Ad Code

Responsive Advertisement

بد دعا

 

اے میرے رب فرما  دے میری پکار پر ’’کُنْ’’ اور لے میرے اشکوں کا حساب

اے میرے رب فرما  دے میری پکار پر ’’کُنْ’’ اور لے میرے اشکوں کا حساب
Lubna Shah (PHD Scholar)

لفظ ولی اللہ   مرکب اضافی ہے جس کامطلب ہے اللہ کا دوست  اس کی جمع اولیأاللہ[1] ہے ۔اس سے مراد اللہ تعالی کے مقربین ،محبوب ترین  اور پسندیدہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی،اپنی چاہت اور اپنی خوشی   کو اللہ تعالی کی رضا پر قربان کر دیتے ہیں ۔

 قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ[2]

سن لو !بے شک اللہ کے ولیوں پر   نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔

ان لوگوں کا اپنے رب سے ایک الگ ہی تعلق ہوتا ہے۔ان   لوگوں نے  کبھی  اپنی مصیبت اور تکلیف کو  Explainکرنا  اور کسی  کی شکایت  کرنا سیکھا ہی نہیں  ۔جب کسی   کا ظلم سہتے سہتے   بے اختیار  اُن کی آنکھوں سے  آنسوں چھلک پڑتے ہیں  تو اُن کا رب  سمجھ جاتا ہے  ان کے درد کو   اور ان کی  تکلیف کو۔وہ  کبھی شکوہ زبان پہ لاتے ہی نہیں وہ  تو صرف  آسمان کی طرف  نگاہ  اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان کا رب  بھانپ لیتا ہے اُن  کی  نگاہوں سے اُن کی تکلیف کو اور اُن کی شکایت  کو اور پھر جب اللہ تعالی   اُن کی تکلیف کا سبب بننے والے  کے گرد گھیرہ تنگ کردیتا ہے اور   اس پر  غضب کی  نگاہ ڈالتا ہے    تو اس کو نیست و نابود  کردیتا ہے۔ اُن کے دل سے صرف آہ نکلتی ہے  تو  قہر ِ خداوندی جوش  میں آکر  مخالف کو تخت  سے تختہ دار تک پہنچا دیتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

 وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ [3]

اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب اللہ کا کوئی کمزور بندہ  اپنے رب سے تیری شکایت لگا   کر کہہ دے کہ اے میرے رب  دیکھ میرے صبر کی انتہا ، میرا صبر تمام ہوچکا، اب فرما  دے میری پکار پر ’’کُنْ’’ اور لے میرے اشکوں کا حساب۔

ضروری نہیں کہ کسی  کے ظاہری اعمال پسندیدہ  ہو تو وہی  اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہوگا،کبھی کسی کا ایک چھوٹا اور حقیر عمل بھی اپنے رب کی رضا کے لیے کافی ہوتا ہے۔اور اس طرح بندہ  اپنے رب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔اس کے برعکس اللہ تعالی  ظالموں  کی مدد نہیں کرتا۔ارشادی باری تعالی ہے: ظالموں کو  ان کا رب عذاب دیتے ہوئے فرمائے گا ’’فَذُوقُوافَمَا لِلظّٰلِمِینَ مِن نَّصِیر[4]‘‘ پس مزہ چکھوپس ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

قال النوی:قولہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ لا ینظر إ لی أجسادکم ،و لکن ینظر إلی  قلوبکم[5]

قرب خداوندی  کی بنیاد تقویٰ پرہے اور تقوی ٰ اور پرہیز گاری کا تعلق انسان کے  ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے ہے  ۔

قال النوی:قولہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم: ’’التَقْوٰی ھٰھُنا ‘‘  و یشیر إلی صدرہ  ثلاث مرات [6]

 امام نوی  فرماتے ہیں کہ  حدیث  میں نبی کریم ﷺ نے (اپنے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )فرمایا  ’’التَقْوٰی ھٰھُنا ‘‘ تقویٰ یہاں ہے  ۔جب بندہ اللہ تعالی کے ہاں متقی قرار پاجاتا ہے  تو اللہ کا قرب  حاصل کر لیتاہے اور اللہ تعالی کبھی اپنے مقربین کی کسی پکار کودر نہیں کرتا بلکہ ان کی ہر پکار پر  ’’کُنْ‘‘ فرما دیتا ہے۔ وہ بے ضرر انسان خواہشات کی پیروی سے پاک اور مبرا ہوتے ہیں۔وہ مستجاب الدعوات ہوتے ہوئے بھی     خاموش رہنے  کو اور شکایت نہ کرنے کو  ترجیح دیتے ہیں۔ وہ صرف اپنے رب کی رضا کےمتلاشی ہوتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ ان کا رب بھی  ان کی رضا کو ملحوظ رکھتے ہوئے   بن مانگے بہت کچھ عطا کر دیتا  ہے ۔

جب نبی کریم ﷺ  پر   مخالفین  کی زیادتیاں حد سے بڑھ گئی   اور ایک دن آپ ﷺ پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی پھینک دی گئی  تو  آپﷺ نے ان ظالموں کے حق میں بدعا کی  اسی بدعا کی بدولت  یہ لوگ بدر کے دن مقتول پڑے ہوئے  تھے کہ ان کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنوئیں میں ڈالی گئیں جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں ۔تو  یہ  بات یاد رکھنی  چاہئے کہ ظالموں کا انجام ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔

اللہ تعالی اُس وقت   ظالموں کی پکڑ کرنے میں دیر نہیں کرتاجب اللہ تعالی کا کوئی مقرب بندہ  اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ اے میرے رب جو مجھ پہ گزری  یا گزر رہی ہے اُس پہ تیری خاموشی کیوں؟ تورب کائنات اپنے محبوبین کی پکار ضرور سنتا ہے اور جب وہ ’’کُنْ‘‘ فرماتا  ہے تو’’ فَیَکُونْ‘‘ کا نظارہ   ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔بعض اوقات بدعا دینے کی  نہیں صرف صبر  کرنے کی ضرورت ہوتی ہے  اور دوسرے پر وہ صبر  بہت بھاری  پڑ جاتا ہے ۔بعض اوقات کسی کو دیا ہوا ایک آنسوں بھی   عمر   بھر کی عبادت و ریاضت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ مظلوم کی آہ اور پکار سے بچنا چاہئے کیونکہ وہ کسی اور سے نہیں صرف اپنے رب سے اپنا حق مانگتا  ہے اور یہ سنت خداوندی ہے کہ وہ کسی سے اپنے حق کو نہیں روکتا۔لہذا پرورگار عالم سے دعا ہے کہ وہ  ہمارے گناہوں کو معاف فرما دیں  اور ہمیں کبھی کسی   کی تکلیف کا سبب نہ بنائے۔(آمین)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔القاموس الوحید،مولانا وحید الزماں ،ص1484،ادارہ اسلامیات،؁1440ھ۔

[2]۔ سورۃ یونس آیت : 62

[3]۔سورۃ البقرہ186:

[4] ۔سورۃ فاطر،آیت:37

[5] ۔ مسلم: 2564

[6] ۔ایضاً

Post a Comment

0 Comments

Close Menu