مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ
ولادت اورخاندان :
امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید
اللہ سندھی 12 محرم الحرام 1289ھ / 10مارچ 1872ء بروز جمعۃ المبارک کو سیالکوٹ کے قریب
ایک گاؤں ’’چیانوالی‘‘ میں اپنے والدرام سنگھ کی وفات کے چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔آپ
کے والد ہندو سے سکھ ہو گئے تھے۔([1]) آپ
کی والدہ کا نام پریم کور تھا۔آپ ایک سکھ
خاندان میں پیدا ہوئے آپ کے دادا نے آپ کا نام بوٹا سنگھ رکھا۔دو سال کی عمر میں
آپؒ کے دادا کا بھی انتقال ہو گیا تو ان کی والدہ انھیں لے کر اپنے والدین کے گھر
جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان چلی گئیں۔
تعلیم و تربیت:
1878ء میں چھ سال کی عمر میں جام پور میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ اردو مڈل
تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ آپؒ
نے اپنے تعلیمی عرصے میں ریاضی، الجبرا، اُقلیدس اور تاریخِ ہند سے متعلق علوم بڑی
دلچسپی سے پڑھے۔ 1884ء میں بارہ سال کی عمر میں ایک نومسلم عالم عبید اللہ
مالیرکوٹلی کی کتاب ’’تُحفۃُ الہِند‘‘ پڑھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپؒ نے اسلام
قبول کیا اور اس کے مصنف کے نام پر آپؒ نے اپنا نام ’’عبید اللہ‘‘ رکھا۔ پھر قبول اسلام
کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں
داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی۔
1888ءمیں سید العارفین حضرت حافظ محمد صدیق بھر چونڈیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ انھوں نے
حضرت سندھیؒ کو اپنا بیٹا بنا کر توجۂ باطنی ڈالی۔ اس اجتماعِ صالح کی برکت سے
مولانا سندھیؒ کے قلب میں معاشرتِ اسلامیہ راسخ ہو گئی۔ مولانا سندھی رحمۃ اللہ
علیہ نے اپنی ذاتی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’ حافظ صاحب کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ اسلامی معاشرت میری طبیعت ثانیہ بن
گئی۔‘‘([2])
دو ماہ قیام کے بعد سید العارفین کے خلیفۂ اوّل
حضرت مولانا ابوالسراج غلام محمدؒ کے پاس دین پور تشریف لے آئے۔ آپؒ کے اساتذۂ
کرام میں مولانا عبد القادرؒ، مولانا خدا بخشؒ، مولانا احمد حسن کانپوریؒ (شاگرد
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ)، مولانا حافظ احمدؒ مہتمم دار العلوم دیوبند،
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے جید علمائے
کرام شامل تھے۔ امتحااامتحان میں مولانا سید احمد دہلویؒ نے حضرت سندھیؒ کے جوابات
کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ: ’’اگر اس کو کتابیں ملیں تو یہ شاہ عبد العزیز
ثانی ہوگا۔‘‘
وحدت انسانیت:
مولانا کی زندگی کا ماحصل یہ ہے کہ آدمی ایک عقیدہ رکھے اور اس
عملی دنیا میں مادی شکل دینے کےلئے مسلسل جہاد کرتا رہے ۔انسان اپنے آپ سے جہاد
کرے ۔اپنے خاندان والوں سے جہاد کرے۔اپنے سماج سے جہاد کرے۔ رسوم و رواج کے خلاف
جہاد کرے۔قوم اس کی راہ میں حائل ہوتی ہے تو اس سے جہاد کرے۔مولانا فرماتے ہیں میں
نے زندگی میں عقیدہ اور جہاد کا سبق قرآن مجید اور اس سبق کا عملی نمونہ مجھے
رسول اللہﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی زندگیوں میں بدرجہ اتم نظر آیا۔([3])
مولانا کے خیال میں قرآن مجید کل
انسانیت کے بنیادی فکر کا ترجمان ہے۔اور یہ بنیادی فکرنہ کبھی بدلا ہے اور نہ آیندہ کبھی بدلے گا۔قرآن کے اصولوںپراس
دنیا میں خالص انسانیت کا قیام مولانا کا
عقیدہ ہے۔ان کے نزدیک خالس بے میل انسانیت ہی فطرۃ اللہ کی محافظ ہے اور سچا دین اگر ہے تو یہی ہے۔ مولانا
اپنے اس خیال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے
ہیں کہ میرے نزدیک اسلام کی تعلیمات کا لب
لباب قرآن کی آیت ھُوَ الّذِّی اَرْسَلَ رَسُوْلَہ
بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَّقِّ لِیُظہِرہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ
وَلَوْکَرِہَ المُشرِکُوْنَہے۔ یعنی قرآن کا مقصود اصلی سب دینوں سے
اعلی دین یعنی سب فکروں سے بلند تر فکر یا
سب سے بلند بین الاقوامی نظریہ جو ذیادہ سے ذیادہ انسانیت پر جامع ہو پیش کرنا اور
اس پر عمل کرانا ہے۔یہ دین دوسرے ادیان کو مٹانے نہیں آیا یہ سب ادیان کی بنیادی صداقتوں کو تسلیم کرتا ہے۔([4])
علمی اور سیاسی خدمات:
1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دالارشاد قائم کیا اور سات برس تک
تبلیغ اسلام میں منہمک رہے۔1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل
میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلبہ کی تنظیم “جمیعت الانصار“ کے سلسلے
میں اہم خدمات انجام دیں۔1912ء میں دلی نظارۃ المعارف کے نام سے ایک
مدرسہ جاری کیا جس نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا کام کیا ہے۔ آپ نے ’’جمعیت
الاانصار‘‘ قائم کی جس میں دارالعلوم دیوبند کے فاضلیں کی تعلیم و تربیت کا نظام اور
تحریک حریت پیدا کرنے کے لیے اجلاسات منعقد کیے گئے۔ اس جمعیت کی تحریک تاسیس میں مولانا
محمد صادق صاحب سندھی اور مولانا ابو محمد احمد لاہوری اور مولوی احمد علی عبیداللہ
کے ساتھ رہے۔ شیخ الہند ؒ کے کہنے پر آپ دیوبند سے دہلی منتقل ہوگئے۔1331ھ ،1913ء میں
آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر ’’الفوزالکبیر‘‘ کے اصولوں کی روشنی میں سمجھانے کے لیے دہلی
میں ’’نظارۃ المعاوف القرآنیہ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کی سر پرستی حضرت
شیخ الہند حکیم اجمل خاں اور نواب وقار الملک نے کی ۔
ریشمی رومال تحریک دیوبند کی 1913ء
سے 1920ء کے درمیان شروع کی گئی۔ اس کا مقصد جرمنی، ترقی اور افغانستان کی مدد سے ہندوستان
کو آزاد کرانا تھا۔ مولانا عبیداللہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایک
فورس جنود ربانیہ تشکیل دی تھی جس میں سندھ سے مولانا تاج محمد امروٹی، مولانا محمد
صادق کھڈے وارو، شیخ عبدالرحیم سندھی ، علامہ اسد اللہ شاہ ٹھکرالی شامل تھے جنہیں
مختلف ذمے داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ ایک دوسرے کو معلومات لکھ کر بھیجی جاتی تھیں۔
رومال پر لکھی تحریر ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے خاص اعتماد کے لوگوں کو استعمال کیا
جاتا تھا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے سعودی عرب میں مقیم حضرت شیخ الہند کے نام ایک
خط لال رومال پر لکھا جس میں کابل میں جاری سرگرمیوں اور آزادی کی جدوجہد کا تفصیلی
خاکہ اور ان افراد کے نام بھی درج تھے جو ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد
کی قیادت کرنے والے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ملک کے ہر خطے سے عوامی شورش کے ساتھ مسلح
جدوجہد کی جائے۔ اس خط کے ساتھ مولانا محمد میاں انصاری نے بھی ایک خط لگادیا جس میں
جلاوطن حکومت کے عہدے داروں کے نام کے ساتھ ساتھ جنود ربانیہ کے آئندہ منصوبوں کا ذکر
تھا۔ یہ رومال انہوں نے عبدالخالق نامی شخص کو دے کر روانہ کیا اور حیدرآباد خطوط شیخ
عبدالرحیم کے حوالے کیے تاکہ مدینہ منورہ روزانہ کردیے جائیں جب یہ رومال کا پیغام
لے کر بندہ ملتان پہنچا تو یہ رومال بدقسمتی سے یہ خطوط رب نواز نامی ایک نومسلم کے
ہاتھ لگ گئے جو درحقیقت شیخ الہند کے نو مسلم عقیدت مند کے روپ میں برطانوی حکومت کا
جاسوس تھا۔ بعدازاں یہ خطوط ملتان کے برطانوی کمشنر کے پاس بھیج دیے گئے۔
اس سازش کی وجہ سے انگریز سرکار خبردار
ہوگئی۔ ریشمی رومال پر مرقوم خط کے پکڑے جانے کے نتیجے میں برطانوی ریکارڈ کے مطابق
برطانوی سلطنت کے خلاف بغاوت اور شورش کے جرم میں ملک بھر سے 222 قائد علماء گرفتار
کیے گئے، جس کی وجہ سے افغانستان ہندوستان پر حملہ نہیں کرسکا اور پلان ناکام ہوگیا۔
مولانا عبیداللہ سندھی کو کئی برس تک جلا وطن رہنا پڑا۔ مولانا سندھی کی زندگی الف
لیلیٰ سے کم نہیں ہے ان کے کمالات بے شمار ہیں اور ان کی شخصیت طلسماتی تھی۔ ساری زندگی
قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ آج ہمارے نوجوان اور
میڈیا مولانا عبیداللہ کی لازوال قربانیوں کی داستان فراموش کرچکے ہیں لیکن یہ سنہرے
لوگ تاریخ میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔
1333 ھ، 1915ء میں عبیداللہ حضرت شیخ الہند کے حکم
سے کابل جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ سات سال کابل میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران آپ نے ایک
جماعت ’’جنوداللہ الربانیہ‘‘ کے نام سے قائم کی جو ہندوستان، افغانستان کی آزادی کے
لیے جدوجہد اور کوشش کرتی رہی۔ ۔ افغانستان اس وقت حکومتوں کو تبدیل کرنے کا مرکز بنا
ہوا تھا۔ عبیداللہ سندھی نے وہاں پر حکومت کے اہم اور طاقتور لوگوں سے اور فوج سے اجلاس
کرنا شروع کیے۔ اس دوران انہوں نے آزاد ہند جلاوطن حکومت کا اعلان کردیا۔ مولانا عبیداللہ
نے ہندوستان پر حملے کرنے کے لیے نقشے تیار کروائے اور سندھ میں انقلابی مراکز قائم
کروائے جو ہند تک پھیلے ہوئے تھے۔
1916ء میں کابل میں ’’عبوری
حکومت ہند‘‘ قائم کی اور اس کے وزیرخارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔
1922ء میں آپ نے ’’کانگریس کمیٹی کابل‘‘
بنائی اور اس کے صدر مقرر ہوئے جس کا الحاق انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس منعقدہ
’’گیا‘‘ میں منظور کیا۔ 1923ء میں ترکی جانے کے لیے براستہ روس روانہ ہوئے۔ اس دوران
سوشلزم کا مطالعہ اپنے نوجوان رفیقوں کی مدد سے کرتے رہے۔ سوویت روس نے آپ کو اپنا
معزز مہمان بنایا اور مطالعے کے لیے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ اس دوران ماسکو
میں سات ماہ قیام فرمایا اور عصمت پاشا، رئوف بک وغیرہ انقلابی راہ نمائوں، نیز شیخ
عبدالعزیز جاویش سے ملاقاتیں ہوئیں۔ استنبول میں تین سال قیام فرماکر یورپ کی تاریخ
کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ فرمایا۔ 1924ء میں ہندوستان کے مستقبل کے سیاسی اور معاشی
امور کو حل کرنے کے لیے ’’آزاد برصغیر کا دستوری خاکہ‘‘ جاری فرمایا۔ استنبول سے اٹلی
اور سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ جدید اٹلی اور یورپ کی سیاسیات کا مطالعہ
کیا۔
ترکی میں 1924ء میں
اپنی ذمہ داری پر تحریک ولی اللہ کے تیسرے دور کا آغاز کیا۔ اس موقع پر آپ نے آزادئ
ہند کا منشور استنبول سے شائع کیا۔1344ھ ، 1926ء میں مکۃ المکرمہ تشریف لے
گئے اور دینی تعلیمات کی روشنی میں قومی جمہوری دور کے تقاضوں کے مطابق ایک پروگرام
ترتیب دیا۔ انڈین نیشنل کانگریس، جمعیت علمائے ہند، مسلم لیگ اور دیگر قومی جماعتوں
نے حضرت عبیداللہ سندھی کی ہندوستان واپسی کے لیے کوششیں شروع کیں۔
ترکی سے حجاز پہنچے اور 1939ء تک مکہ
معظمہ میں رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور
دینی مسائل کو تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔آپ نے تحریک ریشمی رومال
میں سرگرم حصہ لیا۔افغانستان کی آزادی کی سکیم آپ ہی نے مرتب فرمائی تھی، 25 سال
تک جلاوطن رہے۔افغانستان میں آل انڈیا کانگریس کی ایک باضابطہ شاخ قائم کی۔ساری
زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مارچ 1939ء میں
ہندوستان کے ساحل پر عبیداللہ سندھی اترے۔ کراچی، لاہور، دیوبند اور دہلی میں ان کا
شان دار استقبال کیا گیا۔ قوم کو ان سے اور ان کو قوم سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ سرزمین
حجاز کو چھوڑنے سے پیشتر ہی مولانا نے ہندوستانی پروگرام کے تین حصے کرلیے تھے۔ کانگریس
کی ممبری، شاہ ولی اللہ کے فلسفہ کی تلقین اور کانگریس میں اپنی پارٹی کا قیام۔ ہندوستان
پہنچنے پر مولانا نے اپنے پروگرام کے تیسرے جزو کو جمنا نربدا سندھ ساگر پارٹی کے نام
سے روشناس کیا۔
ہندوستان میں اپنے آخری قیام میں انہوں
نے ’’شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک‘‘ اور ’’شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ ‘‘
دو کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ ایک اور کتاب ’’ محمودیہ‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔
اس کے علاوہ ان کے خطابات چھپے ہیں اور ان کے افکار پر ایک بسیط کتاب ’’ مولانا عبیداللہ
سندھی‘‘ کے نام سے پروفیسر محمد سرور صاحب نے لکھی ہے۔ ان کی ایک تصنیف قرآن کی ضخیم
تفسیر بھی ہے۔ مولانا کے ابتدائی زمانے کے رسالے اور تصانیف اب ناپید ہیں۔
آخری ایّام اور وفات:
مولانا کی زندگی کے آخری پانچ سال اس
جدوجہد اور کشمکش میں گزرے۔ 1944ء میں بیماری کے باوجود مولانا عبیداللہ سندھی کراچی
سے حیدرآباد، میرپور خاص اور نواب شاہ ہوتے ہوئے گوٹھ پیر جھنڈ مدرسہ دارالرشاد میں
قیام فرما ہوئے اور اپنے نامور شاگردوں کو تاریخ، سیاست اور قرآنی علوم و معارف سے
آراستہ کرتے رہے۔انتقال سے دو روز قبل دین پور تشریف لائے اور 2رمضان المبارک
1363ھ / 21 اگست 1944ء بروز منگل کو وِصال فرمایا۔ آپؒ کا مزار حضرت غلام محمد دین
پوریؒ کے قریب دین پور کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی خاص
نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین)
مصادر و مراجع:
1. تاریخ دارالعلوم دیوبند،سیّد محبوب
رضوی،جلد دوم۔
2.
مولانا عبیداللہ سندھی حالات،تعلیمات،سیاسی افکار۔پروفیسر
محمد سرور۔
3. علماء ہند کا شاندار ماضی ،حضرت مولانا سیّد محمّد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔
0 Comments