’’ما وراء النہر‘‘کا مختصر تعارف
تحقیق کار: لبنیٰ شاہ
شعبہ علوم اسلامیہ
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان
﷽
ماوراء
النہر (Transoxiana)وسط
ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں موجودہ ازبکستان([1])، تاجکستان اور
جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ جغرافیائی طور پر اس کا مطلب آمو
دریا اور سیر دریا کے درمیان کا علاقہ ہے، جہاں پہلے یہ ملک آباد
تھا ماوراء النہر کے اہم ترین شہر سمرقند اور بخارا،خجند،اشروسنہ اور ترمذ شامل
تھے۔ پانچ صدیوں تک یہ ملک اسلامی ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین ملک رہا ہے
یہ بہت مشہور بزرگ علما ،دانشور، درویش اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔1917ء
تا 1989ء تک روسی تسلط میں رہا اب ازبکستان کا حصہ ہے۔
"ما
وراء النہر " کے معنی ہیں " وہ علاقے جو نہر کے پیچھے ہیں ۔یہاں ماوراء النہر سے مراد و سطی ایشیا کا ایک وسیع تاریخی علاقہ
ہے۔پہلی صدی میں جب عربوں نے اس علاقہ کو فتح کیا تو اس کو ”ماوراء النہر“ کہا۔
جغرافیائی اعتبار سے یہ ”دریائے آمو“ ([2]
) اور ”دریائے سیر“([3] )کے
درمیان واقع ہے۔ آمو دریا اس زمانے میں
فارسی اور ترکی ممالک کے درمیان حد فاصل شمار کیا جاتا تھا۔
تاریخی
اعتبار سے سمرقند([4])،
بخاری، فرغانہ، طاشقند، خوارزم، مرو، ترمذ وغیرہ مشہور شہر اس میں شمار ہوتے تھے۔
اس میں پانچ صوبے تھے جن کے نام یہ ہیں:
(1)
صوبہ صغد، جس میں بخاری سمرقند واقع تھا۔
(2) صوبہ
خوارزم۔ يقع غربي إقليم
الصغد، ويعرف اليوم بإقليم (خيوة) ، ويشتمل على دلتا نهر جيحون.
(3)
صوبہ صغانیان۔ يقع في أعالي نهر جيحون۔
(4) صوبہ ختل۔
يقع في أعالي نهر جيحون، إلى الشرق من الصغانيان۔
(5)
شاش، جس کو طاشقند بھی کہا جاتا تھا۔ اور
موجودہ دور میں ترکمانستان، ازبکستان، تاجاکستان، کرغیزستان اور قازقستان وغیرہ
ممالک اس میں واقع ہیں۔
فارسی
کے معروف شاعر فردوسی کے شاہنامے میں بھی ماوراء النہر کا ذکر
ہے۔
چنگیز
خان نے 1219ء میں خوارزم شاہی سلطنت کی فتح کے موقع پر ماوراء
النہر کو زیر نگیں کیا اور اپنی وفات سے قبل مغربی وسط ایشیا اپنے دوسرے
بیٹے چغتائی خان کو سونپ دیا جس نے علاقے میں چغتائی
سلطنت قائم کی۔
امیر
تیمور نے ماوراء النہر کے شہر سمرقند کو تیموری سلطنت کا
دار الحکومت بنایا۔
عربوں
نے 642 میں نہاوند کی لڑائی میں اپنی فیصلہ کن فتح کے بعد کی دہائی میں وسطی ایشیاء
تک رسائی حاصل کی تھی ، جب انہوں نے سیستان اور خراسان پر قبضہ کرکے سابقہ سلطانی سلطنت
پر فتح مکمل حاصل کی ۔ خراسان کا دارالحکومت مرو 651 میں عبد اللہ ابن عامر نے فتح
کیا اور اس کے ساتھ ہی خلافت کی سرحدیں ندی آکسس(جیحون) (جدید آمو دریا) تک پہنچ گئیں۔
اوکسس(جیحون ، آمو دریا) — ٹرانس اوکسانیا سے باہر کی زمینیں ، جنھیں عرب "دریا
سے آگے کی زمین" ( ماوراء النہر ) کہتے تھے - اس سے مختلف تھی جن سے عربوں کو
پہلے سامنا کرنا پڑا تھا: نہ صرف انہوں نے ہندوکش کے دور دراز پہاڑوں سے لے کر زرخیز
ندیوں کی وادیاں اور نخلستان کے شہروں کے ساتھ صحراؤں تک پھیلی ہوئی متنوع ٹپوگرافی
کو محیط نہیں رکھا ، اس کو مہذب اور خانہ بدوش دونوں طرح کے لوگوں نے بھی آباد کیا
، اور فارسیوں کی شاہی انتظامیہ کی بجائے ، خطے کو بہت سی چھوٹی چھوٹی چھوٹی ریاستوں
میں تقسیم کیا گیا تھا۔
ماوراء
النہر کی مسلم فتح یا ماوراء النہر کی عرب فتح ، ساتویں اور آٹھویں صدی ، اموی اور
عباسی عرب کے ذریعہ ، ٹرانس اوکیسانا(ماوراء النہر) کی فتح تھی ۔ آمودریا(جیحون) اور
سردریا(سیحون) دریاؤں کے درمیان کی زمین ، وسط ایشیاء کا ایک حصہ جس میں آج ازبکستان
، تاجکستان ، قازقستان اور کرغزستان کے تمام حصے شامل ہیں۔
ترمذ
ایک قدیم شہرہے جو نہر بلخ کے ساحل پر واقع ہے، اسے جیحون بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ماوراء
النهرمیں بھی نہر سے اکثریہی نہر بلخ مراد لی گئی ہے۔ کسی زمانہ میں یہ شہر نہایت مشہور
تھا لیکن چنگیز خاں کے ہنگامہ میں تباہ وبرباد ہو کر صرف ایک قصبہ رہ گیا ہے۔
[1] ۔ ازبکستان، باضابطہ نام جمہوریہ ازبکستان (ازبک زبان: O‘zbekiston Jumhuriyati، اوزبکستون جمہوریتی) وسط ایشیا خشکی
سے محصور (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب و شمال میں قازقستان، مشرق میں
کرغزستان اور تاجکستان اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔
2 ۔آمو دریا وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے جبکہ یہ دریائے
جیحوں بھی کہلاتا ہے۔ پامیر کے پہاڑوں سے نکلنے والے اس دریا کی کل لمبائی 2400 کلومیٹر
(1500 میل) ہے اور یہ افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے ہوتا ہوا بحیرہ
ارال میں گرتا ہے۔ اس میں پانی کا سالانہ اخراج 55 مکعب کلومیٹر ہے۔
اس دریا کو
افغانستان اور تاجکستان، افغانستان اور ازبکستان اور افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان
سرحد قرار دیا گیا ہے۔
3۔سیر دریا یا دریائے سیحوں وسط ایشیا
کا ایک اہم دریا ہے۔ یہ دریا کرغزستان اور ازبکستان کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور مغربی
اور شمال مغربی ازبکستان اور جنوبی قازقستان میں 2220 کلومیٹر (1380 میل) کا سفر طے
کرنے کے بعد بحیرہ ارال میں جاگرتا ہے۔
دریا کا سالانہ
بہاؤ 28 مکعب کلومیٹر ہے جو اس کے ساتھی دریا دریائے جیحوں کا نصف ہے۔
0 Comments