروں کے ذریعے تحریک آزادی میں حصہ لیتے رہے۔ وہ بھارت کو آزاد ہوتے نہیں دیکھ
سکے۔ 1988ء میں بھوپال یونیورسٹی کو ان کے اعزاز میں برکت اللہ یونیورسٹی کا نام دیا
گیا۔
6. مولانا منصور انصاری:
آپ سن 1883ء میں بھارت کے صوبے اترپردیش کے ضلع
سہارنپور میں انبیٹا گادو نام کے گاوں میں پیدا ہوئے۔ علامہ مولانا ابوالحامد محمد
بن عبد اللہ منصور انصاری نے دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ آپ کی تربیت
دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کے گھر میں ہوئی۔آپ بھی تحریک
آزادی ہندیعنی تحریک ریشمی روما ل میں علامہ عبید اللہ سندھی کے ہم رکاب تھے اور
ریشمی رومالوں پر جو تین خطوط لکھے گئےتھےاس میں سے تیسراخط مولانا منصور انصاری
نے تحریر فرمایاتھا۔
7. مولانا احمد علی لاہوری ؒ:
کو گرفتار کرکے دہلی، شملہ، لاہور اور جالندھر کی مختلف
حوالاتوں میں کئی ماہ گزارنے کے بعد مشروط پر رہا کر دیا گیا ۔ آپ پر دہلی اور
سندھ جانے پر پابندی لگادی گئی اور آپؒ کو لاہور میں پابند ضمانت کرکے چھوڑ دیا گیا۔
ابتدائی زندگی:
انقلابی پالیسی انگلستان میں لالہ ہردیال اور راجا
ہتھراس کے بیٹے راجا مہیندرا پرتاب کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات قائم ہو گئے۔ افغان
امیر اور کابل اخبار سراج الاکبر کا ایڈیٹر ان کا دوست بن گیا۔ وہ 1913ء میں سان
فرانسسکو میں غدر پارٹی کے بانی بھی تھے۔ بعد میں دسمبر 1915ء میں بھارت کی صوبائی
حکومت قائم ہونے پر کابل میں اس کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے تعینات کیے گئے۔ ان
کے ساتھ راجا مہیندرا پرتاب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ برکت اللہ دنیا کے کئی
ممالک میں بھارتی تحریک آزادی کے حق میں معاون افراد کی تلاش کے لیے ایک سیاسی
مقصد کے تحت گیا اور وہاں کے مشہور رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ان نمایاں افراد میں قیصر
ولہیلم دوم، عامر حبیب اللہ خان، محمد رشید، غازی پاشا، لینن اور ہٹلر شامل تھے۔
انگلستان 1897ء میں انہوں نے مسلم حب الوطن لیگ کے
اجلاسوں میں شرکت کی۔ یہاں شیامجی کرشناورما کے گرد دیگر انقلابی باشندوں سے ملے۔
ایک سال امریکا میں گزارنے کے بعد فروری 1904ء میں وہ جاپان چلے گئے جہاں ٹوکیو یونیورسٹی
میں انہیں ہندوستان کے پروفیسر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ 1906ء موسم خزاں میں
برکت اللہ نے پان آریان ایسوسی ایشن تشکیل دی۔ جاپان میں سرگرمیاں:
1910ء میں انہوں نے ٹوکیو میں اسلامی بھائی چارے کا
آغاز کیا۔ دسمبر میں وہ تین جاپانیوں کے اسلام لانے کا باعث بنے جن میں ان کا
اسسٹنٹ، ان کے والد صاحب اور ان کی بیوی شامل تھی۔ یہ جاپان میں پہلے مسلمان کی حیثیت
سے جانے جاتے ہیں۔آزاد بھارتی حکومت:یکم دسمبر 1915ء کو اپنی 28 ویں سالگرہ پر پہلی
جنگ عظیم کے دوران میں انہوں نے کابل، افغانستان میں بھارت کی پہلی صوبائی حکومت
کا آغاز کیا۔
8.
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ:
مولانا سید احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا وطن موضع اللہ داد
پور ٹانڈہ ضلع فیض آباد ہے۔۱۹ شوال ۱۲۹۶ھ بمطابق ۱۸۷۹ ء کو ضلع اُنّا ؤ کے ایک
قصبہ بانگر مؤ میں پیدا ہوئے جہا ں آپ کے
باپ سید حبیب اللہ ہیڈ ماسٹر تھے۔ ۱۹ پشت
پہلے آپ کا خاندان ہندوستان آیا تھا۔
ابتدائی تعلیم پرائمری
سکول میں حاصل کرنے کے بعد ۱۴ سال کی عمر میں ۲ جمادی الثانی
۱۳۰۹بمطابق ۱۸۹۱ء کو آپ دیوبند تشریف لائے اور میزان الصرف میں داخلہ لیا
یہاں شیخ الہند نے آپ پر خصوصی توجہ
فرمائی ،یہاں سات سال گزارنے کے بعد واپس اپنے وطن تشریف لے گئے اور اپنے
والدین کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے وہاں تقریباً دس سال مسجد نبوی میں
درس حدیث کی خدمت کرتے ہے یہاں
طالبانِ علم کی ایک بڑی تعداد آپ کے گرد جمع ہوگئی۔مدینہ منورہ میں قیام
کے دوران کئی مرتبہ آپ ہندوستان تشریف لے گئے
اوت حضرت گنگوہی سے خلعت خلافت حاصل کیا۔۱۳۲۹ ھ میں تقریباً ایک سال دیوبند میں قیام فرما کر
تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔شریف حسین نے جب
شیخ الہند کو گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کیا تو آپ بھی ان کے رفقا ء میں شامل تھے ([4])چنانچہ
سوا تین سال تک مالٹا میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رہنا پڑا ۔([5])
9. مولانا عزیر گل:
آپ قصبہ کاکا صاحب ضلع پشاور کے باشندے ہیں
۱۳۳۱ھ کو دارالعلوم سے فراغت حاصل کر کے
شیخ الہند کی تحریک آزادی کے ممبر بن گئے تھے، (جبکہ بقول سیّد اصغر حسین ۱۳۳۲ھ تک دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی([6]))
تحریک کے بڑے اہم اور عظیم الشان کام انہوں نے بڑی قابلیت سے انجام دیئے آپ شیخ
الہند کی جماعت کے سر گرم کارکن تھے۔
حاجی تُرنگ زئی اور تحریک کے دوسرے اراکین تک خطوط اور
پیغامات کا پہنچانا انہی کے ذمّے تھا ۔شیخ الہند کے معتمد خاص ہونے کے ساتھ خزانچی
بھی تھے۱۳۳۳ھ میں شیخ الہند کے ساتھ حجاز گئے ،اور جب شیخ الہند کو گرفتار کرکے مالٹا میں نظر بند
کیا گیا تو آپ کوبھی ان کے ساتھ نظر بند کیا گیا۔اور انہی کے ساتھ واپس ہندوستان
آئے اور تحریک خلافت کے زمانے میں دیوبند
کی خلافت کمیٹی کے صدر بنائے گئے، دوسری جنگ عظیم سے قبل رُڑ کے مدرسہ رحمانیہ میں صدر مدرس مقرر ہوئے۔([7])
10. مولانا سیف الرحمٰن کابلی:
آپ نے ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی حدیث کی
تکمیل حضرت احمد گنگوہی رحمۃ اللہ
علیہ سے حاصل کی ا س کے بعد ٹونک میں
تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دی۔پھر مدرسہ
عالیہ فتح پور دہلی میں صدر مدرس
ہوگئے۔حضرت شیخ الہند سے وابستہ ہو کر اُن کی تحریک کے سر گرم رکن بن گئے۔ہندوستان
میں اُ ن کے بہت سے شاگرد تھے ، شیخ الہند کے ارشاد پر ہجرت کرکے یاغستان کے آزاد علاقے میں چلے گئے وہاں کے لوگوں کے وعظ و تبلیغ کے ذریعے
ہندوستان کی آزادی کے لئے تیار کیا۔جنود ربانیہ میں ان کا عہدہ میجر جنرل کا تھا
، پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں جب ۱۹۲۴ء
میں حاجی تُرنگ زئی نے انگریز ون کے خلاف علم ِ جہاد بلند کیا تو مولانا سیف الرحمٰن نے اس میں شریک ہو کر نمایاں کام کئے جنگ کی اس
کوشش میں ناکام ہونے کے بعد افغانستان چلے گئے۔امیر امان اللہ خان کے عہد میں
افغانستان میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے،پاکستان بننے کے بعد پشاور واپس آ گئے۷
جمادی الاوّل ۱۳۲۹ ء کو اپنے آبائی وطن میں وفات پائی۔([8])
11. مولوی محمد علی:
12. شیخ ابراہیم:
آپ دونوں حبیبیہ کالج کے پرنسپل اور پروفیسر تھے۔
13. مولانا سیّد احمد مدنی:
حضرت مولانا
حسین احمد مدنی کے بزرگ مولانا سید احمد
مدنی ۱۲۹۳ھ کو بانگر مؤ ضلع اُنّاؤ (اودھ )میں پیدا ہوئے آبائی وطن
اللہ داد پور ٹانڈہ ضلع فیض آباد
تھا قرآن شریف اور فارسی کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی پھر الہ آباد بورڈ سے
اُردو میں مڈل پاس کیا اسکے بعد دارالعلوم
مین داخل ہو کر درس نظامی کی تکمیل کیا
اور ۱۳۱۵ ھ کو تحصیل علوم سے فارغ ہوئے،۱۳۱۶ھ
میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ منورہ چلے گئے وہاں ساری عمر علوم دینیہ کی
تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔۱۳۴۰ھ میں
مسجد نبوی سے متصل مدرسۃ الشرعیہ قائم کیا۔
حضرت مولانا سید احمد کو حضرت شیخ الہند سے خلافت حاصل کی تھی،آپ ۱۱ شوال ۱۳۵۸ھ میں
وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
([9])
14. مولانا وحید احمد فیض آبادی:
آپ حضرات شیخ
الہند کے رفقاء میں سے تھے آپ شیخ الہند کے ساتھ مکہ سے گرفتار ہوئے اور ۲۳
سفر ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۲ فروری ۱۹۱۷ ء کو قاہرہ کے راستے بذریعہ بحری جہاز مالٹا بھیج دیا گیا جہاں انہیں تین سال چار ماہ تک کے لئے قید
میں رہنا پڑا ٓپ مغرب کے بعد چراغ
جلا کر مشکوۃ شریف
لے کر صحن میں بیٹھ جاتے اور کیمپ کے مسلمان اسیر ان کے ارد گرد جمع ہوجاتے ۔ مولوی صا حب ان کو
احکام شرعیہ اور آداب مذہبی کی
تعلیم کر تے اور ہر شخص کو اس کی زبان ( عربی ،فارسی ،ترکی ) میں سمجھا کر
ذہن نشین کرادیتے ۔ لہذا قلعہ
مالٹا کے ذریعے سے آپ کے ظاہری اور باطنی فیوض ممالک بعیدہ تک پہنچ گئے اور بہت سے لوگ آپ کے حلقہ ادارت
و اخلاص میں داخل ہوئے۔ ([10])رہائی
کے بعد وہ آٹھ جون ۱۹۲۰ء کو ممبئی پہنچے
مگر مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا
محمد میاں منصور انصاری کو کئی برسوں تک
جلا وطن رہنا پڑا۔
15. حکیم سید نصرت حسین :
۱۳۲۲ھ میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت
حاصل کی ،آپ کو بھی شیخ الہند کے ساتھ
مکہ سے گرفتار کیا گیا۲۹ ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۲ فروری ۱۹۱۷ ء کو
قاہرہ کے راستے بذریعہ بحری جہاز مالٹا
بھیج دیا گیا ۔دوران ِ قید آپ نزلہ اور بخار میں مبتلا رہنے
لگے ، مولانا حسین احمد مدنی نے افسران بالا تک درخواستیں پہنچائی کے مالٹا کی بردت کی وجہ سے ہم لوگوں کی صحت پر مضر
اثرات مرتب ہو رہے ہیں چنانچہ ایک رفیق
مسلسل بیمار رہنے لگے ہیں ہم کو یا تو آزاد کر دیا جائے یا کسی مناسب مقام پر
منتقل کیا جائے لیکن کچھ نتائج برآمد نہ ہوئے
اور ۱۳۳۷ھ کو مرض نے شدت اختیار کر لی
باوجود علاج کے جانبر نہ ہوسکے اور
بحالت قید مالٹا میں وفات پاکر خالق حقیقی
سے جا ملے۔([11])
مصادر و مراجع:
[1] ۔ تاریخ دار العلوم دیو بند،سیّد
محبوب رضوی، ص۸۲۔۸۳، جلد دوم ،میر محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ
کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[2] ۔ تاریخ دارالعلوم
دیوبند،سیّد محبوب رضوی،جلد دوم،ص۶۵۔میر محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ
کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[3] ۔ تاریخ دار العلوم دیو بند،سیّد محبوب رضوی، ص ۶۵میر محمد کتب
خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[4] ۔ حیات شیخ الہند،سیّد
اصغر حسین،ص۱۲۳۔ناشر ، ادارہ اسلامیات
انار کلی لاہور،جنوری ۱۹۷۷ ء۔
[5] ۔ تاریخ دار العلوم دیو بند،سیّد
محبوب رضوی، ص۸۲۔۸۳، جلد دوم ،میر محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ
کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[6] ۔ حیات شیخ
الہند،سیّد اصغر حسین،ص۹۲۔ناشر ، ادارہ اسلامیات
انار کلی لاہور،جنوری ۱۹۷۷ ء۔
[7] ۔ تاریخ دار العلوم دیو بند،سیّد
محبوب رضوی، ص۱۱۷۔۱۱۸، جلد دوم ،میر محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ
کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[8] ۔ تاریخ
دار العلوم دیو بند،سیّد محبوب رضوی، ص،۶۹۔۷۰،جلد
دوم۔ میر محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[9] ۔۔
تاریخ دار العلوم دیو بند،سیّد محبوب رضوی، ص۸۴۔۸۵، جلد دوم ،میر محمد کتب خانہ
مرکز علم و ادب آرام باغ کراچی۔۱۹۸۰ءطبع اول ۱۹۷۲ء
[10] ۔ حیات شیخ
الہند،سیّد اصغر حسین،ص۱۲۲۔ناشر ، ادارہ اسلامیات
انار کلی لاہور،جنوری ۱۹۷۷ ء۔
[11] ۔حیات شیخ الہند،سیّد اصغر حسین،ص۱۲۳۔ناشر ، ادارہ
اسلامیات انار کلی لاہور،جنوری ۱۹۷۷ ء۔
0 Comments