:تحقیق کار : لبنیٰ شاہ
شعبہ علوم اسلامیہ ایم فل اسلامک
سٹڈیز سیکنڈسمسٹر
عبدالولی خان یونیورسٹی
مردان(گارڈن کیمپس)
(2019-2020)اکیڈمک سیشن
فہرست مضامین
1 |
مقدمہ |
3 |
2 |
بنی
نوع انسان کی اصناف اور ان کی استعدادیں |
4 |
3 |
قوت ملکیہ اور قوت بہیمیہ |
5 |
4 |
لطائف کا مفہوم |
6 |
5 |
لطائف کی حقیقت |
… |
6 |
دس لطائف |
… |
7 |
بنی نوع انسان کے لطائف |
7-10 |
8 |
خلاصہ کلام |
11 |
﷽
اَلحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ
عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
امابعد!
انسان کا اپنا وجود قدرت کی بڑی نشانی ہے ، اپنے وجود
پر غور و فکر کرنے سے انسان خالق اورمعبود کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
خالق و حاکم ہونا اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے خاص ہے۔ وہی ہر
چیز کا خالق ہے اور وہی معبود حقیقی ہے۔ اس کائنات کی عظیم مخلوقات ہی نہیں بلکہ
اس میں موجود ذرہ ذرہ اس بات پر شاہد ہے کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنیوالا ہے
اور وہ بڑی زبردست طاقت و قوت کا مالک ہے۔وہ تنہا معبود حقیقی ہے ، اسکا کوئی شریک
و ساجھی نہیں ، اسی نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات میں
شرف و تکریم سے نوازا ۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی
اور انہیں خشکی و تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں
اوراپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ ‘‘ ([1])
یہ
فضیلت و شرف کئی اعتبار سے ہے ، شکل و صورت کے اعتبار سے بھی کہ جو بہترین ہیئت اﷲ
تعالیٰ نے انسان کو عطا کی وہ دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ۔ چند چیزوں کی قسم کھاکر
اﷲ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی :
۰ یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت پر
پیدا کیا۔([2])
۰ اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس
چیز نے بہکایا ؟ جس (رب نے ) تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا ، پھر ( درست اور)
برابر بنایا ، جس صورت میں چاہا تجھے جوڑدیا۔([3])۔
انسانی شکل و صورت ، قد و قامت ، اعضاء و
جوارح ، انکے درمیان مناسبت اور انکی خوبیوں پر غور کیاجائے ،پھر اس کائنات میں مو
جو د کسی بھی جاندار مخلوق سے اسکا موازنہ کیا جائے تو انسان کے اشرف المخلوقات
ہونے اور دیگر مخلوقات میں سب سے افضل و برتر ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا
۔انسان کے اشرف ہونے کا ایک اہم راز اسکے دیکھنے ،سننے کی صلاحیتوں کیساتھ اسکا صاحب
عقل اور فہم و ادراک کا حا مل ہونا ہے۔ اسی عقل و شعور پر انسان کو مکلف بنایا کہ
وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر تے ہوئے من مانی زندگی نہ گزارے بلکہ اپنے معبود حقیقی
کو پہچان کر اسی کی عبادت کرے۔
بنی نوع انسان کی اصناف اور ان کی استعدادیں:
اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف استعدادوں پر پید کیا
ہےاور ہر انسان اپنی فطری استعداد کے مطابق ہی کمال حاصل کرتاہے۔ اور کوئی شخص
ایسا نہیں ہے کہ اس میں جتنی استعداد
ہے اس سے ذیادہ حاصل کر سکے۔یہ خدائے عزیز
و علیم کا اندازہ ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ اگر تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو اس کو مان لو لیکن اگر کسی شخص کے متعلق سنو
کہ اس نے اپنی خصلت چھوڑ دی ہے تو کبھی یقین
نہ کرنا کیونکہ ہر انسان اپنی فطرت اور جبلت ہی کی طرف ہمیشہ لوٹتا ہے۔اس
حدیث میں مخبر صادق ﷺ کا ارشاد دراصل انسانوں کی انہی استعدادوں کی طرف ہے۔
اب ایک شخص ہے
جس کو ایک خاص روش پر چلنے اور ایک مخصوص طریقے کو اخذ کرنے کی قدرت سے
استعداد ملی اگر وہ اس کو چھوڑ کر کوئی
دوسری راہ اختیار کرنی چاہے تو خواہ وہ کتنی بھی محنت کرے اور اس میں وہ کس قدر بھی
مشقت اٹھائے وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو گا۔
ترسم نہ رسی بہ کعبہ
اے اعرابی
ایں راہ کہ تو می رومی ترکستان است
اسی طرح ایک اور شخص ہے جو ایک چیز میں کمال حاصل کرنا
چاہتا ہے۔ لیکن اُس کی فطرت
اور جبلت دوسری قسم کے کمال کا تقاضہ کرتی ہے۔ اب وہ اس کےلئے خواہ وہ کتنی
بھی کوشش کرے اُس کی کوشش ہر حال میں
رائگاں جائے گی۔
کسے درسحن کا جی قلیہ جوید
اضاع العمر فی طلب المحال
شاہ ولی اللہ ؒ اپنی کتاب ہمعات میں فرماتے ہیں
کہ :
اُن عالی مرتبہ علوم و معارف میں سے جو اس بندہ ضعیف کو عطاء کئے گئے ہیں
ایک علم بنی آدمؑ کی استعدادوں کی معرفت
اور اُ ن کی تعداد اور نیز ان میں
سے ہر ایک کی علامت اور اُن کے مبلغ کمال کے جاننے کا ہے۔اس علم کا فائدہ یہ ہے
کہ ایک سمجھدار سالک اپنی ذاتی استعداد کی حدود کو معلوم کرکے انہی
کے مطابق اپنی راہ تجویز کرسکتا ہے اور
پھر وہ اس راہ کو برابر اپنی نظر
کے سامنے رکھ سکتا ہے یاا گر سالک خود یہ کام نہ کر سکتا ہو تو اُس
کے مرشد شفیق کو چاہئے کہ وہ اس علم کی مدد سے
سالک کی جبلی استعداد کو
دیکھے اور پھر اُس کے مطابق
اس کو مناسب راہ پر لگائے۔’’الغرض یہ ہم پر
اور نیز دوسرے لوگوں پر اللہ تعالی کا احسان ہے۔لیکن اکثر لوگ ہیں کہ اس کا شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔
قوت ملکیہ اور قوت بہیمیہ:
اللہ تعالی نے انسان کو
دوقوتیں ودیعت کی ہیں ایک قوت ِ
ملکیہ اور دوسری قوت بہیمیہ ۔ان کی تفصیل
یہ ہے کہ انسان میں ایک تو نسمہ ہے۔اور یہ نسمہ عبارت ہے روح ہوائی سے۔اور روح
ہوا ئی کا مطلب یہ ہے کہ یہ روح
جسم میں طبعی عناصر کے عمل اور
ردِ عمل سے پیدا
ہوتی ہے۔اس نسمہ یا روح ہوائی سے اوپر
انسان میں ایک اور چیز بھی ہے جسے
نفس ناطقہ کہتے ہیں اور جو نسمہ پر تصرف
کرتا ہے،نفس ِ ناطقہ اس حالت میں جب وہ نسمہ پر تصرف کر رہا ہوتا ہے دو رجحان رکھتا ہے۔ایک
رجحان انسان کو بھوک ،پیاس ،شہوت ،غضب
،حسد غصّے اور خوشی کے جبلی تقاضوں کی طرف مائل کر دیتا ہے کہ انسان انسان نہیں بلکہ حیوان ہوجاتا ہے۔اور
نفس ناطقہ کا دوسرا رجحان انسان کو
فرشتوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہےچنانچہ ا
س حالت میں وہ حیوانی تقاضوں سے رہائی حاصل کر لیتا ہے۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ اس مادی عالم سے اوپر جو عالم تجرد
ہے وہاں انسان پر اُنس و سرور کا
نزول ہوتا ہے ۔
الغرض ان دونوں رجحانات میں جس رجحان کا رُخ نیچے کی طرف ہوتا ہے اسے سفلی رجحان کہنا چاہیے اور جس کا دوسرے کا رخ اوپر کو ہوتا ہے وہ
علوی رجحان کہلاتا ہے۔
جب انسان پر سفلی رجحانا ت
کا غلبہ ہوتو ہے تو وہ سراپا حیوانیت
اور بہیمیت کا پیکر بن جاتا ہے۔
اور اُس میں ملکیت اور علویت
کا اثر تک باقی نہیں رہتا اور جب
علوی رجحان اس پر غلبہ پا لے تو وہ بالکل فرشتہ بن جاتا ہے اور اس میں
بہیمیت سرے سے غائب ہو جاتی ہے۔
انسان کی یہی وہ طبعی خصوصیات ہیں جن
کی وجہ سے اُسے چند باتوں کے کرنے
اور چند باتوں کے نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے اس معاملہ میں
چارپایوں اور فرشتوں کی طرح آزاد نہیں چھوڑا گیا۔انسان بیک وقت فرشتہ بھی ہے اور
حیوان بھی اس میں ملکیت کے رجحانات بھی ہے
اور حیوانیت کے تقاضے بھی۔ چنانچہ اسی (اللہ تعالی )نے ملکیت کو اُبھارنے کے لئے
اُسے نیک کاموں کا حکم دیا
اور اس کے حیوانی تقاضوں کو دبانے کی خاطر
بُرے کاموں سے بچنے کی فہمائش کی گئی۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کی اس آیت ’’و حملھا
الانسان انہ کان ظلوماً جھولاً‘‘([4])میں فطرت انسانی کے اسی راز کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ’’ ظلوم ‘‘ کے
معنی یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں عدل کی
صلا حیت تو موجود ہے مگر وہ عدل نہیں کرتا اور ’’ جہول ‘‘
سے مراد ہی ہے کہ
وہ علم تو حاصل کرتا ہے لیکن بالفعل علم سے عاری ہے۔
لطائف کا مفہوم:
لطائف (Subtleties) لطیفہ کی جمع ہے ایسی باتیں جن کا انسانی حواس ادراک نہ کر سکتے ہوں۔ یہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے۔
لطائف کی حقیقت:
امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جیسے سورج کی
روشنی کو زمین اپنی کثافت کے سبب برداشت کرسکتی ہے اور دیگر عناصر لطافت کے سبب
متحمل نہیں ہو سکتے اسی طرح تجلی ذاتی کو بھی عنصر خاکی ہی برداشت کر سکتا ہے اور
باقی عناصر میں جتنی کثافت ہے اس کے سبب تجلی صفاتی کو تو برداشت کر بھی سکتے ہیں
مگر تجلی ذاتی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور عالم امر کے لطائف چونکہ لطیف ہیں اس لیے
انہیں تجلیات ذاتیہ سے تو حصہ ملتا نہیں لیکن تجلیات ظلیہ سے کچھ بہرہ مل جاتا ہے
اور انسان چونکہ ان دس لطائف سے مرکب ہے جو اجزاء عالم کبیر ہیں اور سوائے انسان
کے اور افراد عالم میں یہ لطائف مجتمع نہیں اس لیے وہ خلافت کے قابل اور اس بار
امانت کا حامل ہوا
دس لطائف:
انسان کی ساخت دس اجزاء
سے ہوئی ہے ان میں سے پانچ (ہوا، پانی، آگ، مٹی اور لطیف نفس) عالم خلق کے اجزاء ہیں اور پانچ (قلب، روح، سر، خفی اور
اخفیٰ) عالم امر کے اجزاء ہیں ان ہی اجزائے عشرہ کو لطائف عشرہ
کہا جاتا ہے عالم خلق عرش کے نیچے کی مخلوقات سے تعلق رکھتے ہیں اور عالم امر عرش
سے اوپر کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں (اصل عالم ارواح میں ہیں لیکن تعینات انسانی جسم میں ہیں) جسم انسانی میں یہی جگہیں ہیں جہاں
انوار و اسرار اور فیوض و برکات الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے گویا یہ لطائف اللہ تعالیٰ
تک پہنچانے کے مختلف راستے ہیں اور ہر راستہ ایک اولو العزم رسول کے زیر قدم ہے
انسانی جسم میں آکر ان کی نورانیت زائل ہو گئی ہے اس لیے سالکین ذکر کرنے کے ذریعے
دوبارہ ان کو نورانی بنا لیتے ہیں۔([5])
بنی
نوع انسان کے لطائف:
شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ فقیر کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
انسان میں چند لطیفے ودیعت فرمائے ہیں۔ اور ان میں سے ہر ہر لطیفہ کی اپنی الگ الگ
خاصیت ہے۔ سالک راہ طریقت کو طے کرتے وقت ایک لطیفے سے ترقی کرکے دوسرے لطیفے میں
پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی سلوک کی منزل پوری ہوجاتی ہے۔
اس
اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کا نفس ناطقہ جب اس کے نسمہ یعنی روح ہوائی سے
پیوست ہوا اور اس نسمے اور اس قوتوں کا اثر تمام بدن میں پھیلا تو لامحالا
اس سے اس سے چند صورتیں پیدا ہوں گی۔ ان صورتوں میں سے ہر ہر صورت میں نسمے کا اثر
الگ الگ ہوتا ہے۔
نسمہ
کے اصل شعبے تین ہیں۔ ان میں سے ایک قلب ہے۔ قلب نفس کی کیفیات و احوال مثلاً غصے،
جراءت، حیا، محبت، خوف، انقباض، انبساط، رضا، اور نفرت وغیرہ کا مرکز ہے اور اس کا
صدر مقام سینے کی بائیں طرف پستان سے دو انگل نیچے ہےنسمے کے دوسرے شعبے کا نام
عقل ہے۔ عقل علوم کی حامل ہوتی ہےا اس کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے، جہاں حواس کی
حد ختم ہوتی ہے۔ عقل کا کام یہ ہے کہ وہ
ان چیزوں کو جن تک نہ انسان کی قوت احساس کی دسترس ہوتی ہے اور نہ اس کے وہم
کی تصور کرلیتی ہے۔ اور ان میں سے جس کی
اسے تصدیق کرنا ہوتی ہے، اس کی تصدیق کرتی ہے۔ انسان کی عقل کا مرکز اس کا دماغ
ہوتا ہے۔ نسمے کا تیسرا شعبہ طبعیت ہے۔ وہ چیزیں جن کے بغیر یا جن کی جنس کے بغیر
انسان کی زندگی قائم نہیں رہ سکتی، جیسے کہ کھانا، پینا، نیند اور شہوانیت وغیرہ
ہیں۔ طبعیت انسان کے ان جبلی تقاضوں کی حامل ہے۔ اور اس کا مرکز جگرہوتا ہے۔
انسان پر اگر بہیمی قوت کا
غلبہ ہوجائے تو اس کا قلب، قلب بہیمی بن جاتا ہے اور قلب بہیمی سے مراد یہ ہے کہ
انقباض و انبساط اور غصہ و رضا جیسی لطیف کیفیات قلب بہیمی والے کے لیے لطیف
نہیں رہتی بلکہ وہ ٹھوس مادی نفسانی لذتوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ اور قلب
بہیمی والا کبھی اس سے بھی نیچے اتر آتا ہے چنانچہ اس حالت میں شیطانی وسوسے اس کو
اپنا مرکب بنا لیتے ہیں۔ اور اس کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ خارجی اسباب اور
بیرونی اثرات کے بغیر ہی اس کے دل سے طرح طرح کے شیطانی وسوسے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
اور ان کی وجہ سے اس کی عقل اس حد تک ماؤف ہوجاتی ہے کہ وہ ہمیشہ نفس کی ادنٰی
خواہشات کی طرف مائل رہتی ہے۔ اب اس شخص میں اگر شہوت کا غلبہ ہوگا تو یقینی
طور پر اس کے دماغ میں جماع کے خیالات کثرت سے آئیں گے۔ اور اگر اسے بھوک
ہوگی تو اس کا خیال انواع و اقسام کے کھانوں کا تصور کرے گا۔ اسی پر نفس کی دوسری
خواہشات کا بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔
کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ قلب بہیمی والا اس مقام سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور اس حالت
میں وہ شیطانی وسوسوں کو کھلے بندوں تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی اسے اچھے نظام
توڑنے کی فکر ہوتی ہے اور کبھی یہ اعتقاد حقہ میں شکوک پیدا کرتا ہے۔ غرضیکہ وہ اس
طرح کے مفاسد میں اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ اس کی طبعیت سرتاپا نفس امارہ بن جاتی
ہے، اور پھر جو بھی اس کے جی میں آتا ہے، کرتا ہے، اور جس راہ پر چاہتا ہے، چل
دیتا ہے۔ نہ اس کی عقل اس میں مانع ہوتی ہے اور نہ شرع کی کوئی قید اس کا راستہ
روکتی ہے۔
اب
ایک شخص ہے، جس کی ملکی اور بہیمی قوتوں میں ہم آہنگی ہے اور یہ دونوں قوتیں آپس
میں ایک ایسے مقام پر مل گئیں ہیں، جو ملکیت اور بہیمیت دونوں کے لیے بیچ کی منزل
ہے۔ ان دونوں قوتوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے اس شخص کے مزاج میں اعتدال پیدا ہوجاتا
ہے۔ ایسے شخص کا قلب قلب انسانی کہلاتا ہے۔ اس شخص کی محبت، اس کا خوف، اس کی
رضامندی اور اس کی ناراضگی۔ یہ سب چیزیں حقانیت پرمبنی ہوتی ہیں۔ یہ شخص دوزخ سے
ڈرتا ہے۔ بہشت کی اسے تمنا ہوتی ہے۔ علیٰ ہذالقیاس۔ اسی طرح اس کی دوسری باتوں
کا قیاس کرلو۔
جس
شخص میں قلب انسانی ہوتا ہے، اسے مجاہدے کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ وہ مجاہدے کے
ذریعے سے دل کو غفلت سے باز رکھ سکے۔ وہ شخص جس کا قلب، قلب بہیمی ہے۔ اس کا نفس،
نفس امارہ ہوتا ہے۔ لیکن قلب انسانی والے کا نفس، نفس لوامہ ہوتا ہے۔ اس شخص
کے نفس کی مثال یوں سمجھیے، جیسے کہ ایک سرکش گھوڑا ہو اور اسے لگام کے ذریعے قابو
میں رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس شخص کی عقل، عقل انسانی کہلاتی ہے۔ چنانچہ یہ ہر
اس چیز کی تصدیق کرتی ہے، جس کی کہ تصدیق کرنی چاہیے۔ اور تصدیق ہی کی کیفیت اس شخص
کے جملہ احوال و کوائف پر غالب رہتی ہے۔
قلب
انسانی۔ نفس لوامہ اور عقل انسانی کا مقام نیکوکاروں کا ہے اور علمائے دین کا ہے۔
اور احکام شریعت کا عمل دخل اس مقام کے لوازم میں سے ہے۔
جس
شخص میں ملکی قوت زور ہو، اور اس کے مقابلے میں اس کی بہیمی قوت اس طرح زیر
ہوجائے، گویا کہ اس کا کہیں وجود نہ تھا تو اس شخص کا قلب روح بن جاتا ہے۔ اس مقام
میں اسے مجاہدوں اور ریاضتوں سے نجات مل جاتی ہے۔ چنانچہ قبض کے بغیر اسے بسط کی
کیفیت میسر آتی ہے۔ قلق و اضطراب کے بغیر وہ الفت و محبت سے بہرہ یاب ہوتا ہے اور
بے ہوش ہوئے بغیر اسے وجد آتا ہے اور اس طرح اس شخص کی عقل ترقی کرکے
"سر" بن جاتی ہے۔
عقل جب "سر "کی منزل کو پہنچتی ہے،
تو غیب سے بلند مرتبہ علوم و معارف کو حاصل کرتی ہے۔ لیکن اس کا ان علوم کے حصول
کا طریقہ وہ نہیں ہوتا، جو عام طور پر جاری و ساری ہے۔ یعنی یہ کہ فراست سے کوئی
بات معلوم کرلی یا کشف سے کسی سے علم حاصل کرلیا یا ہاتف سے کوئی بات سن لی۔
چنانچہ وہ شخص جس کی عقل سر بن جاتی ہے۔ وہ مقام بے نشانی کو اپنا نصب العین بناتا
ہے۔ اس شخص کا نفس ، نفس مطمئنہ ہوتا ہے کہ شرع و عقل کی مرضی کے خلاف وہ کسی
خواہش کا خیال تک نہیں کرتا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں، وہ بھی صراط
مستقیم کے مطابق ہوتے ہیں۔ باقی اس شخص کے اعمال کا تو کیا کہنا۔ یہی ولایت صغریٰ کا
مقام ہے۔
ولایت صغریٰ کے بعد اگر عنایت الٰہی
اس شخص کے، جس کا نفس"نفس مطمئنہ" قلب، روح اور عقل "سر" ہوتی
ہے۔ شامل حال رہے تو وہ اس سے آگے اور ترقی کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں سے اس کے سامنے
دو راہیں کھلتی ہیں۔ ایک ولایت کبریٰ کی راہ اور دوسری مفہمیت کی راہ۔
مفہمیت کو نور نبوت اور وراثت نبوت کا بھی نام دیا گیا ہے۔
ولایت کبریٰ کی حقیقت یہ ہے کہ
جب انسان نسمہ اور اس کی متعلقہ قوتوں کو اپنے آپ سے الگ کردے، لیکن اس ضمن میں یہ
ملحوظ رہے کہ نسمہ اور اس کی متعلقہ قوتوں کو اپنے آپ سے جسمانی طور پر الگ کرنا
ممکن نہیں ہوتابلکہ علیحدگی کا یہ عمل صرف بصیرت اور حال و کیفیت ہی کے
ذریعے ہوتا ہے۔ الغرض جب انسان نسمہ اور اس کی متعلقہ قوتوں کو اپنے آپ سے الگ
کردے اور اس کے بعد وہ اپنے آپ میں غور کرے اور اپنے باطن کی گہرائیوں میں ڈوب
جائے تو اس حالت میں نفس کلیہ جو کل کائنات کی اصل ہے، اس شخص پر منکشف ہوجاتا ہے،
لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ آخر نفس کلیہ اس شخص پر کیسے منکشف ہوگیا؟
بات یہ ہے کہ انسان میں جو نفس ناطقہ ہے ، وہ
اصل میں نفس کلیہ کے تنزلات میں سے ایک تنزل اور اس کے ظہورات میں سے ایک ظہور ہے۔
چنانچہ جب انسان کا نفس ناطقہ سب چیزوں سے پورا انقطاع کرکے اپنے متعلق غور کرتا
ہے اور اپنے آپ کو جاننے اور اپنی اصل تک پہنچنے کے لیے پیچھے کی طرف جاتا
ہے، جہاں سے کہ اس کے وجود کی نمو ہوئی تھی، تو وہ اپنے سامنے نفس کلیہ پاتا ہے،
جو کائنات میں ہر جگہ جاری و ساری ہے۔عام اہل اللہ نے اس نفس کلیہ کا نام"
وجود" رکھا ہے اور کائنات میں اس کے ہر جگہ جاری و ساری ہونے کے علم کو وہ
"معرفت سریان وجود" کہتے ہیں۔ اور انسان کا نفس ناطقہ جب نسمہ اور اس
کےمتعلقہ قوتوں کے اثرات سے پاک اور خالص ہوکر نفس کلیہ کے ساتھ اپنا الحاق قائم
کرلیتا ہے۔ تو نفس ناطقہ کو اس خاص حالت میں" خفی "کا نام دیا جاتا ہے۔
فقیر
کو بتایا گیا ہے کہ ولایت کبریٰ کے حصول کا سب سے قوی ذریعہ یہ ہے کہ
جب سالک پر مقام بے نشانی منکشف ہوجائے تو پھر وہ مرااقبہ احاطہ یعنی "ان
اللہ علی کل شی محیط ترجمہ بے شک اللہ ہر شے پر محیط ہے"کا مراقبہ کرے۔ بعد
ازاں وہ "لا الہ الا اللہ" کا ذکر کرے، لیکن یہ ذکر کرتے وقت وہ
"لا الہ الا اللہ" کے ضمن میں "لا موجود الا اللہ" کے مفہوم
کو ملحوظ نظر رکھے۔
مفہیمیت
کی حقیقت یہ ہے کہ جب نفس ناطقہ نسمہ کی غیر لطیف قوتوں سے اعرض کرلیتا ہےتو وہ
ملاء اعلیٰ سے
ملحق ہوجاتا ہے اور اس حالت میں نفس ناطقہ میں وہ علمی صورتیں منکشف ہوجاتی ہیں جو
ملاء اعلیٰ میں
موجود ہوتی ہیں۔ اور اس طرح انسان کا نفس ناطقہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ واجب
والوجود کی معرفت کو ان معنوں میں کہ اس ضمن میں اللہ کی قدرت کے جملہ کمالات از
قسم ابداع، خلق، تدبیر اور تدلیٰ کا بھی علم آجائے، اجمالی طور پر حاصل
کرسکتا ہے۔ مقام مفہیمیت کی ان خصوصیات ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ افراد کاملہ جن کو یہ
مقام عطا ہوتا ہے، ان کے کلام میں تشبیہات کی بڑی کثرت ہوتی ہے۔ گو تشبیہات کے
ساتھ ساتھ کہیں کہیں ان کے کلام میں تنزیہی پہلو بھی ملے ہوتے ہیں۔ اور نیز ان
لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے شرائع و قوائد کے احکام کا علم حاصل ہوتا
ہے۔ اور حظیرا لقدس میں نئے نئے حالات کے مطابق جو فیصلے ہوتے ہیں، یہ لوگ ان سے
بھی باخبر رہتے ہیں۔
ہم
ابھی بیان کر آئے ہیں کہ ولایت صغریٰ کے مقام سے سالک جب ترقی کرتا ہے، تو
اس کے سامنے دو مقام آتے ہیں، ایک ولایت کبریٰ کا مقام اور دوسرا
مقام مفہیمیت۔ اور مفہیمیت کو نور نبوت اور وراثت نبوت بھی کہتے ہیں۔ جہاں تک اصل
نبوت کا تعلق ہےاس کی حقیقت یہ ہے کہ نبوت دو جانب سے معرض وجود میں آتی ہے۔ اس کی
ایک جانب تو نبوت قبول کرنے والے کی ہوتی ہے یعنی نبی کے نفس ناطقہ کی۔ چنانچہ جب
نفس ناطقہ جب مقام مفہیمیت کو حاصل کرلیتا ہے تو نبوت کی ایک شرط یا ایک جانب سے
پوری ہوجاتی ہے اورنبوت کی دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی
طرف سے نبی کا مبعوث ہونا ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی
تدبیر اس امر کی متقاضی ہوتی ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے اعمال بد سے ڈرائے، ان کو راہ
ہدایت کی طرف بلائے، ان میں مفاسد و مظالم دور کرنے اور اسی قبیل کے دوسرے امور کو
سرانجام دینے کے لیے کسی شخص کو مبعوث کرے تو اس طرح نبوت کی دوسری شرط یا
دوسری جانب سے بھی پوری ہوجاتی ہے۔ الغرض نبوت دو امور سے ترکیب پاتی ہے، ایک نبی
کے نفس ناطقہ کی ذاتی صلاحیت، اسی کا نام مفہیمیت ہے اور اس کو نور نبوت اور وراثت
نبوت کہنے کی بھی یہی وجہ ہے اور دوسری چیز اللہ تعالیٰ کا کسی شخص کو نبی
مبعوث کرنے کا ارادہ ہے۔
ہمارے
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد گو نبوت ختم ہوگئی۔ لیکن اجزائے
نبوت کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ اجزائے نبوت سے یہاں مراد مفہیمیت سے ہے۔ جس کا
سلسلہ اب تک منقطع نہیں ہوا۔ چنانچہ وہ بزرگ جو مقام مفہیمیت پر سرفراز ہوتے ہیں،
وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب کی
حیثیت سے دین کی تجدید فرماتے ہیں۔ نیز وہ سلوک و طریقت میں ارشاد و ہدایت کے منصب
پر فائز ہوتے ہیں۔ اور جو برائیاں لوگوں میں پھیلی ہوتی ہیں، ان کا وہ سد باب کرتے
ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جو حالات و اسباب اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ ایک نبی دنیا
میں مبعوث ہوبعینہ اس طرح کے حالات و اسباب ان افراد مفہیمین کے ظہور کا بھی
تقاضا کرتے ہیں کہ وہ نبی کے بعد آئیں اور اس کے دین کی تجدید کریں اور سلوک و
طریقت کی طرف لوکوں کو ہدایت دیں اور مفاسد کا قلع قمع کریں۔
افراد
مفہیمین کی اس جماعت میں سے جو ذکی ہوتے ہیں وہ تو منصب مفہیمیت کے اس سر کو سمجھ
لیتے ہیں۔ اور جو ذکی نہیں ہوتے، ان کو تدبیر الٰہی لکزی اور پتھر کی طرح
ایک حالت سے دوسری حالت میں برابر چکر دیتی اور ردو بدل کرتی رہتی ہے۔ یہاں تک کے
قدرت کو جو کام ان سے لینا مقصود ہوتا ہے، وہ اسے سرانجام دے دیتے ہیں۔ بات یہ ہے
کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی ایک صورت عالم مثال میں موجود تھی،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مبعوث ہوگئے تو نبوت کی یہ مثالی صورت بھی منتشر
ہوگئی اور اس طرح نبوت کی حقیقت اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ گو اب اور کوئی نبی نہیں
آئے گا لیکن افراد مفہیمین پر جن چیزوں کا فیضان ہوتا رہتا ہےوہ سب نبوت ہی
کے انوار، اس کے اشباح اور تمثیلیں ہوتی ہیں۔
یہاںطریقت
ا ور سلوک کے صرف ان پہلوؤں پر بحث کی گئی ہےجن کا تعلق سالک کے ارادہ و قصد اور
اس کے مجاہدے اور ریاضت سے ہے۔ اسی لیے "مقام فردیت "کے ان کمالات کا
بیان کرنا جو سرتاپا وہبی ہیں، اور سالک کے قصد و ارادے کا ان میں مطلق دخل نہیں،
یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا۔
خلاصہ
مطلب یہ ہے کہ انسانی لطائف یعنی لطیفہ قلب، لطیفہ عقل اور لطیفہ طبعیت کے مدارج
ترقی کو سمجھنے کےلیے اصل اصول یہ ہونا چاہیے کہ راہ سلوک کے جن مقامات اور
احوال کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں، ان کو پیش نظر رکھا جائے۔ اور پھر اہل اللہ کے
وہ معاملات اور واقعات جو ان احوال اور مقامات پر دلالت کرتے ہیں، وہ بھی ملحوظ
خاطر رہیں۔ اس ضمن میں انسانی لطائف کو سمجھنے کے لیے کیفیات و الوان اور اس قبیل
کی اور چیزوں کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ عام طور پر بعد کے صوفیاء کہتے
ہیں۔
آخر
میں ہم اس امر کی بھی وضاحت کردیتے ہیں کہ اس مسئلے میں کہ" سر" مقدم
ہے" روح "سے یا "روح "مقدم ہے" سر "سے۔ صوفیائے
متقدمین میں اختلاف رہا ہے۔ "سر" اور" روح" دونوں کا آپس کا تعلق یوں سمجھیے، جیسےکہ گھوڑ کے دوڑ
میں دو گھوڑے دوڑ رہے ہوں۔ اور دونوں ہم عناں اور برابر ہوں۔ ان میں سے کبھی ایک
اپنی استعداد کی وجہ سے آگے بڑھ جائے اور دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آئے۔ اور کبھی
دوسرا آگے بڑھ جائےاور پہلا اس کے پیچھے پیچھے آئے۔ ([6])
خلاصہ
کلام:
انسان کے اشرف ہونے کا ایک اہم راز اسکے دیکھنے ،سننے کی صلاحیتوں کیساتھ اسکا صاحب عقل اور فہم و ادراک کا حا مل ہونا ہے۔ اسی عقل و شعور پر انسان کو مکلف بنایا اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف استعدادوں پر پید کیا ہےاور ہر انسان اپنی فطری استعداد کے مطابق ہی کمال حاصل کرتاہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو دوقوتیں ودیعت کی ہیں ایک قوت ِ ملکیہ( علوی رجحان) اور دوسری قوت بہیمیہ( سفلی رجحان)۔ جب انسان پر سفلی رجحانا ت کا غلبہ ہوتاہے تو وہ سراپا حیوانیت اور بہیمیت کا پیکر بن جاتا ہے۔ اور اُس میں ملکیت اور علویت کا اثر تک باقی نہیں رہتا اور جب علوی رجحان اس پر غلبہ پا لے تو وہ بالکل فرشتہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں چند لطیفے ودیعت فرمائے ہیں۔ اور ان میں سے ہر ہر لطیفہ کی اپنی الگ الگ خاصیت ہے۔ سالک راہ طریقت کو طے کرتے وقت ایک لطیفے سے ترقی کرکے دوسرے لطیفے میں پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی سلوک کی منزل پوری ہوجاتی ہے۔
0 Comments