Ad Code

Responsive Advertisement

تفسیر اشاری کی تفصیل

 

 

اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

تفسیر اشاری کی تعریف:

تفسیرکی مختلف اقسام ہیں جو مفسرین کے مناھج کے مطابق ہیں ۔ " تفسیر اشاری " انہی

میں سے ایک قسم ہے جو ایک خاص فہم کو بیان کرتی ہے ۔ یہ فہم پہلی مرتبہ پڑھنے سے حاصل

نہیں ہوتا بلکہ انتہائی غور و خوض کے بعد اہل علم کو حاصل ہوتا ہے ۔

شیخ زرقانی

فرماتے ہیں:

قرآن کی تفسیر ظاہری معانی لئےبغیر ، باطنی اشارات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کرنا ، ان باطنی اشارات تک رسائی صرف

ارباب تصوف کو ہوتی ہے جبکہ اس علم میں  آیات کی تفسیر میں باطنی اور ظاہری معانی کو جمع کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔[1]

تفسیر اشاری کے بارے میں ابن قیم فرماتے  ہیں:

 اشارات وہ معانی ہیں جو مخفی معانی کو ظاہر کرتے ہیں ، کبھی یہ معانی سنائی دیتے ہیں ، کبھی

دکھائی دیتے ہیں ، کبھی عقلی حوالوں سے اسکا ادراک ہوتا ہے ، اور کبھی اسکا تعلق محسوسات

سے ہوتا ہے ۔ پس اشارات دلائل اور شخصیات سے تعلق رکھتے ہیں اور اسکا سبب وہ روحانی

پاکیزگی ہے جو جمعیت خاطر سے حاصل ہوتی ہے ، اور اس سے ذہن اور محسوسات لطافت میں ڈھل

جاتی ہیں ۔ انسانی ذہن لطافت کو جان لیتا ہے ۔ ابن قیم کہتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام

حافظ ابن تیمیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا " کہ اشارات سے مراد وہ لفظ ہیں جو روحانی

امور پر دلالت کرتے ہیں۔ [2]

تفسیر اشاری کی قبولیت کے شرائط:

علماءنے " تفسیر اشاری کو قبول کرنے کے لئے کچھ شرائط رکھی ہیں ۔ اسے قبول اس طرح کیا

جائے گا کہ اس کا انکار نہیں اور نہ ہی اسے لینا واجب ہے ۔ کیونکہ اسے قبول کرنے کی

شرائط میں سے یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو ۔ اور رہ گئی بات کہ اسے لینا ضروری

ہے کہ نہیں تو اس بارے میں یوں کہا گیا ہے کہ یہ ایک صوفی کا وجدان ہے اور لوگوں کے

لئے ضروری نہیں کہ اسے مان لیں کیونکہ یہ ایک راز ہے جو اللہ اور اسکے بندہ کے درمیان

ہے ۔

" مناھل العرفان " میں اسے قبول کرنے

کی شرائط کچھ اس طرح بیان کی گئی ہیں

Ø   قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو۔

Ø   یہ دعوی نہ کیا جائے کہ اس سے ظاہر مراد نہیں بلکہ اسکا باطنی معنی مراد ہے

Ø   ایسی تاویل نہ کی جائے جو باطل پر مبنی ہو جیسے کہ " ان اللہ لمع المحسنین " میں

" لمع " فعل ہے اور " محسنین " مفعول ہے ۔ اب یہ تفسیر نا قابل

قبول ہے۔

Ø   پھریہ بھی کہ تفسیر اشاری عقل اور شریعت کے مخالف نہ ہو

Ø   اورآخری شرط یہ ہے کہ کوئی شرعی دلیل ہو جو اسکی تایید کرے

علماء نے یہ بات بھی کی ہے کہ یہ شرائط ایک

دوسرے کے اندر اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ ایک دوسری کا بدل ہو سکتی ہیں ۔ مثلا مفسر کو

چاہئے کہ پہلے وہ لفظ کا وہ معنی بیان کرے جس کے لئے وہ وضع کیا گیا ہے پھر وہ تفسیر

اشاری کو بیان کرے ۔

تفسیر اشاری کا ثبوت:

تفسیراشاری کے لیےکوئی شرعی اصل و اساس ہے یا نہیں ؟اور کیا اس کاوجود عہد نبو ی اور عہد صحابہ

میں تھا یا نہیں یا پھرتفسیر اشاری اس وقت شروع ہو ئی جب تصوف کا آغاز ہوا ؟

 اس بارے میں محققین علما و ائمہ نے اس بات کی تائید و توثیق فرمائی ہے کہ تفسیر اشاری

دین میں کو ئی نئی ایجاد نہیں، اس کی اصل قرآن وسنت سے ثابت ہے، معارف قرآن  کے بیان کے لیے یہ کو ئی نیا طریقہ نہیں بلکہ یہ

اس وقت سے چلا آرہا ہے جب سے قرآن کریم کا نز ول شروع ہو اتھا۔ خود رسول اللہ صلی

اللہ علیہ وسلم نے اس منہج سے آگاہ فرمادیاتھا اور صحابہ کرا م بھی اس سے بخوبی واقف تھے۔امام شاطبی فرماتے ہیں:

ہٰذَاوَقَدْقَرَّرَعُلَمَاءُ التَّنْزِیْلِ اَنَّ لِلتَّفْسِیْرِ  الْاِشَارِی اَصَلًا شَرَعِیًّایَقُوْمُ عَلَیْہِ،وَاِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ اِبْتِدَاعًا جَدِیْدًافِی اِبْرَازِمَعَانِی الْقُرْآنِ

الْکَرِیْمِ،بَلْ ہُوَاَمْرٌمَعْرُوْفٌ مِّنْ لَّدُنْ نُزُوْلِہٰ عَلَی الرَّسُوْلِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَشَارَاِلَیْہِ الْقُرْآنُ وَنَبَّہٗ عَلَیْہِ الرَّسُوْلُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَذٰلِکَ عَرَفَہُ الصَّحَابَۃُ الْاَطْہَارُرِضْوَانُ اللہِ عَلَیْہِمْ وَ اَظْہَرُوْا اِقْبَاسًامِّنْہُ لِلْاُمَّۃِ ۔[3]

:ترجمہ

: علمائے قرآن نے اس با ت کو ثابت کیا ہے کہ تفسیر اشاری کی بنیاد شرعی اصل پر قائم

ہے ،قرآن کے معانی بیان کرنے کے لیے یہ کوئی نیا طریقہ نہیں بلکہ نزول قرآن کے زمانے

ہی سے یہ طریقہ موجودتھا جس کی طرف خو د قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے اور رسول اللہ صلی

اللہ علیہ وسلم نے بھی آ گاہ فرمایا ہے، اسی طرح خود صحابہ کرا م رضوان ا للہ علیہم

اجمعین بھی اس سے واقف تھے اور اس سلسلے میں ان کے تفسیری نظائر وامثال بھی موجود ہیں۔

تفسیر اشاری کے بارے میں علماء کے اقوال ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں :

امام غزالی اس ضمن میں کہتے ہیں " قرآن میں سارے کلمات "تفسیر اشاری" کا احتمال رکھتے ہیں ، یہ اسرار ہیں ۔ یہ ان پر کھلتے ہیں جو دل کی پاکیزگی رکھتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ علم کا رسوخ بھی رکھتے

ہیں ۔ قرآن کی تفسیر بیان کرنے کے لئے دنیا کے سارے سمندر سیاہی بن جائیں ، سارے درخت قلم بن جائیں تب بھی قرآن کے اسرار و رموز ختم نہیں ہونگے ، در اصل " تفسیر اشاری

" قرآن کی ظاہری تفسیر کو مکمل کرتی ہے کیونکہ وہ ظاہر کے منافی نہیں ہوتی۔[4]

تفسیر اشاری کے بارے میں شیخ تاج الدین بن عطاءاللہ سکندری اپنی کتاب " لطائف المنن" میں یوں رقمطراز ہیں " یہ تفسیراللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ اسے ظاہر پر محمول نہیں کیا جا

سکتا ، ہر آیت میں باطنی معانی پائے جاتے ہیں جوصرف اہل باطن پر منکشف ہوتے ہیں ۔ اس ضمن میں حدیث پاک میں یہ وارد ہے کہ " ہر آیت کا ظاہر اور باطن ہوتا ہے

" تو اس کی رو سے یہ کہا جائے گا کہ تفسیر کی یہ قسم نصوص سے ہی مترشح ہوتی ہے۔[5]

یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ تفسیر اشاری کی کچھ اقسام ہیں جنہیں امام طاہر ابن عاشور نے ذکر کیا ہے۔[6]

تفسیر اشاری کے اندر تین پہلو ہوتے ہیں:

·             اس میں کوئی مثال ہوتی ہے جسے بیان کیا جاتا ہے ۔ جیسے " ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ ان یزکر فیھا اسمہ

" یہ آیت دلوں کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ یہ جھکنے کے مقامات ہیں ، جب انسان اپنی ذات کو فنا کر لیتا ہے اپنی ہستی مٹا دیتا ہے تو اس کا دل اللہ کی سجدہ گاہ بن

جاتا ہے اور وہ دل اللہ کے لئے خاص ہوجاتا ہے۔

·            اس میں کسی چیز کے ساتھ تاثر کو بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ انسانی سماعت کسی کلمہ کو اپنےاعتبار سے سنتی ہے حالانکہ وہ کسی اور ہئیت میں ہوتا ہے ، جیسے " من ذا الذی یشفع

" میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی سماعت میں " من ذل ذی " آتا ہے اور وہ اسی سے معنی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ، امام محی الدین اس قسم کو " تفسیر سماعی

" کہتے تھے ۔

·             یہ قسم عبرت ، پند ونصائح اور واقعات پر مبنی ہے ۔ کیونکہ اہل عقل اس سے ہدایت حاصل کرتےہیں بالخصوص تفسیر باطنی سے ایسے معانی کا حصول بے شمار فوائد  اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔

یہاں ان تفاسیر کے نام ذکر کرنے ضروری ہیں جن میں " تفسیر اشاری " کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے ۔

1.    تفسیر نیشاپوری

2.    تفسیر آلوسی

3.    تفسیر تستری

4.    تفسیر محی الدین بن عربی

5.    تفسیر ابی عبد الرحمن السلمی (حقائق التفسیر )

6.    تفسیر ابی القاسم القشیری

7.    تفسیر ابی محمد الشیرازی (عرائس البیان فی حقائق القرآن)

8.    تفسیر ابن عجیبہ (البحرالمدید )

9.    تفسیر اسماعیل حقی (روح البیان )

.........................

حواشی اور حوالہ جات:

[1]۔مناھلالعرفان ، ط عیسی بابی الحلبی ، ج 2 ، س 56

[2] ۔مدارج السالکین ، ط دار الکتاب العربی ۔ ج 2۔ ص 389

[3] ۔ الموافقات، ص:۶۹۸-۶۹۹ دار الکتب العلمیہ

[4] ۔  احیاء علوم الدین ، ج 1 ،ص 293 ۔

[5] ۔ لطائف المنن۔ ط دار الکتاب المصری ، ص 335،336

[6] ۔ التحریر والتنویر ، ص 35


Post a Comment

1 Comments

  1. https://larticals.blogspot.com/2020/07/blog-post_7.html

    ReplyDelete

Close Menu