Ad Code

Responsive Advertisement

خودی میں ڈوب جا غافل!


خودی  میں ڈوب جا غافل!

خودی  میں ڈوب جا غافل!
 Aٓ Tribute to Allam Iqbal

علامہ محمد اقبال پاکستان کے قومی شاعر   تھے  وہ  ایک شاندار شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ   فلسفی   بھی تھے، شاید بیسویں صدی کے سب سے زیادہ بااثر مسلمان مفکر تھے۔ ان کا فلسفہ اگرچہ غزالی اور رومی جیسے مسلمان مفکرین کے ساتھ ساتھ  Friedrich Nietzsche  اور  Henri Bergson  جیسے مغربی مفکرین کے اثر کو ظاہر کرتا ہے، جسے اقبال نے ایک شاعر کی حساسیت کے ساتھ پڑھا تھا۔ لیکن اس کی جڑیں بنیادی طور پر قرآن  سے جڑی تھیں ۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ  ہو نزول ِ کتاب

گرہ کشا ہے  نہ رازی  نہ صاحبِ کشاف 

 ایک صوفیانہ بصیرت. اقبال کا فلسفہ خودی یا خودی کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ عدن یا اصل گناہ سے ’زوال‘ کے تصور کو رد کرتے ہوئے، اقبال زمین پر انسانوں کی آمد کو ایک شاندار واقعہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ آدم کو  اللہ تعالی نے زمین پر خدا کا نائب مقرر کیا تھا۔ ارتقاء کے عمل میں انسان محض حادثات نہیں ہیں بلکہ ان کی ارتقا اور ابتدا کا ایک خاص مقصد کے تحت  ہوئی۔ کائنات کا وجود اس لیے ہے تاکہ نفس کے ظہور اور کمال کو ممکن بنایا جا سکے۔ زندگی کا مقصد نفس کی نشوونما ہے، جو اس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنے اندر موجود چیزوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ بنیادی طور پر عمل کا فلسفہ ہے، اور اس کا تعلق بنیادی طور پر انسانوں کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنے سے متعلق ہے۔

اقبال فرماتے ہیں کہ مذہب کی تشریح انسانی فکر سے کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اسلامی فلسفہ کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا تاکہ مذہبی فکر کی تشکیل نو کی جائے تاکہ معاشرے کا سماجی نظام حاصل کیا جا سکے جہاں وہ مذہبی آزادی کے نتیجے میں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں۔

یہاں ایک واقعہ  کا ذکر   کیا جاتا ہے  جو  ایک بار اقبال کے قریبی ساتھی سید نذیر نیازی نے لاہور، پاکستان میں قرآن کانفرنس میں نقل کیا تھا اس  واقعہ سے اقبال کے  اسلام اور قرآن  سے تعلق کو  با ٓسانی  سمجھا  جاسکتا ہے:

ایک دن وہ علامہ اقبال سے ملے اور بتایا کہ خودی کے تصور کے لیے آپ کے سرچشمے کے بارے میں بہت سے لوگ مختلف مفروضے رکھتے ہیں۔ "آپ خود کیوں نہیں بتاتے؟" علامہ اقبال نے اسے جواب دیا کہ ٹھیک ہے، کل میرے گھر آ جانا، میں تمہیں اس معاملے کا حکم دوں گا۔ اس پیشکش پر سید نذیر نیازی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔‘‘ میں اپنے آپ کو اتنا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ مشرق کا سب سے بڑا شاعر اور قوم کا شاعر مجھے اپنا فلسفہ خودی بتائے گا۔ اگلے دن میں وقت پر قلم اور نوٹ بک سے لیس وہاں پہنچ گیا تاکہ موقع پر موجود ہر ایک معلومات کو لکھوں۔ وہاں علامہ اقبال نے کہا کہ قرآن کو شیلف سے نکالو۔ اس ہدایت پر میری ساری امیدیں دم توڑ گئیں، میں نے سوچا کہ وہ مجھ سے کوئی فلسفہ یا تاریخ کی کتاب نکالنے کو کہیں گے لیکن اس کی بجائے انہوں نے قرآن پاک مانگا اور پھر اقبال نے کہا سورہ حشر کھول کر پڑھو……………………….

خودی  میں ڈوب جا غافل!





Post a Comment

0 Comments

Close Menu