Ad Code

Responsive Advertisement

کرایہ داری کا تصور اور اس کے اصول و قواعد (حصّہ دوم)

 


کرایہ داری کا تصور اور اس کے اصول و قواعد (حصّہ دوم)

7۔اجارۃ العمل سے متعلق:

 1۔صرف ان کاموں پر اجارہ درست ہے جہاں منفعت مقصود ہو، معلوم ہو، قابلِ انتفاع ہو، عمل مباح ہو اور اس کا عوض متعین

ہو۔

 2۔اجرت علی الطاعات: عبادات  (جیسے نماز پڑھانے،اذان دینے ،قرآن کی تعلیم دینے وغیرہ) پر حنفیہ کے اصل مسلک کے

مطابق اجرت لینا درست نہیں ہے، لیکن متاخرین نے ضرورت کے تحت صرف ان طاعات پر اجرت لینے کی گنجائش دی ہے

جن میں خلل  وتعطل کا اندیشہ ہو، جیسے امامت، اذان اور تعلیم قرآن (تاہم تلاوتِ قرآن اس میں داخل نہیں ہے)۔

 حنابلہ کے ہاں اس سلسلے میں دونوں روایتیں ملتی ہیں۔ شوافع کے ہاں شعائر پر اجرت لینا درست ہے، فرائض پر اجرت لینا درست نہیں ہے۔ح حضرات مالکیہ کے ہاں مطلقا ان پر اجرت لینا درست ہے۔ تفصیل کے لیے مطول کتب کی طرف مراجعت کریں،خصوصا "رسائل ابن عابدن"۔

 3۔اجرت علی المعصیت: کسی گناہ کے کام پر کسی کو مزدور رکھنا (جیسے کسی کو گانا گانے کے لیے کرایہ پر لےلیا) یا کسی گناہ کی چیز (مثلا آلاتِ غنا وغیرہ) کو کرایہ پر دینا حرام ہے۔ اگر کسی نے ایسا اجارہ کرلیا تو ایسی صورت میں اجرت کا کیا کیا جائے؟ حنفیہ کی رائے یہ

 ہے کہ جس سے اجرت لی ہے، اسی کو واپس کی جائے، تاہم علامہ ابن تیمیہ ؒ اور علامہ ابن قیمؒ کی رائے یہ ہے کہ ایسی اجرت صدقہ

کرلی جائے۔ یہی رائے زیادہ مناسب ہے۔

اصول و قواعد:

جب کوئی شخص کوئی چیز کرایہ پر دیتا ہے تو  کو وقت مقرر ہ کے بعد  طے شدہ رقم کرایہ دار سے وصول کرتا ہے اس کے لئے شریعت نے کچھ اصول و ضوابط مقرر کئے ہیں جن  میں مالک اور کرایہ دار پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں  ،اکثر  کرایہ دار اور مالک کے

مابین اس معاملے میں پیشگی رقم  اور سالانہ اضافے کے مطالبے کی صورت تنازعہ کا شکار پایا گیا ہےشرعی اعتبار سے کرایہ داری کے معاملے میں ایڈوانس رقم کی مقدار اور کرایہ میں سالانہ اضافے کی مقدار مقرر کرنے  کا تعلق فریقین کی باہمی  رضا مندی سے ہے۔ لہذا ایڈوانس اور کرایہ کے اندر سالانہ اضافے کی ہر وہ مقدار جس پر فریقین متفق ہوں، مقرر کرنا جائز ہے۔ البتہ مروت کا تقاضا یہ ہے کہ ایڈوانس لینے اور کرایہ کے اندر سالانہ اضافے کی مقدار طے کرنے میں مفادِ عامہ کو پیشِ نظر رکھا جائے، ان کی مقدار اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہیے جو کرایہ دار کے لیے ادا کرنا مشکل ہو۔

زمین کرایہ پر دینے کی صورتیں:

اپنی زمین کرایہ پر دینے سے قبل پگڑی کی رقم لینا جو مروجہ پگڑی سسٹم ہے کہ جس میں زمین کا مالک پیشگی ایک بڑی رقم لے لیتا ہے، اور پگڑی پر لینے والے کو  عرفاً ایک طرح سے  مالکانہ حقوق حاصل ہوجاتے ہیں، اور وہ اس زمین کو فروخت بھی کرتا ہے، البتہ فروخت کرتے وقت رسید بدلنے کی مد میں  اصل مالک کچھ فیصد وصول کرتا ہے، اور ہر ماہ معمولی کرایہ بھی ادا کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ، تو  شرعاً یہ معاملہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لی  گئی  زمین /مکان  بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے، لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے، اور رسید بدلنے پر رقم لینا بھی ناجائز ہے۔

اور اگر پیشگی رقم سے مراد بطورِ ایڈوانس زمین کے مالک کا کرایہ دار سے کچھ رقم وصول کرنا ہے، (اور بظاہر یہی صورت ہے) تو

  نفسِ ایڈوانس وصول کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ اس ایڈوانس رقم کے وصول کرنے کے بعد کرایہ دار کے ساتھ عام عرف کے

مطابق ہی معاملہ کیاجائے یعنی عام ویلیو کے مطابق کرایہ وصول کیاجائے اور اس معاملہ میں کوئی اور شرعی خرابی نہ ہوتو ایڈوانس

وصول کرکے زمین کرایہ پردینا جائز ہے۔چوں کہ عرفاً مالک کو اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ لہذا یہ رقم شرعاً مالک کے ذمہ قرض ہوگی۔مکان/ دوکان/زمین خالی یا واپس کرتے وقت یہ رقم واپس کرنا ضروری ہے۔اوراس رقم کا اصل مالک کرایہ دارہی ہوگا۔اورکرایہ کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ  رقم کرایہ دارکوواپس لوٹادی جائے گی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ ایڈوانس زیادہ جمع کرانے کی صورت میں مروجہ کرایہ میں کمی کرناجیساکہ سوال میں لکھا گیا ہے، یہ سود کی اقسام میں سے ایک قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لہذا زیادہ ایڈوانس والے کے لیے کرایہ کم کرنایہ درست نہیں،   اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالک کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا اس طرح عقد نہ کیا جائے۔

اور اگر زمین کا مالک کرایہ دارسے بطورکرایہ کے کچھ  رقم پیشگی وصول کرتا ہے،  یعنی شرو ع میں وصول کی جانے والی رقم کو پیشگی

 کرایہ قرار دیاجاتاہے، اوریہ معاہدہ کرلیاجائے کہ جب تک پیشگی کرایہ کے طورپردی جانے والی رقم کرایہ میں مکمل نہیں ہوجاتی

 اس وقت تک کرایہ نہیں بڑھایاجائے گا تویہ معاملہ درست ہے۔مثلاً زیدنے بکرسے دکان 100روپے ماہانہ کرایہ پرلی اورکرایہ متعین کردیاگیا۔ زیدنے پیشگی کرایہ 2400روپے اداکردیاجوکہ دوسال کاکرایہ بنتاہے، اب بکراس رقم کودو سال کاپیشگی کرایہ شمارکرے گا اور دوسال بعدکرایہ میں اضافہ کرے گا۔تویہ طریقہ درست ہے، اگرکرایہ داراس پرراضی ہوتواس میں کوئی

 مضائقہ نہیں۔اب پیشگی اکٹھا کرائے   کی یہ رقم زمین کے مالک کی ملکیت شمارہوگی اوراس کی زکوۃبھی مالک مکان پرہوگی۔[1]



[1] ۔( کفایت المفتی:7/367،امدادالفتاویٰ:3/63)

Continue.....................


Post a Comment

0 Comments

Close Menu