
کرایہ داری کا تصور اور اس کے اصول و قواعد
)حصّہ اوّل)
﷽
اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ
اصْطَفٰی
کرایہ کا مفہوم:
لفظ کِرایَہ
اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل
ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے 1845ء
کو "احوال الانبیا" میں مستعمل ملتا ہے۔
کسی چیز کے استعمال کرنے کی اجرت یامعاوضہ( گاڑی،مکان،جانور
وغیرہ کی) -بھاڑا،اجرت۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
As
per Urdulughat.info word کرایہ mean: recruit ,admission ,lease, cargo .
اجارہ کے لغوی معنی کسی کو پناہ میں لینا، کسی کی حفاظت
کرنا یا کسی عمل کا بدلہ اور جزاء دینے کے آتے ہیں۔ فقہاء نے اس کی اصطلاحی تعریف یوں
کی ہے: "هي بيع منفعة معلومة بأجر معلوم"
(بحر) یعنی کسی معلوم منفعت کو معلوم اجرت کے بدلے بیچنا
اجارہ ہے۔
2۔ثبوت:
اجارہ کا ثبوت قرآن (قالت
احداهما يا ابت استاجره۔۔الخ) ۔سنت
(مدينہ کی طرف ہجرت کے دوران آپﷺ نے
قبیلہ دیل کے کسی آدمی کو اجرت پر راہنمائی کے لیے مقرر
کیا تھا) اجماع اور قیاس سے ملتا ہے۔
3۔اقسام:
اجارہ کی دو بنیادی قسمیں
ہیں:
اجارۃ العمل/اجارۃ
الاشخاص:
کسی انسان کے کام اور عمل
کے بدلے اجرت کا معاملہ کرنا۔ (کسی انسان کو ملازمت پر رکھنا)
اجارۃ الاعیان/الاشیاء:
کسی عین/چیز کی منفعت یا
استعمال کے بدلےاجرت کا معاملہ کرنا (کسی
چیز کو کرایہ پردینا)
4۔ارکان:
حنفیہ کے ہاں اجارہ کے
ارکان صرف ایجاب و قبول ہیں. اس کے لیے
متعین الفاظ نہیں ہیں، بلکہ جن الفاظ کو بھی عرف میں کرایہ داری اور ملازمت کے لیے
استعمال کیاجاتا ہیں، وہی ارکان ہے۔
5۔شرائط:
اجارہ چونکہ ایک عقد و
معاملہ ہے، اس لیے اس کے لیے بھی وہ تمام عمومی شرائط ضروری ہیں جو کسی بھی عقد کے
لیے ضروری
ہوتی ہیں، جیسے عقد کرنے
والے عاقل، بالغ ہوں، معقود علیہ موجود ہو وغیرہ۔ مزید چند اہم شرائط یہ ہیں:
• معقود
علیہ (جس چیز کو کرایہ پر دیا جارہا ہے وہ) کرایہ پر دینے والے کی ملکیت میں ہو۔
• معقود
علیہ معلوم ومتعین ہو۔
• اجرت
یعنی کرایہ /تنخواہ معلوم اور متعین ہو، اس کی جنس اور صفت مع مقدار معلوم ہو۔
• جن
منافع کو کرایہ پر دیا جارہا ہے، وہ معلوم ہوں۔
• جس
چیز کو کرایہ پر دیا جارہا ہے، اس کے استعمال کا مقصد معلوم ہو۔
• کرایہ
پر دی جانے والی چیز مباح ہو۔
• معقود
علیہ ایسی چیز ہو جس کو کرایہ پر دینے کا رواج اور عرف ہو۔
• جس
چیز کو کرایہ پر دیا جارہا ہے، وہ اور اس چیز کا کرایہ دنوں ہم جنس نہ ہوں۔
• معقود
علیہ میں ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے اس چیز سے اصل نفع کا حصول ممکن نہ ہو۔
• اجارہ
کی مدت متعین ہو۔
6۔صفتِ اجارہ:
بعض علماء اجارہ کو عقد غیر لازم سمجھتے ہیں، لیکن اکثر
علماء کے ہاں اجارہ عقد لازم ہے، اگر عقد اجارہ کیا جائے تو کوئی بھی فریق بغیر
عذر اس کو ختم نہیں کرسکتا۔
Continue…………………………………………………………………………………………………………………………………
0 Comments