Ad Code

Responsive Advertisement

حسن اخلاق کی ضرورت اور اہمیت


حسن ِاخلاق کی ضرورت اور اہمیت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


Lubna Shah (Ph.D Scholar)

https://larticals.blogspot.com/

Email#shahazizece@gmail.com 


لفظ اخلاق کا معنی و مفہوم:

لفظ اخلاق خلق  کی جمع  ہے جس کا مادہ خ،ل،ق ہےاس کے دو معنی اور مفہوم ہو سکتے ہیں۔خَلق اگر خ کے فتحہ کے ساتھ پڑھیں تو معنی یہ ہونگے ظاہریExternal))شکل و صورت اور اگر خُلق یعنی "خ" کے اوپر ضمہ پڑھیں تو معنی ہونگے باطنی،اندرونیinternal))اور نفسانی صورت گری۔اب اگر کوئی یہ کہہ دے کہ فلاں  شخص خَلق اور خُلق دونوں کے اعتبار سے حسین ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا  کہ یہ بندہ خوبصورت اور خوب سیرت دونوں ہے۔انگریزی میں اخلاق  کے لیے Ethics اور Manners جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

الخلیق و المختلق:حسن الخلق۔

 حسن خلق یعنی اچھے اور نیک اخلاق کو خلیق اور مختلق کہا جاتا ہے[1]۔

قرآن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مومنین آپس میں پیار محبت کا رویہ رکھتے ہیں۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ تَدْخُلُوا الجَنَّة حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُوا، أَوَلاَ أَدُلُّكُم عَلَى شَيءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُم؟ أَفْشُوا السَّلاَم بَينَكُم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو“۔  صحیح – اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں بھی مسلمانوں کو آپس میں پیار اور محبت  کی تاکید کی گئی  ہے ۔دین اسلام کا امتیاز  یہ ہے کہ یہ دین فطرت ہے، فطرتِ انسانی(Human nature) ، الفت ومحبت کا نام ہے۔اور یہی اسلام کی تعلیمات ہے۔انسان کا حسن خلق ہی دراصل وہ چیز ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے انسانوں کے دلوں میں گھر کرسکتا ہے اورباہمی  الفت و محبت کو فروغ دے سکتا ہے جس کا حکم اسلام میں دیا گیا ہے۔

اسلام بھی  اس بات کا تقاضہ  کرتا ہے کہ انسان منظم، فعال ومتحرک (Active) اورمتحد ہوکر اس کی اقامت و اشاعت کا فریضہ انجام دے، اس لئے یہ ہمیشہ جماعت واجتماعیت (Harmony) کی طرف بلاتا ہے۔ مومن ایک دوسرے سے مل کر ایک مضبوط دیوار   کی مانند بن سکتے ہیں۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں  باہم اشتراک اور ایک دوسرے سے تعاون ایک اہم دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے اور حق بات کی وصیت اور صبر کی تلقین ہی دنیوی واخروی فلاح اور کامیابی کی تنہا ضمانت ہے۔

امت کے موجودہ حالات بھی unityکا بھر پور  تقاضا کرتے ہیں تاکہ نفع بخش کوششیں مشترک و متحد ہوں۔عظیم کارنامے سر انجام دینے کے لئے متحد ہونا پڑتا ہے  اصل کامیابی  متحدہ کوششوں کے بغیر حاصل نہیں  ہوسکتی اور فیصلہ کن معرکے  ْدم سے قدم ملا کر   اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہی سر کئے جاسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تبارک وتعالی محبت بھی اپنے انہی بندوں سے کرتا ہے جو  آپس میں اتفاق و اتحاد   رکھتے ہیں ۔

مومنین کا اتحاد و اتفاق دراصل اچھے اور نیک کاموں کی بجاآوری میں ہونا چاہئے نا کہ برے او ممنوع کاموں میں۔دوسرے مسلمانوں کے جائز حقوق پر غاصبانہ قبضہ ناانصافی کی بات ہے ایسے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی بجائے ان کی اصلاح کی جائے تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ) [2]

ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری  پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ  سے ڈرتے رہو  بیشک اللہ  کا عذاب بہت سخت ہے۔

بِر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَان سے مراد اللہ تعالٰی کی حدود میں حد سے بڑھنا۔[3]

ایک قول یہ ہے کہ  اِثْم سے مراد کفر ہے اور عُدْوَان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔[4]

حضرت عبد اللہ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُمَا فرماتے ہیں: نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔ [5]

حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں: میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سےنیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ  صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:اَلبِرُ حُسنُ الخلقِ وَالاِثمُ مَا حَاکَ فِی صَدرِکَ

ترجمہ: نیکی حُسنِ اَخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو[6]۔

مذکورہ  ا ٓیت مبارک اپنے  اندر  ا نتہائی جامعیت رکھتی  ہے،نیکی اورتقوٰی میں ان کی  تمام انواع واقسام  شامل  ہیں اور اِثْم اور عُدْوَان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہو۔عِلْمِ دین کی اشاعت میں وقت ،مال و دولت  ، درس و تدریس اور تحریر و تقریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا،دین  اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا،اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا ،نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا،ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، معاشرے میں  لوگوں کی بھلائی کی خاطر  سوشل ورک((Social Work)اور سماجی خدمات سب اس میں داخل  ہیں۔   گناہ اور ظلم و ذیادتی  کے کاموں  میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے ۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر  غلط فیصلے کرنا جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والیCompaniesمیں کسی بھی طرح شریک ہونا، برائی اور گناہ  کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائزہے۔سُبْحٰنَ اللہ! قرآنِ پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ و ارفع  ہیں،اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا،اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک چمکتا  مینار ہے۔اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اُسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر پوری طرح عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعدادعملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کوقرآن کےاحکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے[7]۔

موجودہ دور میں انسان اپنی ذاتی تسکین اور دنیا حاصل کرنے کی تگ و دو میں  اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو فراموش کر چکے ہیں برائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی جا رہی ہے تقریباً ہر جگہ اپنے فرائض منصبی کے انجام دہی میں کوتاہی برتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آ ج مسلمان اپنا شخصی وقار کھو چکے ہیں۔

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت ذیادہ

مسلمانوں کی زوال اور پستی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا ہر کوئی اپنے حقوق(Rights) تو بخوبی جانتا اور پہچانتا ہے لیکن  اپنے فرائض (Duties)سے واقفیت ہونے کے باوجود نا واقفیت کا  مظاہرہ کرکے اس  کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے  ۔ اسلام بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور مسلمانو ں کو حکم دیتا ہے کہ لوگو کو نا حق نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے    دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے   اور اپنے  فرائض  کو اچھی طرح ادا کیا جائے۔

ارشاد نبوی ہے:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ

تم میں سے ہر ایک نگہبان  (راعی/حاکم) ہے اور تم سب سے  اپنی رعیت کے بارے میں  پوچھا جائے گا۔

ہر ملک ہر ادارے بلکہ ہر گھر کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو اپنے ملک،ادارے یا گھر کے تمام انتظامات کا ذمہ دار ہوتا ہے ہر فرد کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے اور اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کا بھی جواب دہ ہوتا ہے۔اور یہ امر واقعی ہے انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔قرآن وسنت کی پیروی میں نجات اور ان سے بے رخی اختیار کرنے میں دنیا اور آخرت کی ذلت اور رسوائی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں اخلاقی اقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے   محبت و الفت اور نرمی  وشفقت   سے معاملات نمٹانے  چاہیے۔حلال و حرام  کا خیال رکھتے ہوئے  اور نیکی اور بدی    میں تمیز کرتے ہوئے اپنے  فرائض بخوبی سر انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک اور اتحاد و یگانگت  کا  تعلق  استوار رکھنا چاہئے نا کہ انہیں دھتکارنا اور حقیر جاننا  کیوں کہ کسی بھی ادارے  کو چلانے میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل یہی لوگ  ہوتے ہیں ۔

بطور سربراہ نبی اکرم ﷺ کی بہترین  Strategies  ہر معاملے میں ہماری   رہنمائی کے لیے کافی ہے آپﷺ نے  دین کو پھیلانے   اور اس کو محفوظ رکھنے کی خاطر  بہت  تکالیف  اور مصائب  برداشت کی  اور  آپ ﷺ کی بہترین     Management سے ہی اس دین  کی آبیاری  ممکن ہوئی   اور آپ ﷺ کے حسن اخلاق کی بدولت  لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔



               [1]۔ لسان اللسان:ج١،ص٣٦٣

(پ۶،المآئدۃ: ۲).[2]

[3] ۔(جلالین، ص94)

[4] ۔(خازن، 1/461)

[5] ۔(صاوی، ج2،ص469)

(ترمذی،ج4،ص173،حدیث: 2396).[6]

۔(صراط الجنان،ج2،ص378).[7]




Post a Comment

0 Comments

Close Menu